طلال چودھری کو رات تین بجے کس نے اور کیوں بلایا؟لڑائی کس بات پر ہوئی اور سابق مسلم لیگی رکن اسمبلی کا بازو کیسے ٹوٹ گیا؟پولیس تفتیش کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے لیکن ایک مسلم لیگی خاتون رکن اسمبلی کے گھر کے اندر یاباہر ہونے والی اس مارکٹائی پر طلال چودھری کا موقف دلچسپ اور قابل دادہے۔ ٹی وی چینلز پر چلنے والی ویڈیو میں طلال چودھری کہہ رہے ہیں کہ انہیں خواتین نے تین بار فون کر کے گھر بلایا‘ ایک رکن اسمبلی کے صاحبزادے کے ہمراہ میں تنظیم سازی کے لئے یہاں آیا مگر مجھے زدو کوب کیا گیا۔ میرا بازو توڑ دیا اور فون چھین لیا ‘پولیس ان خواتین کے فون قبضے میں لے ‘پتہ چلے کہ میں خود آیا یا مجھے بلایا گیا۔ اخبارات کے پرانے قاری ایک خاتون بلقیس اختر عرف جنرل رانی سے واقف ہیں ‘جو سابق فوجی آمر جنرل یحییٰ خان کی شبانہ مجلسوں کی رونق اور لاہور و اسلام آباد کی اشرافیہ کی ہم نفس و ہم راز تھی۔ یحییٰ خان کا دور ختم ہوا تو جنرل رانی بھی قائد عوام کے زیر عتاب آ گئی۔ ایک بار اسے گرفتار کر لیا گیا اور الزام لگا کہ اس کا گھر غیر اخلاقی سرگرمیوں کا اڈہ ہے ‘تھانہ سول لائن میں اخبار نویس جنرل رانی تک پہنچ گئے اور پوچھا کہ کیا واقعہ پیش آیا‘ خاتون نے اعتماد سے رپورٹروں کو بتایا کہ وہ اپنے گھر میں فلاں فلاں شخص کیساتھ بیٹھ کر قومی سیاست کی نقشہ گری کر رہی تھیں۔ پولیس کے سپاہی آئے اور انہوں نے ہمیں پکڑ کر سارا نقشہ بگاڑ دیا۔ طلال چودھری مسلم لیگ کے دبنگ لیڈر ہیں۔ اپنی بلند آہنگی جسے مخالفین زبان درازی قرار دیتے ہیں کا خمیازہ وہ توہین عدالت کے جرم میں نااہلی کی سزا کے ذریعے بھگت چکے ۔2018ء کا الیکشن نہیں لڑ پائے مگر مسلم لیگی قیادت کے چہیتے ہیں ‘ٹی وی چینلز پربھی وہ اپنی قیادت کا دفاع دھڑلے سے کرتے ہیں اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے‘صرف ایک بار میں نے انہیں کسی مخالف سیاستدان کے روبرو ہچکچاتے اور ہکلاتے دیکھا۔ کامران شاہد کے شو میں دوران گفتگو طلال چودھری نے کوئی ایسی ویسی بات کی تو طارق بشیر چیمہ نے کامران شاہد سے پوچھا یہ برخوردار سابق ایم این اے اکرم چودھری کے عزیز ہیں یا کوئی اور۔ طلال چودھری نے اثبات میں جواب دیا تو طارق بشیر چیمہ نے کہا ’’ آپ تو وہی ہیں جو فیصل آباد کے دور ے میں پرویز مشرف اورچودھری پرویز الٰہی کی گاڑی کے آگے لڈی ڈال رہے تھے‘ اب معلوم نہیں کس منہ سے مشرف اور چودھریوں کی مخالفت اور شریف خاندان کی خوشامد کر رہے ہو‘‘ طلال چودھری نے کہا ’’ آپ ہمارے بزرگ ہیں جو چاہیں کہہ سکتے ہیں‘‘۔ اتفاق سے میں اس پروگرام میں شریک تھا اور واقعہ کا عینی شاہد ہوں‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ طلال چودھری اور دانیال عزیز نے مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کا دفاع ہمیشہ دلیری اور ہمت سے کیا ایک خاتون رکن اسمبلی کے گھر رات تین بجے تنظیم سازی کے لئے جانا بھی’’ہمت مردانہ‘‘ نہیں تو کیا ہے ‘کوئی اور ہوتا تو اُسے رات کے پچھلے پہر کی فون کالوں پر قمر جلالوی یاد آ جاتے۔ ؎ قمر ذرا بھی نہیں تم کو خوف رسوائی چلے ہو چاندنی شب میں انہیں بلانے کو مگر یہ ہمت مردانہ کسی اور تو درکنار‘ مسلم لیگ کو بھی ہضم نہیں ہو رہی اور جو بے چارہ شوق تنظیم سازی میں بازو تڑوا بیٹھا‘میڈیا اور گھر میں رسوائی جگ ہنسائی الگ‘ اس کی حمائت میں ابھی تک عابد شیر علی اور رانا ثناء اللہ میں سے کوئی بولا نہ مریم اورنگزیب اور شاہد خاقان عباسی نے منہ کھولا اور نہ مسلم لیگ لندن سیکرٹریٹ سے کوئی بیان جاری ہوا۔ ایسے دلیر ‘محنتی‘ جفا کش اور بے لوث کارکن بھلا کون سی دوسری سیاسی و مذہبی جماعت میں ہیں؟ ہوں گے بھی تو بہت کم ‘جو رات تین بجے کسی خاتون کا فون موصول ہونے پر اپنی جماعت کی تنظیم سازی کے لئے بے خوف و خطر اس کے گھر پہنچ جائیں اور جب تنظیم سازی کا کام بڑھ جائے تو بازو تڑوا کر بھی وقوعہ کو لین دین یا جائیداد کا تنازعہ قرار نہ دیں‘ پولیس کو صاف بتائیں کہ وہ یہاں کیوں آئے اور زدو کوب کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوائیں نہ میڈیا کو اطلاع کریں بلکہ اپنی جماعت کی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے چپ چاپ جا کر ہسپتال میں لیٹ جائیں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دیں‘ یہ تو بُرا ہو میڈیا کا جس کو سن گن مل گئی ورنہ مسلم لیگی لیڈر نے تو نیکی کر دریا میں ڈال کی شریفانہ عادت اپنائی اور فریق مخالف نے بھی ’’حساب داستان در دل‘‘ سمجھ کر معاملہ رفع دفع کر دیا۔ فیصل آباد پولیس بھی چار روز تک تنظیم سازی کے عمل سے بے خبر یا جان بوجھ کر فریقین کے ’’ذاتی‘‘و ’’جماعتی‘‘ کاروبار میں ٹانگ اڑانے سے باز رہی مگر اب خوب سرگرم ہے۔ پی ٹی آئی کا کوئی ادنیٰ کارکن بھی اس طرح کے واقعہ میں ملوث ہوتا تو طوفان بدتمیزی برپا ہو جاتا‘ عدلیہ تک نوٹس لے لیتی اور اسے نجانے کیا سے کیا معنی پہنائے جاتے مگر مسلم لیگ (ن) خوش قسمت ہے کہ اس کے ارکان و عہدیدار کسی کے گھر گھس کر رات تین بجے ’’ تنظیم سازی‘‘ شروع کر دیں یا چنبہ ہائوس میں کوئی خاتون ایم این اے کے نام پر بک کمرے میں مردہ پائی جائے‘جماعت کوئی نوٹس لیتی ہے نہ ریاستی ادارے حرکت میں آتے ہیں۔ ع یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا طلال چودھری جیسے لیڈروں نے اگر مسلم لیگ کی تنظیم سازی کا عمل اسی جوش و خروش‘ مستعدی اور والہانہ جذبے سے جاری رکھا‘ دن کی پروا کی نہ رات کا سوچا تو مجھے یقین ہے کہ’’ ووٹ کو عزت ‘‘ملے گی اور سول بالادستی کا چاند خوب آب و تاب سے چڑھے گا۔ طلال چودھری کا بیانیہ بھی مزیدمقبول ہو گا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔