ہمارے ہاں ماضی سے وابستہ یا ناسٹلجک لوگوں کے لیے ’ماضی گزیدہ‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، جو کچھ مناسب نہیں لگتی ، اصل میں یہ تو ماضی چشیدہ لوگ ہوتے ہیں، جنھوں نے ایک تہذیب کو اپنے دلوں، دماغوں، حافظوں بلکہ پلکوں پہ بٹھا رکھا ہوتا ہے اور یہ ماضی تو بقول ڈاکٹر خورشید رضوی ہماری زندگی میں سیمنٹ کا کام کرتا ہے۔ آج ہماری ناکامی اور نئی نسل سے ہماری جُڑت میں اسی سیمنٹ کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تقریباً ہر گھر میں دو بالکل مختلف بلکہ بعض جگہوں پہ متضاد نسلیں ایک ہی وقت میں پروان چڑھ رہی ہیں، جن کے درمیان گونگوں یعنی اشاروں والا رابطہ رہ گیا ہے۔ ہماری بد قسمتی دیکھئیے کہ پوری دنیا اپنی ہزاروں سال پرانی تہذیب کو چٹانوں، کھنڈروں اور ٹیلوں میں تلاش کر کے محفوظ کر رہی ہے اور ہم اپنے ہاتھوں سے تیزی کے ساتھ پھسلتی رہتل کے لیے اتنے بھی متفکر نہیں جتنا ایک بچہ اپنا غبارہ پھٹنے پہ ہوتا ہے۔ وہ تہذیب جس میں ایک دانائی، ایک سیانف، ایک سلیقہ، ایک تسکین کوٹ کوٹ کے بھری ہوتی ہے، وہ کچھ پرانے ادیبوں یا ان کی تخلیقات میں دکھائی دیتی ہے تو ہم جیسے لوگ تو جی اٹھتے ہیں۔ یہ کتابیں تو زندگی کی آکسیجن ہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے بلکہ ان لوگوں پر ترس آتا ہے جو ساری عمر دولت کمانے میں لگے رہتے ہیں، معدے کی بھرائی کا سامان روز بلکہ ایک دن میں کئی کئی بار کرتے ہیں لیکن پورے مہینے میں ایک کتاب کے لیے بھی وقت یا بجٹ مختص نہیں کرتے۔ ہمیں تو آج تک عبادت، مطالعے اور ماضی کے علاوہ روح کی تسکین کا کوئی ذریعہ دھیان نہیں پڑا۔ ناصر کاظمی، انتظار حسین اور مشتاق احمد یوسفی اسی لیے تو ہماری لائبریری نہیں دل کے ریک میں سجے رہتے ہیں۔ روح کی اس تسکین کی تازہ ترین خوراک پیارے دوست اور اکیسویں صدی میں کتاب کو توقیر بخش کر ہمارے دل کے مزید قریب ہو جانے والے ریڈنگز کے ڈاکٹر انوار ناصر کی محبت کی صورت موصول ہونے والی جناب اسد محمد خاں کی ’’یادیں: گزری صدی کے دوست‘‘ ہے۔ اسد محمد خاں جو ۱۹۳۲ء میں بھوپال میں پیدا ہوئے اور ۱۹۵۰ء میں پاکستان چلے آئے۔ ۱۹۵۸ء میں نظمیں اور ۱۹۷۰ء میں کہانیاں لکھنے کا آغاز ہوا، دونوں کی اشاعت کا سلسلہ ’فنون‘ لاہور سے شروع ہوا۔ کتاب کیا ہے، ماضی اور محبت کا نگار خانہ ہے، جسے انھوں نے علی گڑھ اور دنیا بھر کے کہانیاں پڑھنے والوں کے نام معنون کیا ہے۔ کتاب اٹھارہ نثری اور سات نظمی تحریروں پر مشتمل ہے۔ سچ کہا گیا ہے کہ اس مجموعے میں کیا نہیں ہے؟ کہانیاں، یادداشتیں، نظمیں، خاکے…’ صحیح معنوں میں اسد کی ہمہ گیری چھلکی پڑتی ہے۔‘ یہ منفرد یادیں سلیم احمد، ساقی فاروقی، اطہر نفیس، ثروت حسین، جمال پانی پتی، ذیشان ساحل، رئیس فروغ اور سید محسن علی جیسے یگانہ دوستوں کی محبت سے لبالب ہیں۔ سلیم احمد، جن کے شب و روز منافقت، خوف اور حزن سے پاک تھے، جو کراچی کے پرانے لکھنے والوں کے لیے ایک سہارا تھے، بلکہ کامیابی کا استعارہ تھے ، بقول اسد محمد خاں دارالاستخارہ تھے جہاں سے روشنی، مشورے اور پیش گوئیاں طلب کی جاتی تھیں۔ کچھ بھی کہنے اور لکھنے کے بعد انھیں سنا کر یا پڑھوا کر اُن کے چہرے کی طرف دیکھا جاتا تھا۔ ذرا اس مختصر سے اقتباس سے مصنف کے اسلوب کا چمتکار ملاحظہ ہو: ’ ’سلیم احمد نے ایک عجب چکر چلا رکھا تھا، انھوں نے بہت ذہین و فطین اور خطرناک آدمیوں کو Talent Hunting کے لیے شہر میں چھوڑ رکھا تھا، جو باہر کے اندھیرے پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ اور جیسے ہی کوئی جگنو اپنی دُم چمکاتاہوا نظر آتا تھا، یہ پکڑ کر اُسے اپنی ٹوپی میں چھپا لیتے تھے اور گُرو کے حوالے کر دیتے۔‘‘ پھر نوجوان اسد محمد خاں کو دیا گیا سلیم احمد کا وہ اچھوتا مشورہ تو سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے، میرے خیال میں جسے ہر نئے پرانے لکھاری کو حرزِ جاں بنا لینا چاہیے، فرماتے ہیں: ’’اپنے قامت سے نا انصافی کیے بغیر، اے برادر! انکسار اور فروتنی اختیار کر اور فلاں ابنِ فلاں کی طرح لاف زنی کو وتیرہ نہ بنا، اور پڑھ اور پڑھ اور پڑھ… اے برادر! اپنے ادبی ضمیر کے سوا کسی کو رہنما نہ بنا۔ علاقے کا ایس ایچ او خفا ہوتا ہے، خفا ہونے دے۔ بال بچے ناراض ہوتے ہیں پروا مت کر ، کس لیے کہ لکھنے والے کا ایک الگ یومِ حساب ہوتا ہے، جہاں عجب نفا نفسی کا عالم ہے اور کوئی سفارش کام نہیں آتی، بس تیرے اعمال کام آتے ہیں۔‘‘ ’’خواجہ سگ پرست‘‘ شمشاد نبی ولد التفات نبی ولد خیرات نبی یعنی ساقی فاروقی کا تڑپتا پھڑکتا دل پذیر خاکہ ہے، جس سے ساقی کی سیماب صفت شخصیت کے سارے رنگ منعکس ہو رہے ہیں۔ساقی جو کراچی والے گھر میں ہوٹل کی طرح اور لندن والے گھر میں جڑیں وڑیں پھیلا کر رہتے تھے۔ ساقی کی امی اس کے دوستوں کے لیے ایک نوع کی فلاحی مملکت تھی لیکن ساقی کے میزبانی والے ضمیر کا کوئی بھروسا نہیں تھا۔ یہ اس کتاب کی سب سے زندہ و پایندہ و تابندہ تحریر ہے۔ ساقی کی لٹک مٹک شخصیت اور اسد محمد خاں کے دھیمے شریر اسلوب نے اسے چیزے دیگر بنا دیا ہے۔ نمونے کے طور پر ساقی کا دوستوں سے خطاب کا یہ نمونہ ملاحظہ ہو: ’’ بد نصیبو! مَیں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم آج تک اجہل الجاہلین حلال زادوں کی طرح ایک دوسرے کو اسد صاحب، محفوظ صاحب، ارشاد صاحب کہہ کرپکارتے ہو۔ ارے! پانچ پانچ چھے چھے برس کی دوستیاں ہیں اور اب تک ہیہات! اب تک یہ حرمزدگی چل رہی ہے؟ تُف ہے!‘‘ ’’پورٹریٹ‘‘ اطہر نفیس کا خوبصورت خاکہ ہے۔ اس میں اطہر نفیس کی بات بات پہ گریہ زاری پر مصنف کا تبصرہ دیکھیے: ’’خدایا!! اس راجپوت مٹی میں اس قدر نمی کہاں سے آ گئی؟ آنکھیں کیا ہیں راجپوتوں کی ہزار برس کی مے نوشی کا کچا چٹھا ہیں۔‘‘ پھر کہانی ’’کھلتی دھوپ اُجلتے سائے‘‘ میں ایک نوجوان شیر خوانی برہمن زادے کے بادشاہ کی انصاف پسندی پر پڑھے گئے خوبصورت قصیدے کو سُن کے شیر شاہ سُوری کا کہا گیا یہ جملہ تو ادبی تنقید کی لاٹھ ہے: ’’ صاحبو! یہ نوجوان اچھا شاعر بن سکتا ہے، اگر شاہوں سلطانوں سے دُور رہے۔‘‘ کتاب میں شامل نظمیں ساتوں کی ساتوں نظمیں محبت کے مرثیے ہیں، صرف ایک نمونہ دیکھیے: یہ بڑھتی ہوئی عمر کی عطا ہے کہ چیزیں اور لوگ/ سمجھ میں آنے لگتے ہیں/ زندگی کہیں کہیں سے واضح ہونے لگتی ہے / یہ بڑھتی ہوئی عمر کی سزا ہے /کہ دیکھتے ہی دیکھتے چیزیں بکھرنے لگتی ہیں / اور لوگ مرنے لگتے ہیں / زندگی پھر سے غیر واضح ہو جاتی ہے / مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ/ یا تو میرے لیے چیزیں اور لوگ اتنے/ من موہنے نہ بنائے ہوتے / یا مجھے تھوڑا سا خود کفیل بنایا ہوتا/ یا جب تک مَیں ہوں / میرے خزانے کو چھیڑا ہی نہ جاتا!