بات دو ٹوک اور سیدھی ہے۔بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا اور مقبوضہ کشمیر میں فیصلہ کن لشکر کشی درحقیقت پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ کشمیر پہ یکطرفہ بھارتی قبضہ ہے۔ اسے کچھ اور سمجھنا نرم ترین الفاظ میں حماقت ہے۔بھارت اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف وزری کرکے دو اہداف حاصل کررہا ہے۔ ایک اصل کارروائی یعنی مقبوضہ کشمیر پہ بھارتکے آئینی قبضے سے دنیا کی توجہ ہٹانا۔دوم۔ مقبوضہ علاقے میں مسلمانوں کی ایسی نسل کشی جس سے علاقے کی ڈیمو گرافی تبدیل ہو سکے تاکہ بعد از خرابی بسیار اسے کشمیر میں کسی بھی عالمی دباو کی وجہ سے استصواب رائے کروانا بھی پڑ جائے تو فیصلہ بھارت کے حق میں نکلے۔ اس مقصد کے لئے دنیا بھر میں رائج روایتی اقدامات بروئے کار لانا بھارت کی مجبوری ہے۔یعنی مسلم نسل کشی جو ایک مخصوص رفتار سے جاری ہے۔کشمیریو ں کو ایک مخصوص علاقے تک محدود کرنا یعنی جنوبی ایشیا میں ایک اور غزہ کی پٹی بنانا ، اسکے لئے کئی علاقوں کو مکمل لاک ڈاون کردیا گیا ہے اور بغیر بھارتی فوج کی اجازت کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں کشمیریوں کی نقل و حرکت ناممکن بنا دی گئی ہے۔کشمیر میں اقتصادی ترقی کے نام پہ بھارتی سرمایہ کاروں اور اسرائیلی کمپنیوں کی سرمایہ کاری اور زمین کی خریداری اگلے فیز میں متوقع ہے۔بچے کچھے کشمیریوں کو عین اسی طرح پاکستان اور بھارت کی سرحد پہ دھکیل دیا جائے گا جیسا میانمار میں مسلمان مہاجرین بنگلہ دیش کی سرحد پہ اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کرتے در بدرپھر رہے ہیں اور جس طرح آسام میں چالیس لاکھ کے قریب مسلمان بھارتی شہریت کی فہرست سے خارج ہوچکے ہیں اور ان کے خلاف گرفتاریوں اور جھوٹے مقدمات کا ایک سلسلہ جاری ہے۔یہ مسلمانوں کی نسل کشی کا ایک ایسا عالمی منصوبہ ہے جس میں ایک سرے پہ اسرائیل ہے اور دوسرے سرے پہ بھارت۔ کشمیر پہ بھارت کا حالیہ قبضہ اسی منصوبے کی کڑی ہے جس پہ عمل درامد کے لئے بھارت کو دنیا بھر میں اپنی بدنامی کی کوئی پروا نہیں ، بھارتی میڈیا اور اپوزیشن کو تو خیر وہ خاطر میں لانے والا نہیں۔ اسرائیلی حکومت آنے والے بھارتی اقدامات سے آگاہ تھی اور اس نے اپنے شہریوں کو وادی سے واپس بلانا شروع کردیا تھا۔ ہنود و یہود کا یہ گٹھ جوڑ کوئی انوکھی بات ہے نہ کوئی سازشی نظریہ۔یہ امر واقع ہے اور خود اسرائیل اس کی تصدیق کررہا ہے کہ بھارت نے اپنے اس اقدام سے متعلق اسے پوری طرح اعتماد میں لے رکھا تھا۔ اس سے قبل برطانوی تجزیہ نگار اور میرے ممدوح رابرٹ فسک 25 فروری کو بھارت کی جانب سے کئے گئے ایڈونچر میں اسرائیل کے تعاون کا انکشاف کرچکے تھے۔ان کا خیال تھا کہ بھارت نے بالا کوٹ میں جیش محمد کے مبینہ ٹھکانوں پہ اسرائیلی ساختہ رافیل 2000 اسمارٹ بم استعمال کئے تھے لیکن وہ اتنے اسمارٹ تھے کہ ان سے صرف چٹانیں اور چند درخت ہی سوختہ ہوسکے۔اسی اسرائیل نے میانمار کو اپنے ٹینک اور فائٹر بوٹس فروخت کئے جو مسلم نسل کشی میں استعمال ہوئے حالانکہ دنیا بھر نے میانمار کو اسلحے کی فروخت پہ پابندی لگا رکھی تھی۔ اس کے باوجود دونوں ممالک نے اس خرید وفروخت کا اعتراف کیا۔بھارت گزشتہ دو سال سے اسرائیل کے جاسوسی عسکری آلات اور اسلحے کا بڑا خریدار ہے۔اس سلسلے میں اس نے بھارت سے 530 ملین پونڈ کا ائیر ڈیفینس سسٹم اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل خریدے ہیں جو اسرائیل غزہ میں ٹیسٹ کرچکا تھا۔ ا ب غالبا بھارت یہ کشمیر میں ٹیسٹ کرے گا۔اسرائیل کے عسکری فضائی اڈوں میں اس وقت بھارتی فوجی زیر تربیت ہیں۔اسرائیل نے صحرائوں میں کارروائی کرنے والے اپنے اسپیشل کمانڈوز بھارت میں مشترکہ تربیت کے لئے بھیجے تھے جنہوں نے غزہ میں اپنے تجربات سے بھارت کو مستفید کیا۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان تجارتی اور عسکری تعاون جس کی بنیاد مسلم کشی ہے، قابل رشک ہے۔اس پہ تو خیر امت مرحوم ہنود و یہود کا روایتی گٹھ جوڑ سمجھ کر صبر کرسکتی ہے لیکن اس کا تیر کھا کر کمین گاہ کی طرف دیکھنے کا حوصلہ قابل داد ہے ۔ امت مسلمہ کو علم نہیں کہ عربوں نے تو فلسطین کو بے یارو مددگار چھوڑ رکھا ہے انہیں کشمیر میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ ایک طرف فلسطین پہ ڈیل آف دی سنچری کا شور و غوغا ہے جس کے متعلق صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ اس کی تفصیلات اسرائیل میں آئندہ انتخابات سے قبل جاری ہوسکتی ہیں۔صدی کی سب سے بڑی ڈیل کے متعلق یہ بہرحال طے ہے کہ یہ فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ ہے۔اسی طرح کشمیر کی تقسیم بھی عملی طور پہ ہوچکی ہے اور عرب امارات نے مودی کو سب سے بڑے اعزازسے نواز دیا ہے اور یہ عین اس وقت ہوا ہے جب دنیا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف وزری پہ نوحہ کناں ہے۔ عمران خان سچ کہتے ہیں۔ دنیااپنی تجارت دیکھے گی یا ہمارا کشمیر؟اس ایک فقرے میں دنیا کی نفسیات سموئی ہوئی ہے۔ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ مسئلہ کشمیر جو ماضی میں ہماری حکومتو ں کی نااہلی کے سبب آنکھوں سے اوجھل ہوگیا تھا ، ان کی حکومت نے اسے عالمی اسٹیج پہ لاکر کھڑا کردیا ہے۔آج مغربی میڈیا چیخ چیخ کر دنیا کو بھارت کے ظلم و ستم سے آگاہ کررہا ہے۔ جینوسائڈ واچ اور ہیومن رائٹس واچ نے الرٹ جاری کردیا ہے۔ دنیا پاکستان کے اصولی موقف کی اخلاقی حمایت ضرور کررہی ہے لیکن عملی طور پہ دنیا بھارت کے ساتھ کھڑی تجارت بھی کررہی ہے اور اسے اسلحہ بھی فروخت کررہی ہے۔ یہاں عمران خان کی سفارت کاری کام آئے گی نہ کشمیری مسلمانوں کی مظلومیت۔ ہمیں اپنی جنگ خود لڑنی ہے یہ طے ہوچکا ہے۔عمران خا ن کی کامیاب سفارت کاری نے دو اہم کام کئے ہیں۔ ایک دنیا کو عالمی اور جوہری جنگ کے خطرے سے خبردار کیا۔ دوسرے بھارت کی طرف سے کسی بھی فالس فلیگ سے بروقت آگاہ کیا جس کے باعث ابھی تک وہ ایسی کوئی کاروائی نہیں کرسکا جس کا الزام پاکستان پہ لگا کر دنیا کی ہمدردیاں سمیٹ سکے اور پاکستان کو فیٹف میں کمزور پوزیشن پہ لا سکے۔عمران خان کے حصے میں جو مشکل پاکستان آیا ہے اس میں فی الوقت یہی دو کامیابیاں اہم ہیں۔جتنا میں عمران خا ن سے واقف ہوں وہ کشمیر پہ فیصلہ کن اقدام اس وقت اٹھائیں گے جب وہ پاکستان کے لئے موجودہ نفسیاتی جنگ جیت چکے ہونگے۔