کتاب پڑھتے ہوئے‘ مجھے چائے‘ کافی یا ہربل ٹی پینے کی عادت ہے کبھی ساتھ بادام اور کشمش کھاتے رہنا کتاب کے حرف حرف سے لطف اندوز ہونا اچھا لگتا ہے۔ مگر چند روز سے جو کتاب میں پڑھ رہی ہوں‘ اسے پڑھنا‘کتاب ’’پڑھنے‘‘ جیسا عمل نہیں ہے۔ میں اس کتاب کو پڑھنے کے لئے کھولتی ہوں تو کئی زمانے پیچھے چلی جاتی ہوں۔ ایک نیا جہاں، ایک نئی دنیا، میرے اردگرد آباد ہونے لگتی ہے۔ کربلا کی گرم ریت آس پاس اڑنے لگتی ہے۔ پیاسوں کی قدم بوسی کو تڑپتی ہوئی فرات کی لہروں کا شور سنائی دیتا ہے۔ پیاس پپڑیوں کی طرح ہونٹوں پر جمنے لگتی ہے۔ اس کتاب کی سطروں میں تاریخ عالم کے سب سے بڑے دکھ کو کہانی کی صورت پرو دیا گیا ہے اور غم و اندوہ کی یہ کہانی پڑھتے ہوئے چائے کافی تو کجا‘ پانی حلق سے نہیں اترتا ،ہاںآنکھوں سے بہت بہتا ہے‘ پتہ نہیں آنکھوں میں کہاں سے اتنا پانی امڈ آتا ہے کہ آنکھیں بارشوں میں بھیگا ہوا منظر بن جاتی ہیں۔ بس یہی ایک کام ہے جو اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں کر سکی۔ میں روئی اور بہت روئی اس لئے میں نے یہ کتاب مکمل تنہائی کے وقفوں میں پڑھی اور پھر دیر تک میرے اندر ریت اڑتی رہی۔ خیمے جلتے رہے‘ دھواں اٹھتا رہا۔ پیاس بڑھتی رہی اور میں اپنے آپ سے بچھڑ جاتی تھی۔ درد کے کسی مقدس قافلے کے پیچھے پیچھے ایک کنیز کی طرح چلنے لگتی ہوں۔ چار سالہ سکینہ بابا بابا کی صدا لگاتی ہے تو میرا جی چاہتا ہے۔ اس صدا کی کرچیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لوں۔ میں سید الشہدا امام ؑ عالی مقام کے استقامت اور ایمان کو عقیدت کے پانیوں سے وضو کر کے ایسے دیکھتی جیسے ایک ذرہ آسمان کو دیکھتا ہے۔ میں بے ردا بیبیوں کے سامنے شرمسار ہوتی اور صبر کے پیکر میں ڈھلی بی بی زینبؑ کی شجاعت پر قربان ہو جاتی ہوں ۔کتاب پڑھنے کے بعد دیر تلک ایسی ہی کیفیت میرے اندر عزا داری کرتی۔ نوحے پڑھتی اور یادداشت میں محفوظ غم حسینؑ میں بھیگے ہوئے کئی مصرعے میری زبان پر آتے کبھی نصاب کی کتاب پڑھے ہوئے میر انیس کے مرثیے میرے اردگرد گونجنے لگتے۔ دل کی دنیا کو تہہ و بالا کرنے والی اس کتاب کا نام ایک قطرۂ خون ہے ۔کربلا کی داستان کو ناول کی صورت میں تحریر کرنے والی کوئی اور نہیں، برصغیر پاک و ہند کی اردو زبان کی طرح داراور باغی افسانہ نگار عصمت چغتائی ہیں۔ دنیا انہیں ٹیڑھی کھیر اور لحاف کے حوالے سے ہی جانتی ہے۔ اردو ادب کو تین سو سے زیادہ افسانوں کا گراں قدر تحفہ دینے والی عصمت چغتائی‘ان کی تحریروں کے بولڈ انداز کی بنا پر انھیں منٹو کا ہم عصر کہا گیا‘ ان پر مقدمے بنے، فتوے لگے او دیکھیے اسی مصنفہ کے قلم سے ’’قطرہ خون‘‘ جیسا ناول بھی لکھا گیا ہے، توفیق اور عطا کے بغیر یہ ناممکن ہے۔آل نبی ﷺ کے گھرانے کو ناول کے کرداروں کی صورت ڈھالنا۔ رسول کریم ؐ کے وصال کے بعد کے زمانے کو بیان کرنا ،بالکل ایک ناول کے انداز میں۔ امام حسینؑ اپنی ہمشیرہ بی بی زینبؑ سے گفتگو کر رہے ہیں۔ سکینہ اپنے بابا سے لاڈ کرتی ہیں‘ حضرت عباسؑ کا اپنے بھائی سے والہانہ محبت ،مقدس ترین ہستیوں کی زندگی کی جگمگاتی جھلکیاں‘ ایک کہانی کی صورت میں بیان کرنا ہرگز ہرگز آسان نہیں تھا۔جب تک کہ لکھنے والا خود اپنے آپ کو اس زمانے میں نہ لے جائے ۔لکھنے والا آل نبیﷺ سے محبت اور عقیدت کے رشتے میں بندھانہ ہو تو کیسے ممکن ہے اسے بیان کرنا ۔یہ کتاب ایک قطرہ خون مجھے آنٹی افضل توصیف کی لائبریری سے ملی۔ یقین جانیں میرے لئے یہ اچھنبے کی بات تھی کہ عصمت چغتائی نے یہ سب لکھا۔؟ ان کی تحریروں کے حوالے سے جو امیج اردو ادب میں بن چکا ہے اس کے تناظر میں یہ ایک حیران کن حقیقت تھی۔ مجھے حیرت تھی کہ اس بڑے تخلیقی کام کاکہیں اتنا تذکرہ کیوں نہیں ہوا۔ انہیں صرف لحاف کی مصنفہ کے حوالے سے دیکھا گیا۔ خود عصمت چغتائی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میرا بیشتر کام لحاف کے نیچے دبا دیا گیا۔ ایک قطرہ خون اردو کی اس طرح دار مصنفہ کی زندگی کا آخری ناول ہے، تخلیقی سطح پر اور روحانی سطح پر بھی یہ مصنفہ کے لئے شدت احساس سے لبریز بہت بڑا تجربہ ہو گا۔ اس کتاب کا پیش لفظ ممتاز ادیبہ افضل توصیف نے لکھا اور کیا خوب لکھا ہے ،پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ کتاب سے چند اقتباس شامل کرتی ہوں، دیکھیے کہ عصمت چغتائی نے احساس کی کس سطح پر اسے تحریر کیا۔ سارے شہر پر غم و اندوہ کی گھٹا چھائی ہوئی ہے۔گھر گھر چرچا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کے نواسے حسینؑ ابن علی مدینہ چھوڑ کر رخصت ہو رہے ہیں۔ سادات کی بستی اجڑنے کو ہے لوگوں کے دل بیٹھے جا رہے ہیں، ہوا ماتم کناں ہے ،فضا سوگوار ہے۔اتنے میں فضہ خیمے سے نکلیں۔ انہیں پکار کر امامؑ نے کہا۔ علی اصغر کی پیاس مٹ گئی۔ ان کی ماں سے جا کے کہہ دو بڑی گہری نیند سوئے ہیں، اب روزِ محشر جاگیں گے۔ اے برادر یہ کیا قصہ ہے۔ یہ کیسی جنگ ہے کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے۔ ایک فوج تو ادھر پڑی ہے دوسری فوج کدھر بھاگ کھڑی ہوئی دوسری فوج میںہوں امام نے تلخی سے مسکرا کر کہا۔ ہاں میں اکیلا رہ گیاہوں۔ میرے بہتر(72) سورما تھے اب میں اکیلا ہوں۔ کپڑوں کے ڈھیر میں سے بانو نے علی اکبرؑ کی پوشاک پہچان کر گھسیٹ نکالی۔ کس ارمان سے پھوپھی نے یہ جوڑا تیار کیا تھا۔ جب قافلہ مدینہ پہنچا تو وہاں کے شہریوں کو پورے حالات کی اطلاع نہیں پہنچی تھی۔ قافلے کے ساتھ واقعات کے گواہ جلے ہوئے خیمے تھے‘ علی اصغر کا خالی پالنا تھا۔ خون میں ڈوبے ہوئے لباس تھے۔اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں خود سے بچھڑ کر کئی زمانوں کے پار چلی جاتی ہوں۔ مدینے سے ہجرت کرتے‘ کوفہ کی طرف جاتے ، آل نبیؐ کے اس مقدس قافلے کے پیچھے پیچھے ایک کنیز کی طرح چلی جاتی ہوں۔ میرے اندر دیر تک ریت اڑتی ہے۔ جلتے خیموں کا دھواں اترتا ہے اور پیاس ہونٹوں پر پپڑیوں کی طرح جمنے لگتی۔ اور یہ کیفیت میرے اندر دیر تک عزاداری کرتی ہے۔