بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔5ستمبر2020ء ہفتے کو بھارت نے مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا جسے مسترد کر دیا گیا۔ یہ پہلی دفعہ عالمی سطح پر بھارت کو منہ کی نہیں کھانی پڑی بلکہ اس سے قبل متعدد مرتبہ بھارت کو عالمی سطح پر شرمندگی سے دوچار ہونا پڑا ہے۔درحقیقت عالمی برادری کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ بھارت عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ ہٹانے کے لئے وہ ایسے حربے استعمال کرتا ہے۔ سب سے پہلے 6جنوری 1948 ء کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر کے بارے خصوصی اجلاس ہوا۔ اس کے بعد سے سلامتی کونسل نے اس ایجنڈا آئٹم کے تحت جموں و کشمیر کے بارے میں 16قرار دادیں منظور کی ہیں لیکن بھارت آج تک اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹا ہوا ہے،جو سلامتی کونسل کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے حالانکہ اسی فورم سے کئی ممالک کے مسائل حل ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور جیسے ملکوں کے دو حصے کئے گئے لیکن سلامتی کونسل دیرینہ مسئلے پر صرف مذمتی قرار دادوں پر ہی اتفاق کرتی رہی ہے۔ کشمیری عوام ،پاکستان اورچین مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل کے حامی ہیں۔کشمیری عوام اورمملکت پاکستان روزاول سے ہی مسئلہ کشمیر پراقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل درآمدکامطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن اب چین بھی بڑے شدومد سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمدکامطالبہ کررہاہے اور تنازع مقبوضہ جموں وکشمیر پر چین کی پوزیشن واضح ہے۔حالیہ ایام میں کئی بارچینی حکومت کے ترجمان کہہ چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ہمیشہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر رہاہے۔ سلامتی کونسل کے ازسر نو جائزے سے کشیدگی میں کمی اورمسئلے کے حل پر پیشرفت ممکن ہے۔چین خطے میں امن کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرتارہیگا۔اب روس نے بھی سلامتی کونسل کے رکن کے طور پر کشمیریوں کی حمایت کی ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں۔ دوقومی نظریئے کے تحت 14-15اگست 1947 ء برطانیہ سے آزادی کے بعد دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں، ریاستوں اور راجواڑوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں ۔کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر اس کے ہندومہا راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔البتہ26 اکتوبر 1947ء کوڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی ایک فراڈدستاویز پر دستخط کر دیئے۔اس کے معاََبعد27اکتوبر 1947ء بھارت نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں۔ جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے مابین پہلی جنگ چھڑ گئی ۔یکم جنوری 1948ء بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام ِ متحدہ سے مدد مانگ لی ۔5فروری 1948 ء اقوام متحدہ نے ایک قرار داد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ وہاں رائے شماری کرائی جا سکے ۔ تاہم یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے کشمیر میں رائے شماری ہو گی ۔ یکم جنوری 1949ء اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا ۔26جنوری 1950ء بھارتی آئین میں آرٹیکل 370کا اضافہ جس میں ریاست جموں و کشمیر کو دفاع ، خارجہ اور مواصلات کے علاوہ خود مختار حیثیت دی گئی ۔اکتوبر 1950ء شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کیا تاکہ ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرے ۔30مارچ 1951ء اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے کشمیر میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے ساتھ ہی ایک نمائندہ مقرر کرنے اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا اعلان کیا مگر اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا ۔14جنوری 1957ء اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بار پھر 1951ء کی قرارداد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اسمبلی کسی طور بھی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کا اختیار نہیں رکھتی اور نہ ہی یہ رائے شماری کا متبادل ہے۔ 17-20 اگست 1953ء بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان دہلی میں ملاقات ہوئی جس میں اپریل 1954ء کے آخر تک وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر متفق ہو گئے ۔تاہم جیسے ہی پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک تعلقات گہرے ہوئے تو بھارت نے اس مسئلے کو بھی سرد جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے رائے شماری سے انکار کر دیا۔اسے دیکھتے ہوئے۔ 9اگست 1955ء کوکشمیرمیںرائے شماری محاذ قائم کیا گیا اورکشمیرمیں’’رائے شماری جلد کرائو‘‘ کا نعرہ بلند ہوا ،اور اقوام ِ متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کیا۔ مارچ 1965 ء بھارتی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت کشمیر کو بھارت کو صوبہ قرار دیتے ہوئے بھارت کو وہاں گورنر تعینات کرنے، کشمیر میں حکومت کو برطرف کرنے اور اسے آئین سازی سے روکنے کے اختیار حاصل ہو گئے ۔23اگست تا سمبر 1965ء پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسری جنگ چھڑ گئی جس نے 1949 ء کے فائر بندی معاہدے کو ختم کر دیا۔10 جنوری 1966ء بھارت اور پاکستان کے مابین تاشقند معاہدے پر دستخط ہو گئے جس کے تحت دونوں ممالک اپنی اپنی افواج کو جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں پر لانے میں متفق ہو گئے ۔3-16 دسمبر 1971ء پاکستان اوربھارت میں جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا ۔فروری 1972ء محاذ برائے رائے شماری پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات نہیں لڑ سکتا۔جبکہ2 جولائی 1972ء پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ ہو ا جس میں اقوام ِ متحدہ کی فائر بندی لائن کو لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا مزید یہ کہ اس معاہدے کی رو سے فریقین اس مسئلے کو دو طرفہ مذاکرات سے حل کریں گے ۔