پہلا موقع ہے کہ عدلیہ کی بہتری کے سلسلے میں بازگشت سنائی دے رہی ہے اور اس اچھے کام کا آغاز کسی اور کی طرف سے نہیں بلکہ سپریم کورٹ چیف جسٹس جناب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی طرف سے ہوا ہے ۔ ان کی معروف قانون دان ایس ایم ظفر کی کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران کی گئی تقریر نے بہت پذیرائی اور شہرت حاصل کی جس میں انہوں نے فرمایا کہ ’’99 فیصد لوگوں کو قانون کا پتہ نہیں ، رویوں کو تبدیل کئے بغیر بہتری نہیں لائی جا سکتی ۔ تبصرے کرنے والوں کی اکثریت فیصلے نہیں پڑھتی ۔ آج کے وکلاء اپنا کیس ذہن کی بجائے لاتوں اور گھونسوں سے پیش کرتے ہیں ۔ ‘‘ اسی طرح چند دن پہلے ان کے حقائق پر مبنی بیان کا بہت شہرہ ہوا جس میں انہوں نے فرمایا کہ ’’ فیصلوں میں سیاسی انجینئرنگ کا تاثر خطرناک ہے۔‘‘ عدالتی فیصلوں کے سلسلے میں ملتان کے قانون دان کنور انتظار محمد خان کی کتاب شائع ہوئی ہے ، جسے بہت شہرت ملی ۔ کتاب ھذا کا پیش لفظ من و عن پیش کر رہا ہوں تاکہ اصلاح و احوال کی غرض سے مصنف کی بات مجاز اتھارٹیز تک پہنچ سکے۔ موصوف لکھتے ہیں۔’’عدلیہ سے مراد سپریم کورٹ ‘ ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتیں ہیں جو ایک مربوط نظام کے تحت خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔ داد رسی کا طالب شہری ہی تمام قوانین ،ضوابط اور آئین کا موضوع ہے۔ داد رسی کے طالبوں کیلئے عدالتیں معرض وجود میں آئیں ، وکیل ، منشی، ریڈر، نائب قاصد، اردلی ،ڈائیور، عدلیہ کے ملازمین، رجسٹرار اور جج صاحبان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ عدل کیا جائے۔شہریوں کے باہمی تنازعات حل کئے جائیں ، حق دار کو حق دلایا جائے ، مجرم کو سزائیں اور بے گناہ کو بری کیا جائے تاکہ معاشرے میں توازن قائم ہو لیکن پاکستان کی عدالتوں سے عوام مایوس ہیں ۔ عوام کی مایوسی کی وجوہات اور عدالتوں کی کارکردگی کا مختصر جائزہ اس کتاب میں شامل ہے۔ ‘‘ عدالتوں کے عوام کے ہجوم سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ عوام کو عدلیہ پر اعتماد ہے، اس معاملے پر غور کرنے سے واضح ہو جائے گا کہ صرف وہی لوگ عدالتوں میں آتے ہیں جن کے پاس داد رسی کے متبادل ذرائع نہیں ہوتے ۔ زیادہ کمزور لوگ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے مخالف کو عدالتی چکر سے ایذا دینا چاہتے ہیں ، وہ واقعات گھڑ کر پہلے تھانے جاتے ہیں اور پھر عدالتوں میں آ کر مخالف کو تگنی کا ناچ نچواتے ہیں ۔ وکیل ایک مقدمے کوکئی مقدموں میں تبدیل کر کے اپنے کاروبارکو وسعت دیتے ہیں ۔ عدلیہ پر عوام کی بد اعتمادی اور مایوسی کی وجہ عدالتی نظام نہ ہے ۔ پاکستان میں نافذعدالتی نظام بھارت اور دولت مشترکہ کے بہت سے ملکوں میں رائج ہے، لیکن وہاں عدلیہ کی کارکردگی پاکستان سے بہتر ہے۔ اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ خرابی نظام میں نہیںہے۔ پاکستان میں نافذ ضابطہ دیوانی ، ضابطہ فوجداری ، قانون شہادت اور تعزیرات پاکستان میں کوئی کمی نہیں ہے لیکن کمی ان لوگوں میں ہے ، جن کے ہاتھ ، دماغ ، زبان اور قلم ان کو استعمال کرتے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عدل قائم کرنے کیلئے عدلیہ میں انقلابی تبدیلیاں ناگزیر ہیں ۔ قانونی ضابطوں میں کوئی کمی نہیں ، ان کو تبدیل کرنے کی بجائے جج صاحبان کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنا ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے وعدے کی پاسداری کرنی ہو گی ۔ آئین کا پاسبان اور محافظ بننا ہوگا اور مقدمات کے فیصلے ایمانداری ، انتہائی صلاحیت اور بلا رغبت و عناد قانون و آئین کے مطابق کم سے کم مدت میں کرنا ہونگے ۔ اگر معاشرے میں عدلیہ میزان قائم کرنے میں ناکام رہی تو پھر وہی ہوگا جس کی پیشین گوئی علامہ عنایت اللہ مشرقی نے 1956 ء میں کی تھی کہ’’ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے کٹ جائے گا ، میری نظریں دیکھ رہی ہیں کہ ایک طرف اٹک کا دریا ہوگا ، دوسری طرف چین کی سرحدیں ہونگی ، تمہارے لئے کہیں بھی جائے پناہ نہ ہوگی ۔ کنور انتظار محمد خان کا تعارف یہ ہے کہ آپ 1946ء میں گڑ گاؤں ( ہریانہ بھارت ) کے گاؤں دھولکوٹ میں راجپوت چوہان گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ وہ پرتھوی راج راجہ اجمیر کی نسل سے ہیں ، ان کے مورث اعلیٰ کھیم چند اجمیر (تارا گڑھ) سے نقل مکانی کر کے نیمرانہ سے ہوتے ہوئے شاہجہاں کے دور میں گڑ گاؤں پہنچنے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا لیکن ان کی زوجہ اور اولاد ہندو دھرم پر قائم رہی۔ انہوں نے مسلمان راجپوت گھرانے میں شادی کی جس کے بطن سے طاہر خان اور دولتت خان پیدا ہوئے جو دھولکوٹ اور کھیڑکی میں آباد ہوئے۔ مصنف کے والد محمد فیاض خاں طاہر خان کی اولاد تھے جو فوج میں بھرتی ہوئے۔ 3 کیولری میں دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر برطانوی فوج میں خدمات سر انجام دیں ، جنگی قیدی بنے لیکن اپنے حلف اور ایمان پر قائم رہے۔ سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی میں شمولیت اختیار نہ کی ۔ کنور انتظار محمد خان نے 1972 ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایل ایل بی کر کے وکالت شروع کی ، 1999 ء میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے اور اب تک اسی پیشے سے منسلک ہیں ۔ اس کے علاوہ ملک کے سیاسی سماجی اور معاشی حالات پر بھی نظر رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان کے قومی اخبارات اور رسائل میں ان کی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ موصوف بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ’’تاشقند سے شملہ تک ، غداروں کی جنت ۔ پاکستان ، سازشوں اور غداری کی داستان ، The Secrets of Past and future defeats ، اسلام کے عظیم سپہ سالار ، نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کی عبرت آموز داستان ، جنسی جرائم اور عدلیہ ‘‘کے ساتھ ساتھ زیر تبصرہ کتاب’’ ایمان فروش ججوں کی داستان ‘‘شامل ہیں۔