بلوچستان کے جنوبی بیلٹ میں ایک زمانے میں سرداروں کابڑا طوطی بولتاتھا۔ یہ لوگ نمرود اور فرعون بنے ہوئے تھے اور اپنے اردگرد انسانوں کو درخت کے پتوں سے بھی کمتر اور ذلیل سمجھتے تھے۔ایک دفعہ ایک غریب پٹھان اپنے علاقے سے فرار ہوکر ان سرداروں میں سے کسی ایک سردارکے ہاں پناہ لینے آیا۔ کچھ عرصہ بعد سردار صاحب نے اس ہمسائے کی بیوی سے بزور طاقت ناجائز تعلقات استوار کیے ۔بیوی کاخاوند خوف کے مارے سردار صاحب کی ناقابل برداشت زیادتی اور بربریت پر چشم پوشی کرتا رہا۔ کچھ مہینے بعد اس بے چاری خاتوںکے ہاں ایک بچہ نے جنم لیا۔سردار نے اس وقت بھی انتہا درجے کے ظلم کامظاہرہ کرتے ہوئے خاتون سے جبری طور پر اپنے بچے کو قتل کروا دیا۔سردار کے ان زیادتیوں کے قصے سن سن کر خاتون کا شوہر آخراتنا دل برداشتہ ہوا کہ نہ صرف صوم و صلو ۃ کوترک کردیا بلکہ خدا کے وجود سے بھی منکر ہوگیا۔ یہ شخص دلیل دیتا تھا کہ اگر خدا ہوتا تو ضرور اس فرعون صفت سردار کے اوپر اپنے قہر کے گولے برساتا جس کے شرسے میری اور نہ ہی کسی دوسرے بے بس انسان کی عزت اور جاں محفوظ ہے ۔ ایام زمانہ نے پھر کروٹ لی ، ہوا یوں کہ ایک دن اسی سردارکی بیٹی( جو ان کے اپنے گھر میں ان کے بھتیجے سے بیاہ ہوئی تھی) سے اپنے خاندان ہی کے کسی شخص نے تعلق قائم کع لیا۔سردار صاحب کو جب اس یارانے کا علم ہواتوان کو اتنی غیرت آگئی کہ ایک رات انہوں نے اسی کمرے میں (جس میں انہوں نے اپنے ہمسائے کی عزت لوٹی تھی اوربچے کواپنی ماں سے جبراً قتل کروایاتھا)دونوں کورنگے ہاتھوں گرفتار کرکے اپنی بیٹی کوموت کی گھاٹ اتاردیا جبکہ لڑکازخمی حالت میں بھاگ نکلا۔صبح جب یہ خبر پھیل گئی تو سردار کے اس مظلوم ہمسائے نے فوراً کلمہ طیبہ پڑھنا شروع کیا اور کہنے لگا ’’مجھے اب عین الیقین ہوگیا کہ ذات باری تعالیٰ موجود ہے اور اپنے مظلوم بندوں کی خبر لیتی ہے اگرچہ حکمت کے تحت ان کے ہاں انصاف میں دیرضرورلگتاہے‘‘۔ مجھے یہ واقعہ کراچی والوں پر بیتنے والے مہیب ایام کے تناظر میں یاد آیا اور ساتھ ساتھ قرآن کریم کی یہ آیت بھی یاد آئی ’’تلک الایام نداولہا بین الناس" لوگوں کے درمیان ایام گردش کرتے رہتے ہیں(القرآن)۔یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ایک زمانے میں باطل کا(بظاہر) غلبہ ہوگا اور پھر ایساوقت ضرور آئے گا کہ باطل نشان عبرت بن جائے گا۔ڈیڑھ ،پونے دو کروڑ کی انسانی آبادی والا شہر کراچی آج سے چند سال قبل زمیں کے جھوٹے خداووں کے رحم و کرم پر تھا ۔بندوق کی نالی ہر اس شخص سے مخاطب ہوتی تھی جو ان خدائوں کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکار توکیا، کچھ لمحے تامل سے کام لیتا۔آٹھ سال قبل کابلدیہ فیکٹری کا دل خراش سانحہ کسے یاد نہیں کہ فیکٹری کے مالک نے پچیس کروڑ روپے کا بھتہ ادا نہ کرنے سے انکار کردیا تو پھربڑے بھتہ مانگنے والے فرعون حماد صدیقی اور اُن کے دیگر ساتھیوں نے زبیر عرف چریا جیسے قاتلوںکو پوری فیکٹری نذر آتش کرنے کا ٹاسک سونپ دیا۔چریا اور ان کے ساتھیوں نے فیکٹری کو آگ لگا دی اور ایسی آگ کہ پَل بھر میں اس کے اندر دو سو ساٹھ مرد اور خواتین زندہ جل کر راکھ ہوگئے ۔چار برس بعد اس کیس کامرکزی ملزم عبدالرحمن عرف بھولا جب بنکاک سے انٹرنیشنل پولیس کے ذریعے گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کیاگیاتو ملزم نے نہ صرف حماد صدیقی کو ماسٹر مائنڈقراردیابلکہ اسی وقت کے ایک صوبائی وزیررووف صدیقی کو بھی مجرم ٹھہرایا۔ بھولے کا کہنا تھا کہ صدیقی اینڈ کمپنی نے الٹا فیکٹری کے مالک کو اس سانحے کا ذمہ دار ٹھہرا کر مقدمہ درج کیا اور پھر یہ مقدمہ اس وقت واپس لے لیاجب مالک نے چار سے پانچ کروڑ کی رقم ادا کردی ۔یہ تھی صرف بلدیہ فیکٹری کے ایک سانحے کی مختصر روداد ،ورنہ کراچی معاشی حَب کم اور ٹارگٹ کلروں، ڈاکہ ڈالنے اورآگ لگانے والوں ،بندوق کی نول پر کروڑوں کی ناجائز رقم لینے والوں اور کاٹے گئے انسانوں کی بوری بندلاشیں پھینکنے والوں کامرکز زیادہ تھا۔ کراچی میں امن لوٹ آنا جوئے شیر لانے کا مترادف عمل تھا لیکن یہ مشکل ترین کام ریاست نے چند سال پہلے چند مہینوں میں کردکھایا ۔پچھلے چند برسوں کے دوران اس شہر کے امن کو غارت کرنے والے پہاڑی ، ٹیڈی، ٹیلے والے،، موٹے ، بنگالی ، مرچی اور لمبے گرفتار ہوکراپنے انجام کو پہنچے ۔ بہت اچھا ہوا کہ کراچی کا امن بحال ہوا اور شہر قائد میں زندگی کا پہیہ پھر سے گھومنے لگا تاہم سوال یہ بھی ہے کہ آخر ان بھولوں، صولت مرزائوں، ٹیلے والوں ، پہاڑیوں اور ٹیڈیوں کے سرپرستوں کا آخر کیا بنا؟ کیا شہر قائد میں زندگی کا پہیہ جام کرنے والوں سے ریاست ِ قائد کی سرکار آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کابھی ارادہ رکھتی ہے؟ صرف کراچی نہیں بلکہ اس ملک میں اس وقت بھی ظلم ہورہاہے اور ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ انسانوں کے قاتل اپنے ہاتھوں پر دستانے پہنے گھوم رہے ہیں۔خدا کے ہاں بے شک اندھیر نہیں ہے اور باری باری ان سب ظالموں سے حساب برابر کرے گا لیکن سرکارِ وقت سے بھی اپنی ذمہ داری نبھانے کے بارے میں بازپرس کی جائے گاکہ پہاڑی ،ٹیلے والے اور چریے جیسے چھوٹے چھوٹے مگرمچھوں پر تو ہاتھ ڈالاگیا تاہم ان چھوٹے مگرمچھوں کے مربی اور ماسٹر مائندز سے درگزر کا معاملہ کیوں کیا گیا؟