تحریک انصاف کے پاس اس وقت مسلم لیگ ن سے بھی زیادہ اقتدار موجود ہے ، مسلم لیگ ن مرکز پنجاب میں برسراقتدار تھی جبکہ تحریک انصاف کے پاس مرکز اور پنجاب کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخواہ بھی ہے ،تحریک انصاف نے ایک سال پورا کرلیا ہے اگر تفصیل میں جائیں تو مرکز کے ساتھ ساتھ صوبوں کی کارکردگی کابھی جائزہ لینا ہو گا ، سندھ کی کارکردگی کو بھی دیکھنا ہو گا جوکہ پیپلز پارٹی کے پاس ہے ، اسی طرح بلوچستان میں برسراقتدار گروپوں کی کارکردگی کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ بھی لینا ہو گا ، یہ طویل موضوع ہے جس پر بحث کا سلسلہ جاری ہے ،سردست اگر ہم پنجاب کی بات کریں تو پنجاب اتنا بڑا صوبہ ہے کہ تینوں صوبوں کی مجموعی آبادی اُس سے کم ہے ، صوبے کے بڑے حجم اور وسائل کے دیکھتے ہوئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب وزارت عظمی سے بھی بڑھ کر نظر آتا ہے ، اس وقت سردار عثمان خان بزدار کو ہم با اختیار وزیر اعلیٰ اس بناء پر کہہ سکتے ہیں کہ صوبوں کے معاملات کو چلانے کے لئے چوہدری پرویز الٰہی ،گورنر چوہدری محمد سرور اور علیم خان وغیرہ پر مشتمل جو کمیٹیاں بنائی گئی تھیں وہ ختم ہو چکی ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مرکز اور صوبے میں تحریک انصاف وسیب کے ووٹوںسے برسراقتدار ہے ، آج اگر وسیب کے ارکان اسمبلی کو ایک طرف کر دیا جائے تو دونوں حکومتیں دھڑام سے نیچے آ جائیں گی ، یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کو سندھ ،بلوچستان اور اپر پنجاب میں شکست ہوئی ، تحریک انصاف کو خیبر پختونخواہ سے ووٹ ملا اور فیصلہ کن کامیابی میں وسیب نے اہم کردار ادا کیا ، وسیب کو پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے صوبے کے نام پر دھوکہ دیا ، تحریک انصاف نے 100دن کے اندر صوبہ بنانے کے تحریری معاہدے پر ووٹ حاصل کیے مگر 365دنوں میں نہ صرف یہ کہ صوبہ نہیں بنا بلکہ صوبے کے لئے کوئی بھی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔وسیب کے لوگ پہلے دن سے مطالبہ کرتے آ رہے ہیں کہ صوبہ کمیشن بنایا جائے مگر تحریک انصاف مسلسل لیت و لعل سے کام لیتی آ رہی ہے ۔ اگر ہم صوبے میں وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو خوشگوار ی کا کوئی پہلو سامنے نہیں آتا ، سرائیکی وسیب میں سیلاب کی صورت حال تیزی سے خراب ہو رہی ہے، وزیر اعلیٰ کے ہوم ڈسٹرکٹ ڈی جی خان میں دریائے سندھ کے کٹائو سے سینکڑوں آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں، وسیب کے مرکزی شہر ملتان میں پچھلے دنوں قیامت برپا ہوئی غیرت کے نام پر حسن آباد ملتان میں 10 آدمیوں کو نہ صرف گولیوں سے بھون دیا گیا بلکہ بچ جانے والے زندہ بچوں کو تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی ، وزیر اعلیٰ کو اتنے بڑے سانحات پر ملتان یا ڈی جی خان میں آنے کی توفیق نہیں ہوئی ، اُن کے مکربین کے مطابق وزیر اعلیٰ کی دلیل یہ ہے کہ اگر میں وسیب کے دورے پر چلا جائوں تو سمجھا جائے گا کہ وزیر اعلیٰ کا تعلق صرف وسیب سے ہے، حالانکہ اُن کو سمجھنا چاہیے کہ اُن کا تعلق وسیب سے ہے وہ اس وقت وسیب کے ووٹوں سے برسراقتدار ہیں اور ان کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ انہوں نے صوبہ محاذ کے رکن کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور اپنے ووٹروں سے صوبے کے نام پر ووٹ لئے ، مگر برسراقتدار آنے کے بعد وہ وسیب کو اور اپنے وعدوں کو نہ صرف بھول چکے ہیں بلکہ اُن کے بہت سے اقدامات وسیب کے حق کی بجائے وسیب کی مخالفت میں اٹھائے جا رہے ہیں ۔ سرائیکی زبان و ادب کی ترقی ایک حساس موضوع ہے ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سرائیکی چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ، سرائیکی پاکستان کی سب سے قدیم اور بڑی زبان ہے۔ سرائیکی وسیب کے اہل قلم نے اپنی ذاتی محنت اور کوششوں سے اسے اکیڈمک زبان بنا دیا ہے ، اب سرائیکی زبان میٹرک سے لے کر پی ایچ ڈی تک پڑھائی جا رہی ہے ،حکومت پاکستان کے ادارے اکادمی ادبیات کے مطابق سب سے زیادہ ادبی کتابیں سرائیکی زبان میں شائع ہوتی ہیں ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ریکار ڈ کے مطابق پاکستانی زبانوں کے شعبہ میں سب سے زیادہ داخلے سرائیکی زبان میں ہوتے ہیں ، یہ سب کچھ سرائیکی ادیبوں، شاعروں ، دانشوروں، اساتذہ اور اہل قلم نے اپنی مدد آپ کے تحت کیا ہے ، سرائیکی زبان کو کسی بھی طرح کی کوئی سرپرستی حاصل نہیں ہے ، تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے پر انصاف کی توقع تھی مگر ابھی تک کچھ بھی مثبت دیکھنے کو نہیں ملا ۔ عثمان بزدار جب سے برسراقتدار آئے ہیں انہوں نے سرائیکی حوالے سے نہ تو کوئی مشاعرہ کرایا اور نہ ہی سرائیکی ثقافتی فیسٹیول ۔ گذشتہ ماہ الحمرا لاہور میں ڈی جی خان فیسٹیول کے نام سے پروگرام ہوا مگر ڈی جی خان سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ الغوزہ نواز حاجی غلام فرید کنیرہ عالمی شہرت یافتہ شاعر اقبال سوکڑی ،عاشق بزدار ،عزیز شاہد، بشیر غمخوار، ریاض عصمت ،اصغرگورمانی میں سے کسی کو نہیں بلایا گیا، معروف ٹی وی اینکر عارف ملغانی سمیت سرائیکی کے تمام فنکاروں کو نظر انداز کر کے بلوچی سانگ رچایا گیا ،اب فورٹ منرو میں سرکاری خرچ پر ثقافتی پروگرام کرایا جا رہاہے جہاں سرائیکی کو اس حد تک نظر انداز کر دیا گیا کہ معروف ٹی وی اینکر عارف ملغانی کا نام کمپیئرنگ کے لئے لکھا گیا اور اُن کو باقاعدہ دعوت بھی دے دی گئی مگر پروگرام کے منتظم ناصر شیخ نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ انتظامیہ چاہتی ہے کہ تمام کارروائی بلوچی میں ہو،اس عمل کے خلاف پورے وسیب میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور حکومت پنجاب سے مذمت کی جا رہی ہے ۔ سرائیکی رہنمائوں خواجہ غلام فرید کوریجہ ،عاشق بزداراورپروفیسر شوکت مغل نے بجا طور کہاکہ ہم بلوچی زبان ادب و ثقافت کی ترقی کے خواہاں ہیں مگر یہ کام صوبہ بلوچستان کے وسائل سے ہونا چاہیے ، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے سرائیکی ادب و ثقافت کے فنڈز اور وسائل سے اپنے گائوں بارتھی ،تونسہ ،ڈی جی خان،راجن پورو دیگر علاقوں میں بلوچی فیسٹیول کرائے ہیںجو کہ غلط ہے ، سرائیکی وسیب کے وسائل سے سرائیکی میں فیسٹیول ہونے چاہئیں ،حکومتی اقدامات سے وسیب میں تفریق پیدا کی جا رہی ہے۔