یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے ، تو ایک روز اچانک پیغام موصول ہوا، کہ موصوف حضرت میاں میرؒ کے مزار پر حاضری دیں گے ، گیلانی صاحب چند لمحوں کی مسافت پر ، سٹیٹ گیسٹ ہائوس میں قیام فرما تھے، عجز و نیاز سے آئے، مزار پر پھولوں کی چادرپیش ہوئی، محکمہ کی طرف سے سیکرٹری اوقاف کے ساتھ راقم بھی موجود تھا ، چادر پوشی اور روایتی دستار بند ی کے بعد، گپ شپ کے انداز میں، غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے، حضرت میاں میرؒ اور بالخصوص بر صغیر میں قادری سلسلے کی ترویج میں حضرت میاںمیرؒ کی خدمات پر بات چیت شروع ہوگئی، گیلانی صاحب اپنے والد سیّد علمدار حسین گیلانی کے ساتھ ، یہاں اپنی گذشتہ حاضری کے واقعات تازہ کرنے اور اپنے اجداد میں سے حضرت سیّد ابو الحسن جمال الدین المعروف موسیٰ پاک شہید (952۔1010ھ) اور مابعد کے سجاد گان کی حضرت میاں میرؒ سے معاصرت اور پھر ان سے نسبت و تعلقِ خاطر پر گفتگو کرنے لگے۔ اثنائے گفتگو میں انہوں نے استفسار کیا کہ حضرت میاں میرؒ کون تھے ؟ بتایا گیا کہ نسباً فاروقی اور مشرباً قادری۔حضرت میاں میرؒ کے مزار شریف کے اِردگِرد ساداتِ گیلانی کے کم و بیش تیس گھرانے آباد ہیں۔و ہ اس درگاہ کی سجادگی اور حضرت میاں میرؒ کی جانشینی کے دعویدار ہیں، اور ایک گیلانی پرائم منسٹر کی دربار شریف آمد پر ان کاپُر جوش(Excited) ہونا، ایک فطری سی بات تھی ، گیلانی صاحب نے بات مزید آگے بڑھائی اور سوال داغ دیا، کہ حضرت میاں میرؒ تو فاروقی تھے ۔۔۔؟ ان کے جانشین گیلانی کیسے ہوئے؟ یہ کہکر گفتگو کا رُخ موڑا گیا کہ ، اس کا بہتر جواب تو یہاں موجود گیلانی صاحبان ہی دے سکتے ہیں، بہر حال ۔۔۔امرِ واقعہ یہی ہے کہ درگاہ کے اِرد گِرد سجادگان و متولیان کی کثیر رہائش گاہیں موجودہیں، اورمارچ1960 ء میں، جب یہ خانقاہ، اوقاف کی تحویل میں آئی، تو دخل قبضہ انہیں سے حاصل کیا گیا۔ بہر حال ۔۔۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا دارا شکوہ کیونکہ حضرت میاں میرؒ کا ازحد عقیدت مند آپؒ کے خلیفہ ملّا بد خشی کا بیعت تھا، اس لیے قادری سلسلے کے لوگ بھی، حضرت میاں میر ؒ کی نسبت سے ، اس کی قدر کرتے تھے ، مغلوں میں چونکہ سلطنت کی جانشینی کا کوئی اصول نہ تھا، جس کے سبب شاہجہان کو دقّت کا سامنا ہوا۔اس نے ہندوستان کی عظیم سلطنت کو چار بڑے حصوں میں تقسیم کر کے ، اپنے چاروں بیٹوں کو ان کی حکمرانی تفویض کردی ۔ شاہجہان کے علاوہ دارا شکوہ کی بڑی بہن جہاں آرأ بیگم، جو شاہجہان کی بڑی چہیتی تھیں، بھی دارا کو پسند کرتی ، جس کا ایک سبب، ان دونوں کا صوفیانہ ذوق اور حضرت میاں میرؒ سے نیاز مندی کا اشتراک تھا۔ داراشکوہ کو الہٰ آباد پنجاب اور ملتان جیسے زرخیز صوبوں کی حکومت کے ساتھ ، چالیس ہزار سوار کا بے مثال منصب اور تختِ شاہی کے ساتھ طلائی کرسی پر جلوہ افروز ہونے کاا عزاز بھی میسر آیا، جس کا مقصد رعایا میں اس کی ولی عہدی اور پھر با دشاہت کے نقش کو مستحکم کرنا تھا ۔ باپ کی محبت اور بہن کی تائید کے سبب دارا کا پلڑا بھاری تھا ، جس کے ردّ ِعمل میں بقیہ تینوں بھائی، یعنی سلطان شجاع ، مراد، اورنگ زیب اور ان کی چھوٹی بہن روشن آرأ ایک ہوگئے۔ حضرت ابو الحسن موسیٰ پاک شہیدؒ کے پوتے اور درگاہ کے، اس کے وقت کے سجادہ نشین نواب موسیٰ پاک، علم وفضل کے علاوہ دنیاوی منصب اور وجاہت میں بھی ممتاز اور صوبہ ملتان کے دیوان یعنی گورنر تھے ۔ اور نگ زیب، جب اپنے بھائی داراشکوہ کی تلاش میں، لشکر کے ساتھ آگرہ، دہلی، لاہور اور پھر ملتان پہنچا، تو اس کی آمد سے قبل ہی داراشکوہ ملتان سے کوچ کر کے بھکر کی طرف روانہ ہوچکا تھا۔ اورنگ زیب حضرت شیخ موسیٰ کی خانقاہ میں پہنچا اور دارا کی بابت دریافت کیا، دارا بے شکوہ کجااست۔۔۔؟ یعنی دارا" بے حیثیت "کہاں ہے؟حضرت شیخ موسیٰ نے نہایت جرأت کے ساتھ جواب دیا کہ دارا باشکوہ رفت رفت، یعنی دارا "با حیثیت"یہاں نہیں ہے ، اگر یہاںہوتا، تو وہ میرا مہمان تھا ، میں اُسے کبھی تمہارے حوالے نہ ہونے دیتا۔ ہندوستان کی شہنشاہیت اس وقت، تقریباً اورنگ زیب کے دسترس میں آنے کو تھی، حضرت شیخ موسیٰ کے اس جواب کو وہ کیسے نظر انداز کرسکتا تھا، اور حضرت الشیخ کو بھی پتہ تھا کہ وہ کس سے بات کررہے ہیں، چنانچہ انہوں نے اس موقعہ پر دنیاوی عہدوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کرکے ، خود کو خانقاہ کی حد تک محدود کرلیا۔بہر حال یہ سب باتیں دو روز قبل ، منگل کی شب حضرت میاں میرؒ کے مزارِ اقدس کی رسمِ غُسل کے موقع پر ، اُس وقت تازہ ہوئیں، جب آپؒ کی خانقاہِ عالیہ کی پُر نور فضائوں میں حاضری کے اعزاز سے متصف رہے تھے۔وزیر اوقاف صاحبزادہ سیّد سعید الحسن، سیکرٹری اوقاف ڈاکٹر ارشاد احمد، 92 میڈیا گروپ کے ایڈوائزر محمد اسلم ترین، اور سب سے بڑھ کر حضرت سلطان العارفین کے خانوادے سے صاحبزادہ محمد شِہزاد سُلطان اور صاحبزادہ محمد شہر یار سلطان، اپنے آبائی قادری نسبتوں کے ساتھ ، جلوہ گر ہوئے، ان کے جدِاعلیٰ حضرت سلطان باہوؒ نے یقینا ایسی ہی ہستیوں کے لیے کہا ہوگا۔ نام فقیر تنہاں دا باہو قبر جنہاں دی جیوے ہو حضرت میاں میرؒ کو دنیا سے پردہ کیئے چار سو سال ہونے کو ہیں، مگر آج بھی ان کے دَر کی ہوائیں اور فضائیں ، مشامِ جاں کو معطر اور منور کرتے گزرتی ہیں۔ ایک عجیب کیف و سرور ہے اس درویش خدا مست کے آستانے پر، زندگی کے آخری دنوں میں اسہال کا مرض لاحق ہوا، آپؒ کے وصال سے ایک روز قبل حاکم وزیر خاں حاضرِ خدمت ہوا، ملاقات کی اجازت میسر نہ آئی ،وزیر خاں انتظار میں بیٹھ گیا اور درخواست کی کہ عیادت اور ملاقات کے بغیر نہیں جائونگا۔ آپؒ نے اس شرط کے ساتھ اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ زیادہ دیر نہ بیٹھے۔ وزیر خاں اندر حاضر ہوکر عرض گزار ہواکہ آپؒ کے علاج کے لیے ایک طبیبِ حاذق ساتھ لایا ہوں۔ آپؒ کی اجازت ہو، تو یہ آپ کا علاج کرے ، آپؒ نے فرمایا میرے لیے حکیمِ حاذق نہیں، حکیمِ مطلق ہی کافی ہے ۔ حضرت اقبال نے جن صوفیأ کی بارگاہ میں از حد عقیدت واردات سے منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا، اُن میں سے ایک اہم ترین ہستی ، قادری سلسلے کے یہ عظیم بُزرگ یعنی حضرت میاں میرؒکی بھی ہے، جن کے بارے میں اقبال نے ’’اسرار و رموز‘‘میں بے پناہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے : حضرت شیخ میاں میرؒ ولی/ہِر خفی از نورِ جانِ او جلی/بر طریقِ مصطفی محکم پئے/نغمۂ عشق و محبت را نئے/ترتبش ایمانِ خاکِ شہرِ ما/مشعلِ نور ہدایت بِہرِمَا۔ حضرت اقبال نے آپؒ کی تُربت اور مرقد کو اپنے شہر کی سرزمین کا ایمان اور ان کی پندو موعظمت کو ، اہلِ وطن کے لیے مشعل ِ نورِ ہدایت قرار دیتے ہوئے ، اتباعِ رسول کریمﷺ میں ان کے قدم کو مستحکم اور ان کے نغموں کو عشق و محبت کی جان فرمایا ہے۔پنجاب کی سرزمین کو رشدو ہدایت سے منور، اور بھٹکے ہوئے انسانوں کو نیکی کی راہ دکھانے والی ہستی ، جنہوں نے گرتی ہوئی معاشرتی اقدار اور سوسائٹی میں پھیلتے ہوئے فتنہ و فساد کا اپنی روحانی اور ایمانی فیوضیات کے ذریعے انسداد اور تدارک کیا، سلسلہ قادریہ کو ، بالخصوص خطہ پنجاب میں نشاۃ ثانیہ بخشی۔ تنز ل و انحطاط کے دور میں احیائے ملّت اور اعلأ کلمۂ الحق کی کوششوں کو مضبو ط اور مستحکم کیا اور جن کا اسمِ گرامی بر صغیر کی روحانی ، دینی اور ثقافتی تاریخ میں ہمیشہ آبِ زر سے لکھا جائیگا۔