پنجاب بھر کی جیلوں میں علاج معالجہ کی بہتر سہولیات دستیاب نہ ہونے کے نتیجے میں مردوں کے بعد موذی بیماریوں میں مبتلا ہونے والی قیدی خواتین کی شرح میں اضافہ سامنے آ گیا ہے۔ دنیا بھر میں قائم جیلیں ہر طرح کی سہولیات سے آراستہ ہوتی ہیں، جہاں پر قیدیوں کو مہینے میں کچھ دن اپنی فیملی کے ساتھ رہنے کی سہولیات بھی میسر ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں قیدیوں کو قید تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رشتہ داروں سے ملاقاتوں پر پابندی‘ ناقص کھانا‘ نامناسب رہنے کی جگہ اس پر مستزاد قضائے حاجت کی جگہیں تعفن اور بدبو کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں۔ ان حالات میں اگر کوئی قیدی بیمار پڑ جائے تو اسے طبی سہولیات کے حصول کے لئے بے پناہ قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعداز اجازت جیل ہسپتال میں ڈاکٹرز ہی میسر نہیں ہوتے۔ خواتین قیدیوں کے لئے مختص 23ڈاکٹرز میں سے صرف11لیڈی ڈاکٹرز تعینات ہیں جبکہ 14نرسز میں سے ایک بھی تعینات نہیں، جس بنا پر ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسے خطرناک مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کلینیکل ٹیسٹوں کے لئے تو کوئی سہولیات میسر ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب قیدی جیل سے رہا ہوتے ہیں تو ابنارمل محسوس ہوتے ہیں۔ نوعمر قیدیوں کے لئے الگ حفاظتی انتظام ہونا چاہئے تاکہ وہ درندہ صفت قیدیوں کے جنسی حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اس طرح خواتین کا بھی جنسی استحصال ہوتا ہے اس کے تدارک کے لئے بھی کوئی خاص طریقہ اختیار کیا جائے۔وزیر جیل خانہ جات اور آئی جی جیل اس کا نوٹس لیں تاکہ جیلوں کی حالت زار سدھر سکے اور قیدیوں کو مناسب طبی سہولیات مل سکیں۔