خوشی تو مجھے بھی بہت ہوئی کہ بحران ٹل گیا ہے۔پنجاب کا معاملہ سپریم کورٹ نے اچھی معاملہ فہمی سے طے کر دیا ہے۔جو کام بقول ان کے تیس دن سے نہیں ہو رہا تھا وہ تیس سیکنڈ میں طے ہو گیا ہے۔اب 22جولائی تک پنجاب کے آئینی بحران پر لے دے نہیں ہو گی۔ہم ایک بڑے خطرے اور فساد سے بچ گئے ہیں۔ میں تو ڈاکو راج پر لکھنا چاہتا تھا۔وہ سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تھا۔ایک ایسی خبر کے حوالے سے جو بظاہر نظر انداز ہوئی ہے مگر سپریم کورٹ کے فیصلے نے باغ باغ کر دیا اور میں بھول گیا کہ ہم نے اداروں کا کیا حال کر رکھا ہے۔سپریم کورٹ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے جس کا فیصلہ حرف آخر ہے۔جو آئین کی تشریح بھی کر سکتی ہے اور بعض حالات میں دستوری ترامیم کو کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے۔خصوصاً جب اسے احساس ہو کہ آئین کی بنیادی روح سے انحراف کیا گیا ہے۔اتنی اہم ذمہ داری آئین پاکستان نے عدالت عظمیٰ کو سونپ رکھی ہے۔اس وقت تو سب آنکھیں اس کی طرف دیکھتی ہیں۔ کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ حتمی فیصلہ یہی ادارہ کرے کوئی اور ادارہ نہ کرے۔مطلب صاف یہ کہ فوج کی دخل اندازی سے کہیں بہتر ہے کہ سپریم کورٹ سے رہنمائی لے لی جائے کہ یہ آئینی اور قانونی طریقہ ہے۔ مگر ایک خیال مجھے پہلے دن سے ستا رہا ہے کہ سپریم کورٹ‘ سپریم کورٹ ہے۔مطلب یہ نہیں کہ عدالت نے فریقین کو بٹھا کر مفاہمت کیوں کرائی بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہم نے ملکی معاملات کا یہ حال کر رکھا ہے کہ عدالت اس بات پر مجبور ہوئی کہ ملک کی بہتری کے لئے مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرے۔بقول جسٹس ناصرہ جاوید اقبال: کسی آئوٹ آف باکس سلوشن کو تلاش کرے جو انہوں نے بہرحال کیا اور اچھا کیا۔لیکن اس سے ہماری ملی‘ قومی اور سیاسی زندگی کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے ملک کے اعلیٰ ترین آئینی ادارے سے کیا کام لینا شروع کیا ہے۔قوموں کی زندگیوں میں یہ کوئی خوشگوار صورتحال نہیں ہوتی۔ہم نے ایک زمانے تک فوج سے یہ کام لیا جب ذرا آگ بھڑکی اسے فائر فائٹنگ کے لئے بلا لیا۔پھر شکائتیں کرنے لگے کہ ادارے دخل اندازی کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے موجودہ کردار پر بعض قانون دانوں نے اعتراض بھی کیا یہ کہ ان کا کام مصالحت کنندہ کا نہیں بلکہ انصاف اور قانون کے مطابق فیصلے صادر کرنا ہے۔جیسا کہ ایک جج نے کہا تھا کہ چاہے آسمان گرے یا زمین پھٹ جائے ہمیں تو قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے۔ذرا غور کیجیے کیا آسمان گرنے اور زمین پھٹنے کی نوبت نہیں آن پہنچی۔ملک ایک ایسی انارکی کا شکار ہو گیا کہ بعض وکلاء جو عدالتوں کے بعض فیصلوں کو درست نہیں سمجھتے اس لئے خاموش ہیں کہ مزید انارکی پھیلے گی۔ مثال کے طور پر اس فیصلے نے ساری مصیبت کھڑی کی ہے کہ جو اپنی پارٹی کو ووٹ نہیں دے گا ‘ نہ صرف اس کی رکنیت جائے گی بلکہ اس کا ووٹ شمار نہیں ہو گایہ قانون دان کہتے ہیں یہ آئین کی درست تعبیرنہیں ہے اور اس وقت سارا بحران اسی تعبیر کی وجہ سے پیدا ہوا۔اس کا مطلب ہے کہ کسی کے خلاف کبھی تحریک عدم اعتماد لائی ہی نہیں جا سکتی آپ اختلاف کی قیمت اپنی نشست سے محرومی کی صورت میں دینا چاہتے ہیں ۔یہ اختلاف لازمی نہیں لوٹا کریسی کا نتیجہ ہو‘ ضمیر کی آواز ہو سکتا ہے۔اگر اب آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ یہ قانون دان کہتے ہیں عدالتیں مصلحت یا مصالحت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے اگر قانون کی بالادستی قائم کرتی رہیں تو ہو سکتا ہے کہ عارضی فساد پیدا ہو مگر بالآخر فتح حق و انصاف کی ہو گی اور قانون کی بالادستی قائم ہو گی۔ یہ لوگ درست کہتے ہوں مگر کیا موجودہ حالات میں اس کا انجام کیا ہو گا ایک پارٹی نعرہ لگائے گی‘ سوشل میڈیا متحرک ہو جائے گا اور عدالتیں دیکھتی رہ جائیں گی۔لگتا ہے ہر ایک کو اپنی عزت عزیز ہے۔معاف کیجیے‘ فوج کو بھی عدلیہ کو بھی‘ مگر اپنی عزت کا خیال نہیں تو پارلیمنٹ کو نہیں۔یہ فیصلے جو عدالت کے روبرو لے کر گئے ہیں یا کبھی فوج کے در پر جاتے تھے‘ انہیں پارلیمنٹ میں طے ہونا چاہیے۔کیا ایسا ہو پائے گا۔ہم نے تو پارلیمنٹ کو بے توقیر کر رکھا ہے جس ادارے کی عزت کرنا چاہتے ہیں اس کے در پر جا پہنچتے ہیں۔عوام نے آپ کو اس لئے منتخب کیا ہے کہ آپ اپنے فیصلے دوسرے اداروں پر چھوڑ کر انہیں مشکل میں ڈالیں۔ پہلے لاہور ہائی کورٹ نے پھر سپریم کورٹ نے جس مشکل صورتحال میں فیصلے کئے ہیں وہ صاف بتاتے ہیں کہ جو کام پارلیمنٹ کے کرنے کا تھا‘ ہم نے اسے سونپ رکھا ہے بلکہ پارلیمنٹ کے بھی یہ کام نہ تھے۔پارلیمنٹ کے ذمہ بھی پالیسی سازی کا مقدس فریضہ ہے اس کے بجائے ہم نمبر گیم میں لگے ہوئے ہیں۔ہماری کم بختی پر اس سے زیادہ اور کیا تبصرہ ہے کہ ہم نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو پنچایت بنا کر رکھ دیا ہے۔ اور یہ بھی نہیں کہ بحران ہمیشہ کے لئے ٹل گیا ہو۔یہ عارضی طور پر ٹلا ہے اس کے بعد ہمارے وہی لچھن ہونگے۔ہم ایک سے ایک بڑے بحران کی بڑھتے ہی جا رہے ہیں عوام بیٹھے آسمانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کبھی ان کی نظر بنی گالا پر پڑتی ہے تو کبھی بلاول ہائوس کے وسیع و عریض احاطے پر تو کبھی جاتی امرا کی لہلاتی زمینوں پر۔ وہ ان سے الگ الگ محبت کرتے ہیں مگر ان سے دور بیٹھ کر صرف نعرے لگا سکتے ہیں۔اس کے سوا ان کے ہاتھ پلے کچھ نہیں۔ فیصلہ صرف عوام کا نہیں بلکہ اس ملک کا ہے اس مملکت خداداد کا ہے۔ہم نے اسے اپنے نعروں سے کھوکھلا کر دیا ہے۔کون بتا سکتا ہے کون سچ بول رہا ہے اتنے دن ہوئے کئی موقع ایسے آئے کہ دل چاہا اس صورتحال پر تبصرہ کروں بلکہ دل سے بہت زور کی آواز نکلی کہ اپنی بات کرو ‘ دماغ نے دلائل کے پہاڑ کھڑے کر دیے ۔ اس ملک کا اور اس ملک کے عوام کا یہ مسئلہ ہے ہی نہیں۔سچی بات کہوں کہ کوئی ادارہ بھی اپنی حدود کے اندر کام نہیں کر رہا اور یہی اس ملک کا المیہ ہے۔ اس ملک کے سرپر منڈلاتا بحران اس وقت ٹلے گا جب یہ صاف دکھائی دے کہ ہر ادارہ اپنا اپنا اور صرف اپنا اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔اس سے مورا کوئی بات کتنی بھی اچھی کیوں نہ ہو۔وہ ملک کو عارضی فائدہ تو دے سکتی ہے،ہمارے مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں۔ ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے خوش ہیں مگر یہ نہیںسوچتے کہ ہم نے اپنے اداروں کو کیا کام سونپ رکھا ہے یہ بحران کا حل نہیں ہے‘ اس سے ایک نیا بحران جنم لیتا ہے اس سے قوم کا آہستہ آہستہ اداروں سے اعتماد اٹھتا جاتا ہے اس ملک میں ایسا ہوا ہے ہم اس عمل میں اب دوسرے اداروں کو بھی شامل کرنے لگے ہیں۔ خدارا سوچئے کہ ہم کس بات پر خوش ہو رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے قانون اور آئین کا ترازو تھامنے کے بجائے صلح کرا دی۔اللہ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی توفیق دے۔