ابھی ابھی میں مفتی منیب الرحمن اور شاہ محمود قریشی کی میڈیا سے گفتگو سن کر اٹھا ہوں۔پوری قوم جذبات کے مقابل چرب زبانوں کے رحم و کرم پر تھی۔یہ کوئی چھوٹی بات نہ تھی کہ جی ٹی روڈ مریدکے‘گوجرانوالہ سے لے کر وزیر آباد تک بند تھی۔اس کے آگے کا راستہ بھی چناب سے لے کر جہلم تک خطرے میں تھا۔راولپنڈی اور اسلام آبادمیں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔سرکار کے چرب زبان اپنی ہانک رہے تھے اور ملک میں سکیورٹی کے شدید خطرات پیدا ہو گئے تھے۔ایسے میں داد دینا پڑتی ہے،ان دھرنا دینے والوں کو بھی جنہوں نے اپنی نمائندگی کے لئے مفتی منیب الرحمن جیسے سنجیدہ افراد کو منتخب کیا۔ ایک نکتے کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس ملک میں دین کی جو تعبیریں بھی عقل و منطق کی روشنی میں ہوتی ہیں،ان میں اگر عشق رسولؐ کا عنصر خارج کر دیا جائے تو وہ کبھی مثبت نتائج نہیں لاتیں۔خارجیوں سے زیادہ منطقی کون ہو گا۔ایسے ایسے دلائل لاتے کہ حضرت علی ؓ کو کہنا پڑا کہ کم بخت درست بات غلط موقع پر کہہ رہے ہیں۔حضرت علیؓ کا یہ فرمان ایک ایسے خارجی کے بارے میں ہے جو وہ قرآن کی ایک آیت سے اخذ کیا کرتے تھے۔ذاتی طور پر علماء کا ایک بڑا گروہ کا لعدم تحریک لبیک کے انداز اور رویے سے شاکی رہا ہے۔علماء سے مراد وہ علماء ہیں،جو دینی مسلک رکھتے ہیں جو کالعدم تحریک لبیک کا ہے۔یہی برصغیر کے جمہور عوام کا اسلام ہے۔یہ سب ان صوفیا کرام کا دین ہے،جنہوں نے اس برصغیر میں لوگوں کے دلوں کے مسخر کیا اور پھر ان پر حکمرانی کی۔خوش قسمتی سے یہی وہ لوگ تھے،جن کے کسی ایک فرد پر بھی تحریک پاکستان کی مخالفت کا الزام نہیں۔اس لحاظ سے ہمارا مزاج ترکی کے مزاج سے ملتا ہے۔ایک طرح کی روحانیت ہمارے رگ و پے کا حصہ ہے۔جس نے اس کو نظرانداز کیا منہ کی کھائی حتیٰ کہ یہ تک کہا جاتا ہے کہ جب ضیاء الحق نے ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے لئے ان علماء کی مدد حاصل کی جن کی دینی روایت برصغیر کے مزاج سے الگ تھی تو اس میں بڑے مسائل پیدا ہوئے۔ ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمارے یہ اکثریتی مکتب فکر بوجوہ کبھی تشدد پر مائل نہ ہوا،حتیٰ کہ افغان جنگ کے دوران بھی وہ پیچھے رہا،جس سے انہوں نے یہ الزام بھی سہا کہ وہ گویا جہاد کے قائل نہیں ہیں،مگر وہ اپنے موقف پر قائم ہے۔وگرنہ انہیں افغانستان سے کم محبت نہ تھی۔ان کے تو سارے بزرگ اس راستے سے آئے تھے،جو افغانستان سے ہو کر گزرتا ہے بلکہ وہیں سے آتا ہے۔سب سے بڑی مثال داتا گنج بخشؒ کی ہے۔ہمارے جمہور کے نزدیک ان کا تصوف سب اسی سرزمین سے گزر کر ہم تک پہنچا ہے۔یہ ایک لمبی علمی‘دینی اور تہذیبی بحث ہے،جو میں اکثر کرتا رہتا ہوں۔کہنا میں چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کی خاموشی کو غلط سمجھا گیا ،جس کا ردعمل شدید ہونا ناگزیر تھا۔میرے دوست اوریا مقبول جان‘حضرت خادم حسین رضوی کے بڑے قائل تھے۔ان کے عشق رسولؐ اور اقبال فہمی کی داد دیتے رہتے تھے۔مرا رجحان البتہ ان علماء کے ساتھ تھا، جو تحفظ رکھتے تھے۔تاہم جب خادم حسین رضول اللہ کے حضور حاضر ہوئے اور ان کے سفر آخرت پر ایک خلق خدا امڈی چلی آئی تو مجھے یہ بات سمجھ آ گئی کہ یہ کسی عالم کے رویے کی بات نہیں یہ عشق رسولؐ کا معاملہ ہے۔یہ عاشق رسولؐ بڑے بڑے عالموں کو پیچھے چھوڑ گیا۔ان کے انتقال کے بعد ریاست نے اپنا رویہ بدلا۔پہلے تو یہ بات ہی غلط تھی کہ ان لوگوں کے جذبات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔نہ میں فیض آباد کے دھرنے کی بات کر رہا ہوں نہ ان کے الیکشن میں حصہ لینے کی۔اب کوئی کہہ رہا تھا کہ یہ تو فرینکن سٹائن والی بات ہو گئی کہ اپنا بنایا ہوا عفریت قابو سے باہر ہو گیا ،گویا آپ جن کو تو بوتل سے باہر لے آئے‘اب واپس ڈالنے کا عمل آپ کو نہیں آتا۔آپ اس جن سے گشتی لڑنا چاہتے ہیں۔وہ ایک پہلوان کا واقعہ ہے تاکہ وہ ساری رات ایک جن سے کشتی لڑتا رہا۔وہ اسے زیر نہ کر سکا‘خود بھی زیر نہ ہوا۔ مگر اگلے روز میں اسے ایسا بخار چڑھا کہ جانبر نہ ہو سکا۔ہماری ریاست کا پہلوان بڑا طاقت ور ہے مگر اسے احتیاط کرنا چاہیے۔ایک بات اور عرض کر دوں کہ ریاست نے جن انتہا پسند قوتوں کی حمایت چاہے جتنی بھی نیک نیتی سے کی ہو‘وہ بالآخر ان کے لئے اور ریاست کے لئے خطرہ نہیں۔میں نے یہ سب کچھ ایم کیو ایم کے حوالے سے دیکھا ہے۔کاش ہمارے ہاں بھی ایسا ہوتا کہ ایک عرصے کے بعد‘چلئے تیس سال بعد خفیہ ریکارڈ عام کر دیا جاتا تو کوئی ایم کیو ایم کی اصل تاریخ تیار کرتا۔ہمارے لئے اس میں بڑے بڑے سبق ہیں۔اب بھی ہمیں سبق سیکھنا چاہیے اور یہ جان لینا چاہیے کہ ہم اپنے اندر اٹھنے والی تخریبی قوتوں سے درست طور پر نہیں نپٹتے رہے۔یہ تو شاید خدا کو اس ملت میں عشق رسولؐ کے جذبے کو تازہ کرنا لکھا تھا کہ حکومتوں کی غلطیوں کی وجہ سے یہ جذبہ ابھر کر سامنے آ گیا۔خیال رہے میں محض دینی حمیت کی بات نہیں کر رہا عشق رسولؐ کی بات کر رہا ہوں: اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسباں عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے یہ قوت اب بے قابو ہو گئی تھی۔مجھے بڑی خوشی ہے کہ علماء اور مشائخ کے بڑے حلقے نے آگے بڑھ کر مداخلت کی اور اپنی نمائندگی یا سربراہی کے لئے مفتی منیب الرحمن کو منتخب کیا۔یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ان لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ ہمیں ایسے جذبات کو قابو رکھنے کیلئے کسی پاسباں کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ مفتی منیب الرحمن نے یہاں جو نپی تلی گفتگو کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔اس کے ایک ایک لفظ کا تجزیہ ہونا چاہیے تاکہ اہل نظر جان لیں کہ حق کا راستہ کیا ہے۔