ووٹوں کی خرید وفروخت کا دھندا ، سینٹ کا ممبر بننے کے لیے صوبائی اسمبلی کے ووٹوں کی خرید وفروخت تک محدود نہیں، یہ مکروہ کاروبار نچلی ترین سطح سے شروع ہوکر سب سے بلند چوٹی تک جا پہنچتا ہے، گو یہ دھندا ہمیشہ سے نہیں تھا اور ہمیشہ نہیں رہے گا۔ 1988ء سے پہلے ممبران کا پارٹی بدل لینا یا حریف پارٹی کے لیے ووٹ دینا عموماً ذاتی تعلقات ، اثر ورسوخ ، یا رنج وغصہ کے باعث بعض اوقات حکومتی عہدہ کے لیے ہوتا رہا ، لیکن 1988ء میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان مقابلہ میں روپے پیسے کا لین دین شروع ہوا، جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا اور آج نوبت ایک ووٹ کے لیے 50کروڑ تک آپہنچی ہے، ویسے ایوب خان کے زمانے میں عائلی قوانین کی منظوری کے لیے ’’صوبہ سرحد‘‘ کے ایک مولوی صاحب نے 26ہزار میں ووٹ کا سودا کیا، یہ رقم چوہدری ظہور الٰہی نے ادا کی، وہ بھی سعودی عرب کے مقدس مقام پر۔ فیصل آباد کے چیمہ صاحب کا ووٹ ہائی کورٹ کا جج بنانے کے عوض خریدا گیا، عہدۂ صدارت کے لیے ممبران پارلیمنٹ کی خریداری صرف بے نظیر حکومت کا کارنامہ تھا جو جناب زرداری کی وساطت سے انجام پایا، پنجاب میں سینٹ کے ووٹوں کی خرید وفروخت نوٹوں کے بدلے نہیں ہوئی لیکن منظور وٹو کو ہٹانے اور پیپلز پارٹی کو پھر سے عہدہ حاصل کرنے سے روکنے کے لیے وسیع پیمانے پر خرید وفروخت اور عہدوں کی بندر بانٹ سے کام لیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور نواز شریف دونوں نہ صرف اس دھندے میں ملوث ہوئے بلکہ پارٹی کو دھوکہ دینے والے ممبران اسمبلی کے خلاف تادیبی کارروائی کی جرأت بھی نہیں کرسکے۔ اگست 2019ء میں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد کے ہنگام ،پل بھر میں درجن کے قریب ممبران ’’فلور کراس‘‘ کرگئے مگر تمام دعوؤں اور وعدوں کے باوجود کوئی سیاسی جماعت اپنے ممبران کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کرسکی۔ ہماری سیاسی تاریخ میں عمران خان واحد لیڈر ہے جس نے خیبر پختونخواہ میں معمولی اکثریت کے باوجود اپنی صوبائی حکومت کو خطرے میں ڈال کر 20ممبران اسمبلی کو بیک جنبش قلم تحریک انصاف سے خارج کردیا۔ ایسی جرأت رندانہ کسی سیاسی جماعت میں نہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ ’’راندۂ درگاہ‘‘ ممبران میں سے زیادہ تر دربدر ہوگئے اور ان کا سیاسی مستقبل تاریک بنادیا گیا۔ اپنے صوبائی ممبران کے خلاف عمران خان کی کارروائی عبرت کی مثال ہے، جن لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وزارت عظمیٰ اور صوبائی حکومتوں کی موجودگی میں ووٹ خرید سکیں گے وہ احمقوں کی جنت کے مکین ہی ہوسکتے ہیں۔ لمبی لمبی چھوڑنے والے کاغذی دانشور اور درشنی تجزیہ کار احمق سیاست دانوں کی امیدوں کو بڑھادیتے ہیں اور وہ ان کے بھرے میں آکر ایسی دعوے کرنے لگتے ہیں جن کا حقائق اور سچائی سے کچھ تعلق ہے نہ واسطہ۔ مجیب الرحمن شامی صاحب کے بیٹے علی کی شادی میں اخبار نویس ،سیاست دان اور ٹی وی میزبانوں کی بڑی تعداد موجود تھی، اسمبلیاں تحلیل ہوچکی تھیں، انتخابات قریب تھے، خالد بھائی کے ساتھ میز پر حبیب اکرم صاحب بھی موجود تھے، انتخابات اور ممکنہ نتائج کے بارے میں بات شروع ہوگئی، حبیب اکرم نے کہا عمرا ن خان پچھلے انتخاب میں تقریباً تین درجن سیٹیں لے گیا تھا لیکن وہ اب ’’ڈبل ڈیجٹ‘‘ میں نہیں جاسکے گا، خالد بھائی نے کہا ’’ڈبل ڈیجٹ‘‘ سے آپ کی مراد دس سے کم سیٹیں؟ بولے ہاں، بالکل میری مراد یہی ہے، عرض کیا ، حضور! عمران خان موجودہ حالات میں 120سے 150تک قومی اسمبلی میں نشستیں حاصل کرلے گا۔ آئیے! قومی اسمبلی حلقہ نمبر 1سے شروع کریں تو آپ کو حقیقت پتہ چل جائے گی، اس کے بعد ان میں تابِ سخن نہ تھی، اٹھتے ہوئے بولے ، میں ذرا کچھ دوستوں سے مل کر آتا ہوں۔ وہ دن اور آج کا پھر ملاقات کا شرف نہ ہوا، بعد میں وہ اپنے اخبار کی طرف سے ہر حلقے کے سفر پر روانہ ہوئے تاکہ براہ راست معلومات حاصل کریں، براہِ راست عوام کی رائے جاننے کے بعد ان کا تجزیہ وہی تھا جو ان سے عرض کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ گزشتہ روز ٹی وی پر سینٹ الیکشن کے بارے اُنہیں کچھ اسی طرح دور کی کوڑی لاتے سنا کہ سینٹ الیکشن میں حکومت ایک سیٹ بھی ہار گئی تو وزیراعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کو کوئی روک ہی نہیں سکتا۔ان تجزیات کے بعد خصوصاً لائی لگ قسم کے کند ذہن سیاست دان خیالی پلاؤ میں ’’چوکھا گھی‘‘ ڈالتے ہیں، اس طرح کے مشوروں نے کتنے سیاست دانوں کو دربدر کردیا، ایسا لیڈر جس کے پاس مرکز اور صوبے کی حکومت کے ساتھ مستقبل کی سیاست میں بنیادی کردار بھی ہو ، کیا یہ ممکن ہے کہ اس کے خلاف کوئی جانے کی کوشش کرے گا۔ حکومت کی نفرت سے زیادہ مربیوں کی محبت میں چند ماہ پہلے چیئرمین سینٹ کے خلاف عدمِ اعتماد کی ناکامی نے بھی انہیں تجزیہ کرنے میں راہ نہ سجھائی، وزیراعلیٰ کے ہمسایہ ممبر صوبائی اسمبلی اس لیے ناراض ہوئے کہ بزدار صاحب نے اپنے حلقہ انتخاب میں اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈ مختص کیے اور انہیں ’’جھونگے‘‘ ٹرخادیا۔ ان کا کہنا بس اتنا تھا کہ : پھینکے کے ہے گل اور کی طرف بلکہ ثمر بھی اے خانہ ٔ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی مظفر گڑھ کے ممبر اسمبلی کی پکار بروقت تھی، اسی صدا بصحرا نہ ہوئی وزیراعظم نے انہیں طلب کیا تو شادو بامراد لوٹے۔ ممبراسمبلی کا کہنا تھا کہ ’’وہ آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے تھے اگر ان کی شنوائی نہ ہوئی تو وہ سینٹ الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالیں گے، وہ پارٹی چھوڑ کر نہیں گئے نہ مخالف ہوئے، محض اتنی سی بات میں ان کے سلوک دھانوں پانی برستے برستے رہ گیا مگر انہیں نصف درجن اپوزیشن کے ممبر نظر نہ آئے جو علی الاعلان وزیر اعلیٰ بزدار پر اپنے اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں۔ 1985ء سے آج تک آدھے سے زیادہ وقت سینٹ میں حکومت مخالف ممبران کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی ہے، اس کے باوجود اکا دکا قانون سازی کو مؤخر کروانے کے علاوہ ایوانِ بالا، کوئی کردار ادا نہیں کرسکا۔ سینٹ الیکشن میں ہر کوئی اپنے جثے کے مطابق ہی حصہ وصول کرسکے گا، حکومت وقت کے حق میں چند ووٹ زیادہ آسکتے ہیں لیکن اس سے کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوگی، چچا غلام قادر (مرحوم) کہا کرتے تھے’’ جب تک لالچی موجود ہیں، جھوٹے کبھی بھوکے نہیں مرسکتے‘‘ خواہ یہ دانشور ہی کیوں نہ ہوں۔