ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر وقت کسی نجات دھندہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ کسی ایسے طلسماتی کردار کی راہ تکتے ہیں جو آئیگا اور ہمارے سارے زخم سی دے گا، ہمارا ہر دکھ سکھ میں بدل دے گا اور ہماری ہر محرومی کو مسرت و شادمانی کا خوش رنگ لباس پہنا دے گا۔ ہم اجتماعی دانش کی اہمیت کو ابھی تک سمجھتے ہیں اور نہ ہی سمجھنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا جونہی کوئی دو حرف تسلی کے کہتا ہے ہم اس سے ساری امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو افسانہ سنا ڈالا تصویر دکھا ڈالی حکومت دو تین ماہ تک ٹامک ٹوئیاں مارتی رہی اور جب معاملہ عدالت عظمیٰ کے سامنے آیا تو پھر تین چار روز تک حماقتوں اور مزید حماقتوں سے کام لیا گیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا مرحلہ آیا تو جناب عمران خان کے کسی صلاح مشورے کی ضرورت محسوس نہ کی اور اپنی طرف سے ایک دوسطری فرمان جاری کروا دیا گیا کہ آرمی چیف کی تین سال کے لیے دوبارہ تقرری کی جاتی ہے۔ جب یہ بات وزیراعظم کے علم میں لائی گئی کہ توسیع یا دوبارہ تقرری کا نوٹیفکیشن وزیراعظم نہیں صدر جاری کرتا ہے البتہ وہ وزیراعظم کے مشورے کا پابند ہوتا ہے تو ایوان صدر سمری بھیج دی گئی۔ اس موقع پر یہ قانونی سقم سامنے آیا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری سے آرمی چیف کی تقرری یا توسیع کی جاتی ہے۔ کابینہ سے بھاگ دوڑ میں جو منظوری لی گئی اس پر صرف 11 ارکان کے دستخط تھے جو ناکافی تھے۔ یوں پی ٹی آئی حکومت نے ایک بعد ایک بحران پیدا کرنے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے لیے ایک اور بحران پیدا کرلیا۔ جب معاملہ عدالت کے سامنے آیا اور اس دوران عدالت کی فراہم کردہ مہلت کے باوجود تین چار روز تک وزارت قانون کے تیار کردہ نوٹیفکیشن اور سمریاں حکومت عدلیہ میں پیش کرتی رہی جنہیں مسترد کردیا گیا۔ اس موقع پر عدالت نے بڑے تندوتلخ ریمارکس دیئے اور تین بڑے اہم سوالات پوچھ لیے ایک تو یہ کہ ریٹائرڈ شخص کو کیسے آرمی چیف لگایا جاسکتا ہے؟ نیز حکومت توسیع دینے کی وجوہ واضح کرے اور اپنایا گیا پروسیجر بتائے۔ اس موقع پر عدالت نے لگی لپٹی رکھے بغیر یہ بھی کہہ دیا کہ وزارت قانون نے بڑی محنت سے کیس خراب کیا ہے اورسمری پڑھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ ان کی ڈگریاں چیک ہونی چاہئیں۔ آفرین ہے حکومت پر کہ اتنی واضح آبزرویشن کے باوجود اس عطار کے ’’لڑکے‘‘ سے دوا لینے پر مصر ہے اور وزیر قانون فروغ نسیم کو ایک امرت دھارا بنا لیا گیا ے نہ جانے کیوں؟ پہلے اس وزیر قانون نے حکومت کا کیس خراب کیا اور آرمی چیف کے انتہائی قابل احترام منصب کے لیے سوالات کھڑے کرنیکا باعث بنے پھر مستعفی ہو کر آرمی چیف کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔ حکومت نے اپنے رویے سے خود کو ایک ایسی بند گلی تک پہنچا دیا تھا کہ جس کے دوسری طرف دور دور تک کوئی راستہ نہ تھا۔ اس سارے معاملے میں حکومت کی سیاسی و قانونی نااہلیت پر عدالت عظمیٰ نے مہر تصدیق ثبت کردی۔ اس پیچیدہ صورت حال نے ایک نہیں کئی حقیقتیں آشکار کردیں۔ پہلی تو یہ کہ جناب وزیراعظم حساس سے حساس معاملے پر بھی کسی قسم کی مشاورت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور اپنی مرضی کر گزرتے ہیں اور دوسری یہ کہ وزیراعظم کی سیاسی ٹیم ہویا ان کی قانونی ٹیم اس میں اہلیت ہے نہ صلاحیت۔ ’’نو ایگزیٹ‘‘ والے پریشان کن منظر نامے سے نجات کے لیے خود عدالت عظمیٰ نے راستہ سمجھایا ہے۔ ہمارا کوئی ایک مسئلہ نہیں کئی مسائل ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کے رازوں میں سے ایک سب سے بڑا راز یہ ہے کہ اس کے افراد ہوں یا ادارے انہوں نے قانون و آئین کی روشنی میں اپنے لیے خود ہی حدود و قیود مقرر کی ہوتی ہیں اور کوئی اور ان حدود سے آگے بڑھ کر کسی دوسرے کے کام میں مداخلت کرنے کا تصوربھی نہیں کرتا مگر گزشتہ ستر بہتر برسوں میں ہم نے سیاست و معاشرت بلکہ ہر شعبہ حیات میں جو کلچر اختیار کرلیا ہے اس کے مطابق ہم اپنی حدود سے بڑھ کر دوسروں کے شعبے میں مداخلت کو باعث افتخار سمجھتے ہیں۔ اگرچہ عدالت عظمیٰ نے اپنے طورپر بات کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچائی مگر انہوں نے نہایت حکمت کے ساتھ حکومت کو سانس لینے کی مہلت فراہم کردی ہے۔ حماقت در حماقت اور غلطی در غلطی کی اس مضحکہ خیز مگر تکلیف دہ کہانی کے بعد وزیراعظم سمیت حکومت کے مہروں کو شرمساری اور معذرت خواہی کا اظہار کرنا چاہیے تھا مگر مجال ہے کہ کسی کے رویے میںکوئی سنجیدگی کا کوئی پہلو سامنے آیا ہو۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کہ جن کا قانون سے کوئی تعلق نہیں وہ فرماتے ہیں کہ چھ ماہ نہیں تین برس ڈن ہیں ڈن۔ ابھی تو معاملہ پارلیمنٹ میں گیا بھی نہیں، ابھی تو وہاں قانون سازی ہوئی ہی نہیں اور ابھی تو معاملہ واپس عدالت عظمیٰ کے پاس آیا بھی نہیں اور شیخ صاحب نے پہلے ہی فرمان امروز جاری کردیا ہے۔ جناب وزیراعظم فرماتے ہیں کہ ہمارے قانونی بحران پر بھارت میں بڑی خوشی کا اظہار کیا گیا۔ اب عدالت عظمیٰ کا پیغام آنے کے بعد بھارت کو مایوسی ہوئی اسی طرح اندرونی مافیا کی امیدوں پر بھی پانی پھر گیا۔ اس موقع پر خوداحتسابی اور قانونی ٹیم کی انتہائی ناقص کارکردگی پر ایکشن لینے کی بجائے دوسروں پر الزام عائد کر کے خود فریبی سے کام لیا رہا ہے۔ سٹیٹ کرافٹ ایک سنجیدہ معاملہ ہے یہ غوروفکر اور اپوزیشن کو اپنا ہمسر بنانے اور قومی امور پر ان کے طویل تجربات سے استفادہ کرنے کا نام ہے۔ بڑھکوں اور دھمکیوں سے معاملات بگڑ تو سکتے ہیں سلجھ نہیں سکتے۔ اچھی حکومتوں کا کام صرف عوام کے ووٹ بٹورنا اور انہیں مستقبل کے سہانے سپنے دکھانا ہی نہیں، ان کی تعلیم و تربیت کرنا بھی ہوتا ہے۔ کسی بھی پاکستانی ویب سائٹ پر چلے جائیں کسی بھی وٹس ایپ گروپ میں پیغامات کی آمدورفت پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ پاکستان میں کوئی بھی شخص قابل احترام نہیں جس کا جب دل چاہتا ہے بڑے سے بڑے واجب الاحترام شخص کو سی آئی اے یا بھارت کا ایجنٹ قرار دے دیتا ہے۔ بغیر کسی تحقیق کے جسے چاہتا ہے اسے خائن اور بددیانت کہہ دیتا ہے۔ ہمارے حکمران بھی اپنے سیاسی مخالفین پر جو الزام چاہتے ہیں عائد کردیتے ہیں اور اس معاملے میں ذرا سی بھی خلش محسوس نہیں کرتے۔ یہ کتنی بڑی اخلاقی پستی ہے جس کا ہم بحیثیت قوم شکار ہو چکے ہیں۔ اصلاح احوال کے لیے حکومت کو کوئی فکر مندی ہے نہ سیاست دانوں کو کوئی تشویش ہے اور نہ ہی علمائے کرام کو کوئی پریشانی ہے۔ اسے قوم کی خوش قسمتی ہی کہنا چاہیے کہ سپریم کورٹ نے راستے کی نشاندہی کردی ہے۔ آئین و قانون پر عملدرآمد ہی نجات کا واحد راستہ ہے۔ بعض سیاست دانوں نے یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ آرمی چیف کی تقرری و توسیع عدالتوں کا نہیں ایوانوں کا کام ہے۔ یہی تو عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بندگلی سے نکلنے کا راستہ حکومت کو بتا دیا ہے۔ حکومت کے سامنے ایک نہیں کئی مسائل ہیں جن میں کشمیر، مہنگائی، آرمی چیف کی ایکسٹینشن، سابق صدر مشرف کی آئین سے غداری کا مقدمہ ہے۔ یہ سب مسائل اپوزیشن کے تعاون کے بغیر حل نہیں ہوسکتے۔ اس حقیقت کا حکومت جتنی جلدی ادراک کر کے اس کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ کتنی خوش نصیب حکومت ہے کہ اسے اسٹیبلشمنٹ راستہ دے رہی ہے۔ عدالت راستہ دے رہی ہے حتیٰ کہ اپوزیشن بھی راستہ دینے پر آمادہ ہے مگر اس کا کیا کیجئے کہ خود یہ حکومت اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔