سابق وزیراعظم نواز شریف کی روبہ زوال صحت کے پیش نظر بغرض علاج بیرون ملک روانگی کوئی خلاف توقع نہیں تھی لیکن یہ کہ میاں شہبازشریف کو اس مقصد کے لیے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑاجو بظاہر غیر ضروری تھا، بالخصوص جب وزیراعظم عمران خان نے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے سر براہ ڈاکٹر فیصل سلطان کو سروسز ہسپتال بھجوا کر خود تصدیق کرلی تھی کہ میاںصاحب کی صحت تشویشناک حد تک خراب ہے لیکن لگتا ہے کہ یہاں بھی سیاست آڑے آئی۔ نیب نے جو خود کو آزاد اور خودمختار ادارہ کہتے نہیں تھکتا، ای سی ایل سے میاں صاحب کانام نکالنے کے حوالے سے کہا کہ سات ارب روپے کا بانڈ لیاجائے، بال حکومت کے کورٹ میں پھینک دی تھی۔ وزیر داخلہ بریگیڈئیر (ر) اعجازشا ہ نے اپنے پیش رو چوہدری نثارعلی خان کے بنائے ہوئے طریقہ کار کا حوالہ دے کر ہاتھ کھڑے کر دیئے کہ قواعد وضوابط کے تحت وفاقی کابینہ ہی فیصلہ کرے گی کہ نوازشریف کانام ای سی ایل سے نکالا جائے یا نہیں، ان کے مطابق حکومت سے مراد وفاقی کابینہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ نے ایک قسم کا ووٹ لے کر فیصلہ کیا کہ نواز شریف کو بیرون ملک جانے کے لیے ساڑھے سات ارب رو پے کا انڈیمنٹی با نڈ جمع کرانا ہو گا اور بیرون ملک قیام کی مدت چار ہفتے ہو گی۔ حکومتی ترجمانو ں کی طرف سے یہ انوکھا استدلال بھی اختیار کیا گیا کہ انھوں نے محض ایک بانڈ بھرنا ہے تو اس معاملے میں لیت ولعل کیوں؟ ایک اخباری اطلاع کے مطابق عمران خان نے تحریک انصا ف کی کورکمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شریف خاندان نواز شریف کی صحت پر سیاست چمکا رہا ہے۔ اگر وہ شہبازشریف کی جگہ ہوتے تو کسی قسم کی بھی گارنٹی دے کر اپنے بھائی کا علاج کرواتے، ضمانتی بانڈ نہ دینے کی منطق سمجھ سے بالا ترہے، حکومت نے ان سے کون سے پیسے مانگ لیے ہیں۔ وزیراعظم کی اس سادگی پر رشک آتا ہے، خان صاحب یہاں بھی سیاست کھیل رہے تھے کہ نواز شریف سے ساڑھے سات ارب کا بانڈلے کر ان سے بلاواسطہ طور پر تسلیم کرالیا جائے کہ انھوںنے اتنی رقم کی کرپشن کی تھی۔ مزید برآں اگر وہ بانڈ نہیں دیتے اور عدالت کے ذریعے چلے جا تے ہیں تو اور بھی اچھا ہو گا کہ وزیراعظم اپنے کھلاڑیوں کو باور کراسکیں گے کہ میں تو اپنی ہٹ کا پکا ہوں، نہ میں چوروں کو چھوڑتا ہوں اور نہ ہی این آر او دیتاہوں۔ لیکن یہ کیا طرفہ تماشا ہے کہ حکومتی ترجما نوں کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر الزام عا ئد کیا جاتارہا کہ وہ نوازشریف کی صحت پر سیاست کر رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ پہلے تونوازشریف بیرون ملک جانے کو تیار نہیں تھے اور اب وہ بوجوہ با نڈ دینے سے انکاری تھے۔ خان صاحب کو غالباً ایسا متنازعہ فیصلے کرتے ہوئے یہ احساس نہیں تھا کہ اپوزیشن کے علاوہ حکومت کے اتحادی حلقے بھی ان کے اس فیصلے کو سیاسی اور قانونی طور پر تسلیم نہیں کریں گے۔ جید وکلا جن میں عابد حسن منٹو، سلمان اکرم راجہ، رشید رضوی اور جسٹس (ر) شائق عثمانی شامل ہیںنے اس شرط کو غیر قانونی اور غیر آئینی قراردیا لیکن تحریک انصاف میں شامل بیرسٹر علی ظفر اور ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر علی سیف نے بھی قانونی بنیادوں پر اس فیصلے کی حمایت نہیں کی۔ سیا سی طور پر چودھری برادران نے نہ صرف اسے یکطرفہ پابندی قرار دیا بلکہ اس کی سرتوڑ مخالفت بھی کی گویا کہ اس صورتحال پر خان صاحب یہ مصرعہ گنگنا رہے ہونگے ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘۔ چودھری شجاعت نے تو اپنے مخصوص انداز میں متنبہ کیا کہ سیاسی اختلاف کو ذاتی نہیں بنانا چاہیے جبکہ پرویزالٰہی نے یہ تک کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں پھانسی جسے جوڈیشل مرڈر بھی قرار دیا جاتا ہے کے اثرات سے قوم آج تک نہیں نکل سکی لہٰذا حکومت یہ رسک نہ لے کیونکہ میاں نواز شر یف کو اگرکچھ ہو گیا تو ذمہ داری اسی پر عائد ہو گی۔ اس واضح موقف کے بعد یہ بات جس کا مخصوص لوگوں کو توپہلے ہی علم تھا اب اظہر من الشمس ہو گئی ہے کہ چودھری برادران اور عمران خان ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ ویسے تو شریف برادران اور چودھری برادران کے درمیان بعض معاملات پراختلافات ہونے کے باوجود دونوں خاندان کئی برس تک ایک دوسرے کے سیاسی ہمسفر رہے ہیں۔ دونوں مسلم لیگ میں اکٹھے تھے اور جنرل ضیاء الحق کی ’بی ٹیم‘ شمارہوتے تھے۔ بعدمیں بھی یہ اشتراک قائم رہاجب نواز شریف وزیراعظم بنے تو چودھری شجاعت ان کی کابینہ میں شامل تھے اور پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کے سپیکر تھے۔ یہ سیاسی اشتراک اس وقت ٹوٹا جب میاں برادران پرویز مشرف کے دورآمریت میں ڈیل کرکے جلاوطنی میںچلے گئے اورچودھری شجاعت مسلم لیگ(ق) بنا کر پرویز مشرف کے حلقہ بگوش ہو گئے۔ 2007ء میںمیاں نوازشریف کی وطن واپسی کے بعدچودھری برادران کی مسلم لیگ کو اکٹھا کرنے کی کوششیں اس لیے ناکام ہوئیںکہ میاں نوازشریف کے لیے چودھری شجاعت تو قابل قبول تھے لیکن پرویز الٰہی پران کے کچھ تحفظات تھے۔ جب میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دوروزارت عظمیٰ میں سیف الرحمن کی سربراہی میں احتساب بیورو بنایا تو چودھری شجا عت نے مجھے کہا کہ یہ میاں نوازشریف نے غلط روایت ڈالی ہے۔ اگر آج وہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو احتساب کے نام پر انتقام کانشانہ بنائیں گے تو کل کو یہی سلوک ان کے سا تھ بھی ہوسکتاہے، اوران کی یہ پیشگو ئی درست ثابت ہوئی۔ ایک اور موقع پر جب جلاوطن شہبازشریف کی اہلیہ نصرت شہباز اپنی صاحبزادی کے ہمراہ پاکستان واپس آئیںتو پولیس ان کے پیچھے لگ گئی تو وہ میاں فیملی کے ایک قریبی دوست کے گھر چلی گئیں۔ چودھری شجاعت کو جب صورتحال کا علم ہوا تووہ خود وہاں پہنچے اور بیگم نصرت شہباز کو یقین دلایا کہ میں آپ کو لینے آیا ہوں، آپ اپنے گھر جا کر سکون سے سوئیں، میرے ہوتے ہوئے آپ کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ اسی طرح پرویز الٰہی جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے وہ شہبازشریف کے بیٹے حمزہ شہبا ز کی آبیاری کرتے رہے۔ اس بدلے ہو ئے سیاسی منظر نامے میں چودھری برادران کی طرف سے میاں صاحب کو باہر بھیجنے کی غیر مشروط حمایت کے بعد یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ شریفین اور چودھری کسی مرحلے پر اکٹھے ہو جائیں گے۔ یہ خان صا حب کی سیاسی عدم بصیرت ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ حال ہی میںچودھری شجاعت جرمنی میں طو یل علالت کے بعدوطن واپس پہنچے تو خان صاحب نے ان کے گھر جا کر مزاج پرسی کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گویا کہ جس وضع داری کا ثبوت اپوزیشن میں رہتے ہو ئے مولانا فضل الرحمن نے دیا، خان صا حب اس وضع داری کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ چودھری شجاعت اپنے والد مرحوم چودھری ظہورالٰہی اور اس دورکے دیگر قدآور سیاستدانوں کی روایات نبھا رہے ہیں جبکہ ان باتوں کا خان صاحب اور نئی نسل کے سیاستدانوں کو کو ئی ادراک نہیں ہے۔ جمعے کو خاصے وقفے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقا ت ہوئی۔ بظاہر اس ملاقات میں سکیورٹی معاملات زیر بحث آئے لیکن یقیناً مولاناکے دھرنے کے بعد ان کے پلان ’بی‘ اور نوازشریف کو بیرون ملک بھیجنے جیسے معاملات پر بھی بات چیت ہوئی ہو گی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا دعوی ہے کہ پاک فوج یہ نہیںچا ہتی کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وزیراعظم کوجو تمام تر الزامات کے باوجود اب بھی مقبول ہیں، اگر حکومتی رکاوٹوں کی وجہ سے انھیں کوئی نقصان پہنچتا ہے تو یہ صورتحال اچھی نہیں ہو گی۔وزیراعظم کو نوشتہ دیوار پڑھنا چاہیے، حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ اگران کے حلیفوں، حواریوں اور پشت پناہوں نے ہاتھ کھینچ لیا تو پاکستان کے ماضی کے حکمرانوں کی طرح زمین ان کے پیروں تلے سے بھی کھسک سکتی ہے اورکو ئی بعید نہیں کہ بلاول بھٹو اور خواجہ آصف کی پیشگوئیاں کہ موجودہ حکومت چند ماہ کی مہمان ہے، درست ثابت ہو جا ئیں ۔