یہ جامد سماج ہے ،اس کی سماجی و معاشی نمو رُکی ہوئی ہے،ایک سچی مڈل کلاس جو اپنی بھرپور پیداواری صلاحیتوں سے سماج میں خوشحالی پیداکرتی ہے ،وہ پیدا نہیں ہوئی،جامد سماج نے غریب طبقہ میں معاشی ترقی کا عمل ختم کر دیا ہے۔یہاں سماج کی ساخت اور طبقات کی درجہ بندی سے سماجی ترقی کے امکانات کا جائزہ ضروری ہے۔ سماج کا سب سے نچلا طبقہ غربت زَدہ لوگوں کا ہوتاہے۔یہ وہ طبقہ ہوتا ہے جو خطِ غربت سے بہت نیچے زندگی بسر کرتا ہے۔اس کی حیثیت فصل میں جڑی بوٹیوں کی مانند ہوتی ہے۔یہ جڑی بوٹیاں لحظہ بھر کے لیے اُگتی ہیں ،اپنے حصے کا پانی اور خوراک لیتی ہیں اور پھر تلف کردی جاتی ہیں ۔ان کا وجود زیادہ دیر برقرار رہے تو فصل کونقصان پہنچتا ہے۔اس سماج کے ہزاروں اور لاکھوں لوگ اسی نوع کی زندگی بسر کرکے زمین کی خوراک بن جاتے ہیں ،سماج کی ترقی ،معاشی نمواور بڑھوتری میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔خطِ غربت سے اُوپر زندگی جینے والوں کا شمار غریب طبقہ میں ہوتا ہے۔یہ عام سے لوگ ہوتے ہیں ،یہ فصل نہیں ہوتے تو کم ازکم جڑی بوٹی بھی نہیں ہوتے۔ایسے لوگ دیہاڑی دار مزدور،روزانہ اُجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے ، چوکیداری کرنے والے ،گھروں اور دفاتر میں سکیورٹی گارڈ، چھابڑی لگانے والے ،فروٹ و غلہ منڈیوں میں کام کرنے والے ،سامان لوڈ کرنے والے (پلے دار) وغیرہ ہوتے ہیں۔یہ تمام لوگ غریب طبقہ کہلاتے ہیں ۔یہ ہمہ وقت غربت کے ہاتھوں تنگ رہتے ہیں ۔ان کی کمائی ،ان کے اخراجات سے بہت کم ہوتی ہیں۔ ان کے بچے اپنے خاندانوں کی غربت میں مزید اضافہ کرتے ہیں ۔ہمارے سماج میں اس طبقہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔غریب طبقہ سے آگے لوئرمڈل کلاس آتی ہے۔غریب خاندانوں کے وہ لوگ ،جو اتفاقاً چار جماعتیں پڑھ جاتے ہیں ،یا کوئی ہنر سیکھ لیتے ہیں اور اپنی فیملی کے لوگوں سے ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں ، لوئرمڈل کلاس کہلاتے ہیں ۔اس طبقہ کے لوگ ،ہنرمند افراد ،پرائمری و مڈل وہائی سکولوں کے اساتذہ،درمیانے درجہ کے وکیل،چھوٹے موٹے دُکاندار،نجی شعبوں کے درمیانے درجہ کے ملازمین وغیرہ ہوتے ہیں۔ ہر غریب فیملی ،جس کے آٹھ ،دس اور بارہ بچے ہوتے ہیں ،میں سے ایک آدھ بچہ جو آگے نکل آتا ہے، پر مبنی یہ طبقہ تشکیل پاتاہے ۔اس طبقہ کے افراد اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دودوملازمتیں کرتے ہیں مگر پھر بھی بدحالی کا شکار رہتے ہیں۔لوئرمڈل کلاس سے مڈل کلاس بنتی ہے۔کسی بھی سماج کا اہم ترین طبقہ متوسط طبقہ ہی ہوتا ہے۔اس طبقہ کے اندر بہت انرجی اور صلاحیت ہوتی ہے۔یہی طبقہ عمدہ تخلیق کار، شاعر، ادیب ،دانشور،سماجی و سیاسی رہنما اور تخلیقی ہنرور پیدا کرتا ہے ،یہی طبقہ دانش کی روایت بنتا ہے اور سماجی شعو ر و ترقی اور معاشی نمو کے خواب کو تعبیر سے ہمکنارکرتا ہے ۔یہ طبقہ پڑھے لکھے افراد پر مبنی ہوتا ہے ،مسلسل محنت اور پھر تخلیقی نوعیت کی محنت سے یہ اپنی زندگیوں کو خوب صورت بناتا ہے۔یہ طبقہ سب سے زیادہ مثبت اثرات نچلے طبقہ پر ڈالتا ہے،نچلے طبقہ کے افراد اس طبقہ کے افراد سے موٹیویشن لیتے ہیں۔اس طبقہ کے افراد میں کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے اساتذہ،وکلاء ،ڈاکٹرز،سرکاری و غیر سرکاری اہم ملازمین ،کامیاب تاجر،درمیانے سے اُوپر درجہ کے کسان،درمیانہ درجہ کے کاروباری و سمال انڈسٹریوں کے مالکان،وغیرہ ہوتے ہیں۔اس طبقہ کے لوگ بہتر معاشی و سماجی زندگی بسر کرتے ہیں ،یہ اپنے بچوں کو اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلواتے ہیں اور اُن کا بہترین علاج کرواتے ہیں ،یہ زیادہ تر اپنے گھروں میں رہتے ہیں ،گاڑی کی سہولت کے ساتھ دوسری بنیادی سہولتیں ان کو بہم میسر ہوتی ہیں ،اپنے کام کاج کے ساتھ سیر و سیاحت ،ہوٹلنگ ،سماجی تقریبات ودیگر سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں ،اس طبقہ کے لوگ تعداد میں کم ہیں۔مڈل کلاس سے اَپر مڈل کلاس بنتی ہے۔مڈل کلاس کے وہ لوگ جو زندگی کی دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں تو وہ اَپر مڈل کلاس کا حصہ بن جاتے ہیں ۔یہ بڑے صنعت کار،بڑے کسان ،بڑے تاجر، سرمایہ دار،بڑے سرکاری و غیر سرکاری ملازمین وغیرہ ہوتے ہیں ۔ان کے بڑے گھر ہوتے ہیں، ان کو گاڑی، ڈرائیور، چوکیدار، سکیورٹی گارڈ، بہم میسر ہوتے ہیں ، ان کے بچے زیادہ تر باہر تعلیم حاصل کرتے ہیں ، باہر سے علاج معالجہ کرواتے ہیں اور باہر کے ممالک میں چھوٹی موٹی جائیداد کے مالک ہوتے ہیں۔یہ طبقہ مڈل کلاس سے بھی حجم میں چھوٹا ہے۔اَپر مڈل کلاس کے بعد امیر ترین لوگوں کا طبقہ آتا ہے ۔ان کے پاس بے شمار دولت و وسائل ہوتے ہیں۔ طبقات کی اس درجہ بندی کے بعد ،بحث کے اگلے حصہ کی طرف آتے ہیں۔یہاں زمین کی بنیاد پر کھڑے کسی مینار کو ذہن میں لائیں،اس مینار کو زمین پر جو بنیاد میسر ہوتی ہے ،وہ کافی چوڑی جگہ ہوتی ہے ،اسی طرح اُوپر والا حصہ بھی چوڑائی میں زیادہ ہوتا ہے ،جیسے جیسے مینار اُوپر کو اُٹھتا جاتا ہے ،اس کی چوڑائی کم ہوتی جاتی ہے ۔اس سماج میں طبقات کی درجہ بندی اسی نوع کی ہے۔مینار کے جس حصہ نے سب سے زیادہ جگہ گھیری ہوئی ہے ،وہ سماج کا غریب طبقہ ہے۔ اس طبقہ اور سماج کے دیگر طبقات کے مابین فاصلہ بہت زیادہ ہے ،یہ فاصلہ ہی سماج کی ترقی و معاشی نمو کو روکے ہوئے ہے اور یہی دیگر قباحتیں بھی پیدا کررہا ہے ،اس طرح ہر طبقہ کے مابین فاصلہ ہے۔یہاں جب کسی امیر ترین اور وسائل سے مالامال فرد سے نفرت یا تعصب کا اظہار کیا جاتا ہے تو وجہ یہ فاصلہ بھی بنتا ہے۔غریب طبقہ جو سب سے بڑا ہے ،مسائل کی جڑ ہے۔یہ اَن پڑھ اور جہالت کا حامل ہے۔مڈل کلاس طبقہ جو سماج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ،یہاں کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے۔سماجی نظام اُن کو پوری طرح اپنی صلاحیتیں دکھانے کی گنجائش نہیں دیتا۔یہ اپنے شعبہ میں جدت و ندرت لانا چاہتا ہے مگر سیاسی و سماجی نظام آڑے آجاتا ہے۔یہی طبقہ حقیقی تبدیلی کا خاکہ رکھتا ہے اور تبدیلی لانا چاہتا ہے ،مگر اسٹیس کو ،پر مبنی نظام ،ایسا نہیں کرنے دیتا،نتیجہ یہ ہے کہ اس طبقہ کا تمام پوٹینشل مرجاتا ہے،یہ پھر چالاک بن جاتا ہے ،یہ طبقہ اپنی سہولت پر مبنی زندگی کوہی زندگی سمجھنا شروع کردیتا ہے ،یہ مزاحمت نہیں کرتا،یہ اپنے وسائل سے خوشیاں کشید کرتا ہے اور خاموش رہتا ہے۔دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس طبقہ کا حجم زیادہ ہوتا ہے ،جب کہ ہمارے ہاں یہ طبقہ کم حجم کا مالک ہے۔پاکستانی سماج کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہاں کے سیاسی و سماجی نظام نے اس طبقہ کو سب سے زیادہ مایوس کیا ہے۔پھر یہ مایوسی پورے سماجی نظام پر محیط ہوئی ہے۔ اس جامد سماجی نظام میں اُمید کی موت ہوئی ہے۔