نیب قوانین میں ردوبدل کے لئے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی تجاویز کو وفاقی وزیر اطلاعات سید شبلی فراز نے طشت ازبام کیا‘ اپوزیشن گلہ کرنے میں حق بجانب ہے ؎ یہ تونے کیا غضب کیا ‘مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا‘ سینہ کائنات میں یہ تجاویز کیا ہیں‘ این آر او نہیں‘ جنرل پرویز مشرف نے محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے جن لیڈروں اور ان کے پروردہ بیورو کریٹس کو ماضی کے جرائم پر معافی دی تھی نام اس کو این آر او(National Reconciliation Ordinance)کادیا‘ یعنی ماضی کا سارا کھایا پیا ہضم گزشتہ راصلواۃ‘ آئندہ را احتیاط‘ اپوزیشن کی نیب قوانین میں ردوبدل کے لئے پارلیمانی تجاویز ماضی کے کرتوتوں پر معافی نہیں‘ مستقلاًاحتساب کے عمل کی بساط لپیٹنے اور سیاستدانوں کے علاوہ قومی خزانے کی رکھوالی پر متعین بیورو کریٹس کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہیں۔ بلا شبہ این آر او پلس۔ ان تجاویز میں دو انتہائی دلچسپ ہیں‘ (1) قومی خزانے کی لوٹ مار پر نیب کو پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک ارب روپے سے زائد کی کرپشن کا نوٹس لے گی‘اگر کسی سیاستدان یا اس کے چہیتے بیورو کریٹ نے ننانوے کروڑ روپے خردبرد کئے تو اس کا محاسبہ کرنے کی مجاز نہیں۔(2) نیب پانچ سال پہلے ہونے والی کرپشن پر کسی سے سوال جواب نہیں کر سکتی یعنی 2016ء سے پہلے ملک میں جو لوٹ مار ہوئی وہ نیب کے دائرہ کار سے خارج۔ نیب قوانین میں سقم ہیں‘ نیب نے اپنے قیام سے اب تک قومی دولت لوٹنے والوں سے وصولیاں تو کیں‘ بڑے مگرمچھوں کو سزا دلوانے میں وہ مستعدی نہیں دکھائی جو ایک ایسے ادارے کو زیبا ہے جسے ملزموں کو دوران تفتیش گرفتاری اور نوّے روز تک حراست میں رکھنے کا اختیار ہے۔میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف بلا شبہ نیب مقدمات میں سزا یافتہ ہیں لیکن یہ تنہا جسٹس (ر) جاوید اقبال اور ان کے فاضل ساتھیوں کا کارنامہ نہیں‘ بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ اپوزیشن ہی نہیں بعض غیر جانبدار تجزیہ کار بھی اس ادارے کی ساکھ پر سوال اٹھاتے اور نیب قوانین میں تبدیلی کے علاوہ چیئرمین نیب کے صوابدیدی اختیارات میں کمی کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن بطور ادارہ نیب کے خاتمے یا اُسے کئی دوسرے ریاستی اداروں کی طرح دانتوں سے محروم‘ بے اختیار‘ مفلوج کرنے کی کوئی تجویز‘ملک اور عوام دونوں کے ساتھ ظلم ہے۔ نیب کا ادارہ ابتدائی شکل میں میاں نواز شریف نے قائم کیا‘ زیادتی یہ فرمائی کہ اپنے ایک نفس ناطقہ سیف الرحمان کو اس کا سربراہ مقرر کر دیا‘شریف خاندان سے قربت اور کاروبار میں شراکت کا بھید کھلا تو اس دور کا نیب متنازعہ ہو گیا‘ جسٹس قیوم ملک کی آڈیو ٹیپ نے رہی سہی کسر پوری کر دی‘ جنرل (ر) پرویز مشرف نے موجودہ نیب کو اختیارات سے لیس اور ایک نیک نام جنرل سید محمد امجد کو سربراہ مقرر کیا تو عوام نے بے لاگ احتساب کی اُمیدیں وابستہ کر لیں مگر 2002ء کے انتخابات کے بعد لوٹوں کی وفاداریاں خریدنے کے لئے نیب کا استعمال ایسی مکروہ واردات تھی جس نے پورے عمل کی ساکھ خراب کر دی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے قریبی ساتھی جنرل(ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب’’یہ خاموشی کب تک‘‘ میں ان تمام واقعات کا احاطہ کیا ہے جو اس ادارے اور احتسابی عمل کی ساکھ کے لئے تباہ کن ثابت ہوئے۔2008ء سے 2015ء تک نیب مسلم لیگ(ن) کی جیب کی گھڑی اور پیپلز پارٹی کے ہاتھ کی چھڑی بنا رہا۔ ایک چیئرمین نیب نے تو بھری عدالت میں کہہ دیا کہ وہ کسی بڑی مچھلی کے خلاف احتساب کا ارادہ نہیں رکھتے‘جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری برہم ہوئے‘ موجودہ چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کے دور میں نیب کی دھاک بیٹھی اور طاقتور حکمران و بیورو کریٹ نیب کی راہداریوں میں بھیگی بلی بن کر بیٹھے نظر آئے‘ وزیر اعظم‘ وزیر اعلیٰ‘ سینئر وزیر اور مقبول سیاستدانوں میں سے کسی کی کیا مجال کہ وہ نیب کے کال اپ نوٹس سے روگردانی کرے‘ حاضر سروس افسران اور وزیروں کی گرفتاریوں سے تاثر ابھرا کہ یہ واقعی آزاد اور خود مختار ادارہ ہے جووزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد اور پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کی گرفتاری میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ‘دو تین مواقع پر نیب نے مگر کمزور دکھائی اور یہ بے بس نظر آیا‘ حمزہ شہباز اور میاں شہباز شریف کی گرفتاری میں ناکامی اور مریم نواز شریف کی نیب آفس کے باہر دھواں دھار انٹری کے بعد پیشی کے احکامات کی واپسی سے نیب کے رعب و دبدبہ میں کمی واقع ہوئی۔ حکومت اور اپوزیشن کے اہم رہنمائوں کی گرفتاریوں اور پیشیوں کے بعد دونوں طرف نیب قوانین میں ردوبدل کی خواہش موجود ہے‘ اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کے ساتھیوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ ہمارے بعد اب تمہاری باری ہے‘ نیب کے دانت نہ توڑے گئے تو ہم سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو کاٹنا شروع کر دے گی‘ اسی احساس کے تحت حکومتی ارکان نے بار بار اپوزیشن سے تجاویز طلب کیں اور بالآخر FATFقوانین کی منظوری کو سودے بازی کے لئے استعمال کرنا چاہا‘ مگر اپوزیشن کے قانونی ماہرین یہ بھول گئے کہ عمران خان ہوں یا ان کے متاثرہ ساتھی بعض ترامیم تو قبول کر سکتے ہیں احتساب کے عمل پر سمجھوتہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں کہ یہ صرف تحریک انصاف کا بیانیہ نہیں‘ بے لاگ و بلا تفریق احتساب ریاست کی ضرورت ہے اور فی الحال عمران خان اپنے بیانیے سے انحراف پر آمادہ ہے نہ ریاست سیاسی مصلحتوں کے تحت قومی مفادات کی قربانی دینے پر تیار۔ قومی لٹیروں کا احتساب قومی ضرورت ہے اور اسلامی جمہوریہ کو لوٹ مار کے کلچر سے پاک رکھنے کی واحد تدبیر‘ ناانصافی کسی خاص و عام سے روا ہے نہ احتساب کے نام پر انتقام کی ایک ایسی ریاست میں گنجائش جسے عمران خان ریاست مدینہ میں بدلنے کے دعویدار ہیں‘ لیکن نیب کی بعض کمزوریوں اور غلطیوں کو جواز بنا کر احتساب کے عمل کی بساط لپیٹنے اور حکومت کو این آر او پلس پر مجبور کرنے کی سعی نامشکور؟توبہ توبہ خدا خدا کیجیے۔ شبلی فراز نے اچھا کیا ’’کون سا این آر او ‘‘کا جواب اپوزیشن کی تجاویز سے دیدیا ‘ویسے بھی اپوزیشن جب اچھے بچے کی طرح ریاست اور حکومت سے ہر ممکن تعاون پر آمادہ ہے تو اس سے بلیک میل ہونے‘ ناروا فرمائشیں پوری کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ این آر او پلس دے کر عمران خان اپنے ووٹروں اور کارکنوں کا سامنا کیسے کر سکتا ہے۔ اپوزیشن تقاضا تو کم از کم معقول اور مناسب کرے یہ کیا کہ کھیلن کو چاند ہی مانگ لیا۔