ہزاروںاسیران کشمیر کی جرات،انکی عزم وہمت اوران کے حوصلوں کوہزاروں سلام ۔سلام ان پرکہ انہوںنے رودادقفس رقم کرتے ہوئے امیدکے چراغ کی لو کومدہم ہونے اورٹمٹمانے نہیں دیا ۔کچھ سجھائی نہیں دیتاکہ دنیاوالوں میں سے کون اسیران کشمیرکا آشوب لکھے ،کیسے لکھے ،کیوں لکھے کیونکہ دنیاوالے تواپنے خرخشوں میں مست پڑے ہیں۔ لیکن یہ بات لکھنے سے کوئی نہیں رہ سکتاکہ دوروغائے قفس کے دھونس،دبائو اور دھمکیاں ان اسیران کے صبرکے قلعوں سے جب ٹکراتی ہیں تو شکست کھاجاتی ہیں۔اسلامیان کشمیرکی اجتماعی توقیر پر یورش کرنے والے قابض ،جابراورجارح بھارت سے آزادی کا خواب بلالحاظ عمروجنس سب کشمیری مسلمانوں نے دیکھا اورپھر قوم اس خواب کی تعبیرکے سفرپرچل پڑی۔لیکن مدت ہوئی کہ خواب ابھی تک تعبیرنہ پاسکے۔کشمیرکے 600کھیل کے میدان مزارات شہدابن چکے ہیںاورشہدائے کی فہرست میں ایک لاکھ سے زائدعلمبردارا ن توحیداپنانام اندراج کرچکے ہیں جن میں سے غالب اکثریت جوان رعنا تھے۔ جبکہ ہزاروں کشتگان کشمیری مسلمان بھارت کے مختلف ٹارچرسیلوں اوراذیت خانوں میں مقیدہیں جن میں نوجوان ،بزرگ ، خواتین اوربچے شامل ہیں جنکی اذیت ناک ایام اسارت کے حوالے سے قلم اٹھایاجائے توکئی ضخیم کتب ترتیب پاسکتی ہیں،چہ جائیکہ ایک مختصر کالم اوراخبارکے ورق کی تنگ دامنی درپیش ہوتو اسیران کشمیر پر کتنا لکھا جا سکتا ہے؟۔ تاہم محض دوتین اسیران کے تذکرے سے آپ کوپتاچل سکے گاکہ بھارت کی سرزمین پربھی گوانتاناموبے اورابوغریب جیسے اذیت خانے موجودہیں۔ارض کشمیر کی نامورتین شخصیات جناب جناب ڈاکٹرشفیع شریعتی ، ڈاکٹر قاسم فکتو اورجناب عبدالقادر قادر بٹ گذشتہ 29برسوں سے بھارتی عقوبت خانوں مبتلائے اذیت ہیںاورغم واندوہ کے عالم میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان میں آج کے اس موضوع میں صرف عبدالقادر قادر بٹ جن کا تعلق وادی کشمیرکے ضلع کپواڑہ کے گوشی گائوںسے ہے کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ قابض بھارتی فوج نے انہیں1991ء میں گرفتارکرلیا تب سے آج تک بھارت کی مختلف ٹارچرسیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ جیل میں تشدد اور بربریت بھری ایک اذیت ناک زندگی کے لمحات گزار رہے ہیں۔عبدالقادر قادر بٹ اللہ کے بعد اپنے گھر والوں کے واحد کفیل تھے اب جب 29برس سے وہ اسارت کے عالم میں پڑے ہوئے ہیں توان کے اہل خانہ کاکیا حال ہے اس کااندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ۔اس دوران1998ء میں ا ن کے والد محترم انتقال کرگئے اور 2009ء میں ان کی زوجہ محترمہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئیںجبکہ 2018ء میں تھی ا ن کی والدہ ماجدہ بھی داعی اجل کولبیک کہہ چکی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے ایک اوراسیرپیر زادہ اشرف ساکن ضلع اسلام آبادکی درد بھری داستان بھی بھارتی مظالم کی انتہاکوطشت ازبام کردیتی ہے۔اسیر مظلوم پیر زادہ اشرف گذشتہ 15برس سے بھارت کے مختلف اذیت خانوں میں اپنی بے جرمی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔پیر زادہ اشرف کابڑے بھائی پہلے ہی آزادی کی تلاش میں نکلے اورجادہ حق کے ایک موڑ پرسفاک بھارتی فوج کے ساتھ ایک معرکے کے دوران شہید ہو چکے ہیںجبکہ ا ن کے چھوٹے بھائی پیر زادہ فردوس احمد6سال تک جیل کی کالی کوٹھریوں کی سختیاں جھیل کرزہے نصیب، زہے مقدر بھارتی عقوبت خانے سے باہرنکل آئے،ایسابہت کم ہوتاہے کہ فردوس کی طرح کوئی اسیر 6سال کی اسارت کے ایام کاٹ کربھارتی اذیت خانے سے باہرنکل آیا ہو۔ پیزادہ اشرف کے جھوٹے کیس کی شنوائی کرنے والی بھارتی عدالتوں اوربھارتی ججوں نے یہ کہتے ہوئے کہ اشرف کے خلاف اثتغاثہ کے دلائل بودے ،کمزوراور جھوٹ پر مبنی ہیں32بار ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات صادر کیے ہیں لیکن داروغان قفس نے کورٹ کے آرڈر کو کبھی بھی خاطر میں ہی نہیں لایا بلکہ اسے پائے حقارت سے ٹھکرایا داروغان جیل خانہ جات کواپنے ملک کی عدالتوں اوراپنے ہی ججوںکے فیصلوں اور احکامات کی کوئی پرواہ نہیں۔ پیر زادہ اشرف کے بھائی پیرزادہ فردوس کی سرینگر سے جموں اور جموں سے دہلی اور دہلی سے سرینگر مختلف دفاتر کے چکر لگا لگا کر ہمت جواب دے چکی ہیں تا ہم اسے اب بھی یقین ہے کہ وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک اپنے بھائی پیر زادہ اشرف کو بھارتی عقوبت خانے سے رہا نہیں کروالیتے۔ پیرزادہ اشرف اس وقت جب میں یہ سطورحوالہ قلم کر رہا ہوں جموں کی ہیرانگر جیل میںقید ہے۔ پیرزادہ اشرف کے والد بزرگوار حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرح اپنے بیٹے کے فراق میں پہلے تو روتے روتے آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوئے اور15سال تک بستر مرگ پرانصاف انصاف پکارتے ہوئے اورہائے میرا بے قصوربیٹا بیٹا پکارتے ہوئے رواں برس اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ پیرزادہ اشرف کے اہل خانہ کی حالت زاردیکھ کرہرصاحب ضمیرزاروقطار ہوپڑتاہے ۔ مقبوضہ کشمیرمیں قابض اورسفاک فوج کویہ دیکھنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی ہے کہ جسے وہ گرفتارکررہی ہے اس کاقصورکیاہے۔کیونکہ بدنام زمانہ اوررسوائے زمانہ بھارتی کالاقانون (AFSFA)بھارتی قابض فوجی اہلکاروں کے ہاتھ میں زہرمیں بجھاہوا ایساخنجرہے جسے چاہیں کسی کی بھی گردن اڑاسکتے ہیں اس پرانہیں کوئی پوچھ تاچھ نہیں اورنہ ہی وہ کسی جگہ اس حوالے سے جوابدہ ہیں۔اس لئے چاہے 12سالہ بچہ سکول جارہاہو،25سالہ نوجوان کالج یایونیورسٹی جارہاہو،کسان اپنی کھیت پرجانے کے لئے اور مزدورمزدوری کیلئے گھرسے نکل رہا ہو، دوکاندار اپنی دوکان اورتاجراپنے کاروبارکی طرف چلاہو،غرض جوشہری بھی اپنے کام کیلئے مصروف تگ وتازہو، درندہ صفت بھارتی فوجی کے ہتھے چڑھ جاتاہے ۔ا س کی مثال سری نگرشہر کے نمچہ بل کے چالیس سالہ مرزا نثار حسین ہیں جنہیں 23برس کی طویل مدت کی اسارت کے تلخ ایام کاٹ کررہائی ملی۔23مئی 1996ء میں اس وقت نثار کوگرفتار کیاگیاکہ جب ا ن کی عمرمحض 16برس تھی۔