آئی ایم ایف کا پرو گرام پاکستان میں ایک بار پھر شروع ہونے جا رہا ہے۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف کی کچھ شرائط ہیں جو پاکستان کے سامنے رکھی گئی ہیں کیا اس پرو گرام کی بحالی کیلئے ان چیزوں کو مکمل کرنا پاکستان کے لئے لازم ہے۔ اس میں ایک عمل یہ ہے کہ ہر قسم کی ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جائے گا ،مراعات کو ختم کیا جائے گا۔ مختلف مواقع پر ایف بی آر کی جانب سے حکومت پاکستان کو مختلف شعبوں میں دی گئی ہیں۔یہ مراعات یک مشت ختم کی جا ئینگی۔ ان شعبوں میں آئی ٹی سیکٹر بھی شامل ہے۔ اس کی گروتھ میں اس سال 40 فیصد اضافے کا امکان ہے اور اس کی برآمدات اس سال جون تک 1.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2 ارب ڈالر ہونے کا امکان ہے ۔ستم یہ ہے کہ اسے مزید مراعات دینے کی بجائے پہلی سے دی گئی مراعات بھی واپس لی جا رہی ہیں اس لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ۔پاکستان میں سافٹ وئیر ہائوسز تاریخ کی ابتدائی سیڑھیوں پر ہیں۔ اس صورتحال میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت آئی ٹی ایکسپورٹرز کی نشوو نما کرتی۔ایف بی آر کو آئی ٹی انڈسٹریز سے ابھی دور رہنا چاہئے تھا۔ ابھی یہ شعبہ ترقی کی طرف جانے لگا ہے۔ خدشہ ہے کہ 2025ء تک ٹیکس چھوٹ کی پالیسی کے خاتمے سے آئی ٹی سیکٹر میں عدم اعتماد پیدا ہو گا ۔اس صنعت کو دی جانے والی یہ واحد رعایت تھی اس کے مقابلے میں بھارت،فلپائن اور بنگلہ دیش میں اسپیشل ٹیکنالوجی زون کے ذریعے نہ صرف ایکسپورٹ پر انکم ٹیکس میں چھوٹ دی جاتی ہے بلکہ انہیں ڈیوٹی فری امپورٹ صوبائی اور مقامی ٹیکسوں میں رعایت اور سستی زمین بھی ملتی ہے اس کے علاوہ بنگلہ دیش آئی ٹی ایکسپورٹرز کو 10فیصد کیش ایوارڈ بھی دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس چھوٹ کے خاتمے کے نتیجے میں آئی ٹی انڈسٹری کریڈٹ سسٹم کے تحت جائے گی۔ جس سے ایف بی آر کے ساتھ معاملات میں ہیومن انٹیریکشن کا عنصر شامل ہو جائے گا ۔اس وقت ایف بی آر کے معاملات کیلئے پاکستان سافٹ ویئر ہائوسز ایسوسی ایشن،پاکستان سافٹ ویئرایکسپورٹ بورڈ،اور اسٹیٹ بنک سے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہو تی ہے جبکہ ایف بی آر کے کمشنر کی ضرورت کے مطابق آئی ٹی ایکسپورٹر کیلئے سیلز ٹیکس کی رجسٹریشن کی ضرورت ہو گی اور پھر بر وقت جمع کئے گئے تمام ود ہولڈنز ٹیکس کی سٹیٹمنٹ بھی مہیا کرنی ہو گی ۔چھوٹے اور درمیانے درجے کی کمپنی پر اضافی دستاویزات کا بوجھ پڑے گا۔ماہرین کے مطابق اس سیکٹر میں پچھلے سال سے بہتری آ رہی تھی جس سے 40 فیصد گروتھ دیکھنے میں آئی۔ دوسرے ممالک میں خصوصی مراعات کے پیکیج دیے جا رہے ہیں، ویسا ہی سلسلہ پاکستان میں بھی شروع کیا جا رہا تھا تو اچانک یہ خبر آئی کہ انکم چھوٹ ختم کرنے کا کوئی بل لایا گیا ہے اور اس پر عمل کردیا جائے گا تو اس سے آئی ٹی سیکٹر میں ایک منفی تاثر پیدا ہو گیا ہے، حالانکہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ 2025ء تک یہ چھوٹ دی جاتی رہے گی لیکن اسے اب تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹیکس کا ایشو نہیں ہے یہ ایز آف ڈوئینگ بزنس کا ایشو ہے۔ اس میںایف بی آر کا ٹیکس کمشنر طے کرے گا کہ آپ ٹیکس کریڈٹ کے اہل ہیں یا نہیں کیونکہ یہ بالکل نیا سسٹم ہے جو پچھلے سال این جی او سسٹم پر لاگو کیا گیا جس میں یہ مکمل فیل ہو گیا۔اب یہ آئی ٹی سیکٹر پر لاگو کیا جا رہا ہے جس سے اس میں بے شمار سقم سامنے آئیں گے۔ پالیسی ایک چیز ہے لیکن جب وہ آپریشن میں جاتی ہے تو طرح طرح کے نوٹسز کمپنی کو فیس کرنے پڑتے ہیں اور کمپنیوں میں بہت بڑا خوف پیدا ہو گیا ہے۔پاکستان میں ٹیکس سسٹم نہ سمجھ آنے والا سسٹم ہے ۔ڈاکو منٹیشن کے ذریعے طریقہ کار کو سست کردیا گیا۔ڈاکو مینٹیشن میں مانگا کیا جا رہا ہے ۔سیلز ٹیکس رجسٹریشن اینڈ سیلز ٹیکس ایکسپورٹرز پر اپلائی نہیں ہو تا وہ رجسٹر کرتا ہے لیکن زیرو فائلنگ کے ساتھ مکمل کرتا ہے ۔ود ہولڈنگ اسٹیٹ منٹ جو ہے وہ لوکل انکم پر لگتی ہے لیکن اب ایکسپورٹرز کو بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ وقت پر ود ہولڈنگ انکم فائل کرے ۔ اب جو بڑی کمپنی ہے وہ تو یہ کام کرلے گی لیکن اس سیکٹر میں تقریباً 6 ہزار ایسی کمپنیاں ہیں۔ جو سمال اور میڈیم بزنس میںہیں ۔ایک چھوٹا کام کرنے والا جو گھر بیٹھ کر کام کر رہا ہے اور تین بندوں کی کمپنی ہے وہ اس لیول کی ڈاکو منٹیشنن کیسے کرے گا۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ وزارت آئی ٹی کو بھی نہیں پتہ تھا کہ حکومت یہ کرنے جا رہی ہے کسی اسٹیک ہولڈر کو انگیج نہیں کیا گیا۔ ان کے ساتھ گفت و شنید کی جا تی کہ اسے کیسے کیا جائے۔ اچانک ایک جانب سے پتہ چل رہا ہے،کہ ٹیکس چھوٹ ختم کی جا رہی ہے بتایا جا رہا کہ یہ بل جو لائی سے لاگو ہو جائے گا۔ ایک مسئلہ جو ابھی تک حکومت حل نہیں کرپائی۔ وہ مہنگائی کا مسئلہ ہے ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام دو وقت کی روٹی سے محروم ہو گئے ہیں ۔ایک جانب کورونا وائرس نے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے تو دوسری طرف مافیا نے اشیاء خورونوش اور روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کو نا جائز طور پر ذخیرہ کر کے مصنوعی بحران پیدا کر د یا ہے، جس سے ایک جانب عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہو ئی ہے تو دوسری طرف ملک میں آٹے ،چینی ،گھی ،تیل ،سبزیاں،گوشت اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتو ں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے ۔غریب عوام جن کی محدود آمدنی ہے انہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کبھی چینی اورکبھی آٹے کی قیمتوں کوبڑھادیا جاتا ہے، تو کبھی بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتیںآسمان سے باتیں کر نے لگ جاتی ہیں،جس سے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کے ذرائع انتہائی محدود ہیں حکومت مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے لئے سوائے زبانی جمع خرچ یا بیانات دینے کے، عملی طور پر کچھ نہیں کر رہی ۔رمضان المبارک کا مہینہ آرہا ہے۔ اس ماہ مقدس میں مہنگائی کے ریکارڈ ٹوٹیں گے۔ اس کے لئے حکومت کیا کر رہی ہے کوئی چیز قابو میں نہیں آ رہی اس کا ذمہ دار کون ہے؟تبدیلی کی بات کر کے عمران خان چلے تھے وہ تبدیلی عوام کو نظر نہیں آ رہی ۔مہنگائی سب سے بڑا چیلنج ہے اور عوام کیلئے مشکل کا باعث بھی ہے۔ حکومتی ارکان کا موقف ہے کہ وزیر اعظم مسلسل کابینہ کا اجلاس لے رہے ہیں۔ وزرا کو ٹاسک دیا گیا ہے۔ ہر روز پوچھا جاتا ہے۔ صوبائی حکومتوں سے پوچھا جاتا ہے عوام کو کیا ریلیف دیا جا رہا ہے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیر اعظم نے کہا کہ اب یہ ہماری دوسری اننگز ہے اور اس اننگز میں ہم نے بہتر اسکور کرنا ہے ۔ وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ ایف بی آر میں بہتری آ رہی ہے،آئی پی پیز کے ریٹ کم کئے جا چکے۔ 10 بلین ٹری منصوبہ شروع ہو چکا یہ ماحول اور روز گار کیلئے بہتر ثابت ہو گا۔