اچھی خبر آئی ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں نے کورونا کے خطرے کا احساس کرتے ہوئے چند اقدامات کئے ہیں۔عالمی بنک ہو یا عالمی مالیاتی فنڈز ان کے بارے میں تاثر یہی ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے پشتی بان ہے۔ یہ جو دنیا کو ریوڑیاں بانٹتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھتے ہوئے ایسا کرتے ہیں کہ اس سے فائدہ اس نظام کو پہنچے ‘گرنہ یہ غریب ملکوں اور ان کے عوام کا خون چوسنے سے قطعاً گریز نہیں کرتے۔ ان کا جاگنا اس بات کا اعلان ہے کہ عالمی نظام زر خطرے میں ہے۔ میں بار بار لکھ رہا ہوں کہ برٹن و وڈ میں جس نظام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ دنیا آج تک اس کی بنیادوں پر چل رہی ہے۔ جب کبھی اس سے انحراف کیا جاتا ہے تو اس کا مقصد اس نظام کو بچانا ہوتا ہے نہ کہ اسے ختم کرنا۔ میرا سوال ہمیشہ یہی رہا ہے کہ آیا بعض لوگوں کے اندازے درست ہیں کہ یہ نظام زر اس وبا کے نتیجے میں دم توڑ رہا ہے یا پھر یہ نظام اپنے اندر ایسی تبدیلیاں کرے گا کہ اس کا ڈھانچہ محفوظ رہے۔ میرا کہنا یہ تھا کہ یہودی کا بنایا ہوا یہ نظام خود کو بچانے کی پوری کوشش کرے گا۔ یہ بری بات نہیں ہو گی اس لئے کہ اگر یہ نظام اس وقت دم توڑ دے تو شاید دنیا کو سنبھلنا مشکل ہو جائے۔ اپنی تمام کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود اس وقت اس نظام کا دنیا کو قدرے سہارا ہے اور یہی اس کی طاقت ہے کہ اس نے خود کو ناگزیر بنا لیا ہے۔چنانچہ اس نظام کو بچانے کے لئے اس کی اندرونی توانائی حرکت میں آ گئی ہے۔ ورلڈ بنک نے قرضے اس لئے نہیں دیے یا آئی ایم ایف نے عالمی قرضوں کی ری سٹرکچرنگ اس لئے نہیں کی کہ اسے ہم غریبوں سے محبت ہے‘ بلکہ اس کی وجہ سیدھے سادھے لفظوںمیں یہ ہے کہ اس نظام کی موت سرمایہ داری کی موت ہے اور اس وقت اس نظام زر کا لاشہ ایسا کورونا زدہ ہے کہ ہم اسے دفنا بھی نہیں پائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اعلان ہوتے ہی اس کے مقامی کارندوں کو ہمارے ہاں بھی ہوش آیا۔ ہمارے گورنر سٹیٹ بنک نے کمال فراخ دلی سے شرح سود میں کمی کر دی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ تیسری بار شرح سود میں کمی کر کے ہم نے گویا اپنی تاریخ کی سب سے بڑی کمی کی ہے۔ درست ہے یہ بات ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آخر ہم نے شرح سود کو بھی تاریخ کی آخری بلندیوں تک پہنچا دیا تھا۔ اب ہمارے معیشت دان اس کمی کی شان میں رطب اللسان ہیں۔وہ درت ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ آیا ہمارے ہاں یہ گنجائش اور اہلیت موجود ہے کہ ہم اس کمی کا فائدہ اپنی معیشت کو پہنچا سکیں۔ اس کے لئے ایک بہت اچھی قیادت کی ضرورت ہے۔ میں یہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ دنیا کو ایک ’’جنگی قیادت‘‘ کی ضرورت ہے۔ میرا مطلب جنگجو قیادت نہیں بلکہ وار ٹائم قیادت ہے۔ ہمارے لئے مشکل یہ ہے کہ دوسری طرف اس نظام زر نے ساری لڑائی صحت کے میدان میں لڑنے کے بجائے ابھرتی ہوئی معاشی قیادتوں کے خلاف شروع کر رکھی ہے۔ صدر ٹرمپ کورونا کے خلاف مناسب قیادت فراہم نہ کر پائے تو اب وہ اور ان کے حواری سارا الزام چین پر ڈال رہے ہیں۔ ٹرمپ نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی امداد بند کر دی ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ وہ چین میں بیماری کو چھپاتے رہے ہیں۔ اس آرگنائزیشن کا قصور یہ ہے کہ اس نے کورونا کے خلاف چین کی حکمت عملی اور طریق کار کو سراہا۔ ٹرمپ اور اس کا حواری میڈیا اس پر اسے لعن طعن کرتا رہا۔ اس کا سارا زور اس پر تھا کہ اس وائرس کو چائنا وائرس کا نام دے کر چین کو بدنام کریں۔ انہوں نے معاملے کو آسان سمجھا اور شاید اس زعم میں رہے کہ امریکہ دنیا کی نمبر ایک سپر پاور ہے‘ یہ بیماری اس کی سرحدوں میں نہیں آ سکتی۔ امریکہ اپنی سرحدوں کو محفوظ سمجھتا ہے۔ صرف اس لئے نہیں کہ اسے سمندر نے محفوظ کر رکھا ہے۔ باقی دنیا سے دور رکھا ہوا ہے بلکہ اس لئے بھی کہ اس کے دونوں طرف بھی گویا امریکہ ہی ہے۔ کینیڈا سے اسے کوئی خطرہ نہیںہے اور جنوبی امریکہ کو وہ اپنا پائیں باغ سمجھتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نائن الیون کے بعد آپے سے باہر ہو گیا تھا کہ کوئی اس کی حدوں کے اندر بھی آ سکتا ہے۔ ایسا ہی احساس‘ ایسے لگتا ہے کہ اسے کورونا کے بارے میں تھا کہ کسی کی مجال کہ وہ امریکہ کی حدود میں دخل اندازی کر سکے‘ انجام دیکھ لیا۔ اب وہ دوسروں کو الزام دے رہا ہے۔ یورپ سے بھی نالاں ہے۔ مگر چین سے اس کی ناراضی تو گویا نظریاتی بھی ہے۔24برس پہلے امریکہ میں جو نیوکون پیدا ہوئے تھے۔ ان کے مقاصد میں سے ایک یہ تھا کہ چین کی ترقی کو کم از کم 25سال تک روکنا ہے۔ وہ اسے امریکہ کے لئے خطرہ سمجھتا رہا ہے۔ اب یہ خطرہ سروں پر آ گیا ہے۔ چینی قیادت کے بڑے تحمل اور تدبر سے اکیسویں صدی کی اس خطرناک ترین وبا کا بڑی استقامت سے مقابلہ کیا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اس سے آگاہ کرتی رہی‘ یہ بھی بتاتی رہی کہ یہ عالمی وبا بن سکتی ہے جیسے 100سال پہلے فلو نے کروڑوں زندگیاں لے لی تھیں۔ اس طرح اس بار یہ وبا خطرناک ہے۔ ٹرمپ نے مان کر نہ دیا۔ جیسے ہمارے ہاں وفاق اور صوبوں کی لڑائی ہے۔ ویسے ٹرمپ نے اور نیو یارک کے میئر بھی اپنے اپنے انداز میں چلتے رہے حتیٰ کہ وبا نے سر سے آن پکڑا۔ ٹرمپ اس تلاش میں ہیں کہ الزام کسے دیں۔ یورپ پر تو بس نہ چلا‘ ڈبلیو ایچ او کی امداد بند کر دی۔ یہ ادارہ 1948ء میں اس لئے قائم ہوا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کو کم از کم بنیادی صحت میں مدد دی جائے۔ ملیریا ‘ پولیو ‘ ٹی بی جانے کتنی بیماریوں کے خلاف اس ادارے نے جنگ لڑی ہے۔ ظاہر ہے یہ رکن ممالک کی مدد سے چلتا ہے۔ امریکہ کا حصہ اس میں 15فیصد قرار پایا تھا۔ اس وقت وہ اس کے بجٹ کا 20فیصد دے رہا تھا۔500ملین ڈالر ۔ ٹرمپ نے یہ امداد بند کر دی ہے۔ عجیب بات ہے کہ امریکہ کے انتہا پسند اس کی حمایت کر رہے ہیں اور وہاں کے معقول لوگ سمجھا رہے ہیں کہ تم یہ کیا کر رہے ہو۔ کسی نے کیا خوب تبصرہ کیا کہ یہ امداد تو امریکہ کے ایک اچھے ہسپتال کے بجٹ سے بھی کم ہے۔ اب یہ کون سمجھائے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ کہیں چین ایک نئے نظام زر کے ساتھ اس نظام کو تہہ و بالا نہ کر دے۔ آنے والے دنوں میں قیادت چین کے پاس نہ چلی جائے۔ ٹرمپ مارکہ امریکی‘ چین سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ جب پاکستان میں نئی حکومت آئی تو اسے سی پیک سے دور کرنے کے لئے امریکہ نے مطالبہ کیا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو امداد نہ دے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ پاکستان اسے چین کا قرضہ ادا کرنے میں خرچ کرے گا۔ پاکستان چیختا رہا کہ بھئی چین کا تو کوئی قرضہ ہم نے 21ء تک ادا ہی نہیں کرنا مگر وہ 19ء میں بھی ہمیں قرضہ دینے سے انکاری ہے۔ ہزار منت سماجت اور شرائط کے بعد وہ بہت مشکل سے تیار ہوئے۔ جانے ہم سے کیا کیا منوایا۔ چلئے اس وبا کا اتنا اثر تو ہوا ہے کہ آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بنک اور G 20کے ممالک نے اپنی شرائط نرم کر دی ہیں۔ بس یوں سمجھئے وہ کڑی ہیں جو آج سے دو سال پہلے ہوتیں۔ پھر نہ ڈالر کی قیمت یہ ہوتی۔ نہ شرح سود اس حد تک جاتی اور نہ ہماری شرح نمو پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ اس سے کم از کم یہ تو ہوتا کہ کورونا کی وجہ سے یا ہماری بیوقوفیوں کی وجہ سے ہماری 72سالہ تاریخ میں پہلی بار ہماری معیشت اس بار سکڑ جائے گی۔ غالباً 1.5فیصد خسارے میں جائے گی یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ جس کا ہم صحیح معنوں میں پہلی بار نشانہ بنے ہیں‘ مگر ماضی کی کساد بازاری نے ہم پر زیادہ اثر نہ ڈالا تھا کہ ہم اس نظام کا اس طرح حصہ نہ تھے جیسے اب بن چکے ہیں۔