امریکی صدر جوبائیڈن کا شوق سن کر اطمینان بھی ہوا اور تشویش بھی کہ اس کو کتے پالنے کا بہت شوق ہے۔ مایوسی اس لیے ہوئی کہ اس نے اپنی سب سے پہلی تصویرمیں اپنے پیارے اورپالے ہوئے کتوں کو نہ تو کندھوں پر بٹھایا اور نہ ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس کے پیاروں کی جگہ کندھوں کی بجائے جوتوں تلے ہے۔ اس شوق پر بظاہر کوئی قدغن نہیں ویسے بھی اس نے تو نسلی قسم کے کتے پال رکھے ہیں۔ کوئی خنزیرتو نہیں رکھے ہوئے۔ ایک وقت تھا کہ اسلام آباد صبح سویرے داخل ہونے والوں کو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ زیر پوائنٹ سے لے کر فیض آباد تک متعدد خنزیروں سے گاڑیاں ٹکراتیں‘ گاڑیاں الٹ جاتیں‘ جانیں بھی ضائع ہوتیں۔ اسلام آباد کے شہریوں کو سب سے زیادہ پریشانی ایسے سوروں سے تھی کہ جو رات کی تاریکی میں گھروں اور گلیوں کے باہر کوڑے دانوں سے کچرے سے بچا کھچا کھانے میں مصروف ہوتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام آباد کے جنگلوں میں سے نکل کر یہ شہر بھر میں بڑی بے فکری سے گھومتے تھے۔ معصوم بچے اور وہ جن کا کبھی اس جانور سے پالا نہیں پڑا تھا وہ ڈر کے مارے گھروں میں دبکے رہتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد کہ اسلام آباد میں اخبارات کے دفاتر میں کام کرنے والے صحافیوں کو سب سے زیادہ اسی مخلوق کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وہ رات کے پچھلے پہر اخبارات کے دفاتر سے نکل کر اپنی اپنی سواری پر جونہی راولپنڈی کی طرف رواں ہوتے تو رات کے ان دہشت گردوں کا خوف سب پر سوار ہوتا تھا کہ مبادا کہ کسی خنزیر سے ٹکرائو نہ ہو جائے۔ آخر کار سی ڈی اے کو عوام کی اس پریشانی پر ترس آیا تو انہوں نے انہیں مختلف طریقوں سے جان جوکھوں میں ڈال کر بڑے بڑے ٹرکوں میں لاد کر مری ایکسپریس وے کے آس پاس جنگلوں میں چھوڑ دیا۔ ان دنوں ابھی مری ایکسپریس وے شروع نہیں ہوئی تھی کہ کچھ عینی شاہدین کہتے ہیں کہ سی ڈی اے نے اسلام آباد کے جنگلوں سے ہانک کر مری ایکسپریس وے پر ڈال دیا اور یوں ان خوکوں نے مری میں اپنا تسلط جما لیا۔ اب تو مری میں یہ حالت ہے کہ صبح کی سیر اور رات کو اکیلے نکلنا سوروں کے غیظ و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ شروع شروع میں سوروں کی آمد پر کتے بھونکتے تھے مگر جسمانی ساخت کے اعتبار سے حملہ آور کا وار خالی جاتا تھا اب تو کتوں نے انہیں دیکھ کر بھونکنا ترک کر دیا ہے۔ رات گئے یا صبح سویرے خنزیرکوڑے کے ڈھیر سے اپنی خوراک کھا رہے ہوتے ہیں اور یوں باور ہوتا کہ کتے ان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ کتوں اور سوروں کے اس غیر فطری یا غیر فطری اتحاد پر راہ گیر اور ان سے متاثرہ شخص صرف راستہ بدل کر اور یہ دعا کرتے ہوئے جاتا ہے کہ کوئی وقت آئے گا جب کتے اور سوروں کی رسائی شہروں یا گھروں تک نہیں ہوگی۔ بات امریکی صدر کی کتا پروری سے شروع ہوئی تھی کہ امریکی اپنی اشیا کا اس قدر خیال رکھتے کہ مشرف کے زمانے میں جب افغانستان کو امریکہ نے بمباری کے ذریعے آبادیوں سے لے کر پہاڑوں تک کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا تو امریکی افواج نے غاروں میں چھپے بے یارو مدد گار افغانیوں کو دہشت گردوں کی بھینٹ چڑھانے کے لیے امریکہ سے سراغ رساں کتوں کا بھرا ہوا جہاز منگوایا۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ اس جہازکے اندر امر اپریکہ سے لائے گئے کتے ہیں۔ جہاز کو سلامی دی گئی اور بعدازاں پتہ چلا کہ اس میں تو امر یکہ کے کتے تھے جنہیں افغانستان کے پہاڑوں میں مجاہدین کا سراغ لگانے کے لیے لایا گیا ہے۔ امریکہ سے لائے گئے کتوں میں سے صرف دو کو غاروں میں بھیجا گیا مگر جب وہ واپس نہ آئے تو امریکیوں نے افغانستان میں اپنے کتے بچانے کے لیے وہ کتوں بھرا جہاز واپس امریکہ بھیج دیا۔ ایک طرف وہ پوری دنیا میں جہاں جہاں چاہتا ہے اور جس بے دردی سے چاہتا ہے بدترین ٹیکنالوجی سے لیس ہتھیاروں سے شہروں کے شہر ملیا میٹ کردیتا مگر امریکیوں کو تباہ و برباد شہروں میں لاکھوں انسانوں کے جسموں کے اڑتے جیتھڑوں کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی مگر دوسری طرف وہ اپنے کتوں کو بے گناہ مسلمانوں کے خون سے مہنگے تصور کرتے ہیں۔ ہمارے ہمسائے میں تو سابقہ امریکی صدر کے ابرو کے اشارے پر کشمیریوں اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے امریکی وفادار نے جنوبی ایشیاء کا امن جس طرح تہہ و بالا کیا ہے، نئے صدر سے توقع کی جا رہی ہے اندھے عزائم کی تکمیل کی بجائے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پوری دنیا میں امن کا بول بالا ہو اور ٹرمپ‘ مودی اتحاد کا خاتمہ ہو۔ اس وقت سے ڈرنا چاہیے کہ جب سوروں اور کتوں کا اتحاد پارہ پارہ کرنے کے لیے قدرت کو کورونا سے زیادہ خطرناک وبا نازل نہ کرنی پڑی۔ ان ظالموں کو یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے بعد بے یارومددگار مظلوموں کی آہ نے فلک کا سینہ چیر دیا ہے اور جن طاقتوں کی شہ پر مسلمانوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے ،ایک دن پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ جائے گی۔