پی ڈی ایم نے کورونا‘ حکومت اور ملکی قوانین کی پروا نہ کرتے ہوئے ملتان میں جلسہ کر لیا‘ پیپلز پارٹی نے کورونا کے پیش نظر امسال یوم تاسیس نہ منانے کا اعلان کیا تھا مگر یہ اعلان صرف سندھ یا کراچی تک محدود رہا‘ملتان میں یوم تاسیس کے نام پر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے بھر پور اجتماع کا فیصلہ ہوااور پنجاب میں کارکنوں کی کمی پوری کرنے کے لئے سندھ سے شرکاء لانے کی سعی کی‘ سامعین کے اعتبار سے جلسہ کیسا تھا؟ اب یہ غیر متعلقہ سوال ہے‘ پنجاب حکومت نے ایک دن کے اجتماع کو چار دن کے ایونٹ میں بدل کر پی ڈی ایم کی بھر پور مدد کی جس پر مولانا فضل الرحمان‘ مریم نواز شریف اور آصفہ بھٹو زرداری اگر شکریہ ادا نہ کریں تو یہ احسان ناشناسی ہو گی‘ پنجاب میں یہ پی ڈی ایم کا دوسرا جلسہ تھا‘ پہلا پاور شو نوزائدہ اتحاد نے گوجرانوالہ میں کیا جو بھر پور تاثر قائم نہ کر سکا‘ پنجاب حکومت چاہتی تو گوجرانوالہ سے مزید بہتر حکمت عملی کے ذریعے پی ڈی ایم کو ناکوں چنے چبوا سکتی تھی مگر وسیم اکرم پلس اور ان کے مشیروں نے اپوزیشن کے خلا ف کورونا کا ہتھیار استعمال کرنا چاہا جو اس صورت میں موثر ثابت ہو سکتا تھا کہ حکومت کے قول و فعل میں تضاد ہوتا نہ اس کے عزم و ارادے میں کسی قسم کی کمزوری‘ ملتان جلسے سے دو دن قبل جماعت اسلامی کا بونیر میں بھر پور اجتماع ہوا جس سے امیر جماعت سراج الحق نے خطاب کیا‘ غالباً اسی روز وفاقی وزیر اسد عمر نے سکھر میں تحریک انصاف کی یوتھ ونگ کی ایک تقریب میں شرکت کی جو اگرچہ جلسہ عام نہ تھا مگر بہرحال سینکڑوں لوگوں کا اجتماع تھا اور کورونا کے پھیلائو میں اتنا ہی مددگار جتنا پی ڈی ایم کا جلسہ۔مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن کے دیگر رہنمائوں کو یہ کہنے اور عوام کو سوچنے کا موقع ملا کہ یہ کیسا کورونا ہے جو صرف پی ڈی ایم کے جلسوں اور ریلیوں سے پھیلتا ہے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے کارکنوں اور ہمدردوں کو کچھ نہیں کہتا۔ حکومت اگر اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ ملتان کے اجتماع کو ہر قیمت پر روکنا ہے تو وہ پی ڈی ایم کے کارکنوں کی گرفتاری اور جلسہ گاہ کے علاوہ اردگرد کے علاقوں کی بندش پر سارا زور لگانے کے بجائے اہم لیڈروں کو گھروں میںنظر بند کر سکتی تھی‘ کورونا کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرنے کے لئے بھر پور عوامی مہم چلائی جاتی‘ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر مسلسل اشتہاربازی‘ ملتان شہر میں مساجد اور بازاروں میں انتباہی اعلانات کہ جو لوگ ایس او پیز اور دفعہ 144کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے قانون کی گرفت میں آئیں گے اور اعلیٰ عدالتوں سے ہر قسم کے اجتماعات کو روکنے کی استدعا کی جا سکتی تھی‘ مگر قربان جائیے پنجاب حکومت کے اس نے جلسے سے چار روز قبل ہومیو پیتھک قسم کا کریک ڈائون کر کے اپوزیشن کو کارکنوں کے جذبات بھڑکانے اور میڈیا کو پی ڈی ایم کی مظلومیت اجاگر کرنے کا موقع دیا اور ایسا ماحول بنا کہ گویا حکومت اپوزیشن کے اجتماع سے خوفزدہ ہے‘ اگر یہ جلسہ قلعہ کہنہ میں ہو گیا تو عمران خان حکومت کی بساط اسی شام لپیٹ دی جائے گی اور مولانا فضل الرحمن ملک کے صدر‘ مریم نواز ‘ آصفہ بھٹو زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بار ی باری وزیر اعظم بن جائینگے۔ بلا شبہ کورونا مہلک حقیقت ہے اور قوم کی بے احتیاطی کی وجہ سے اس کا پھیلائو جاری‘ کورونا کی پہلی لہر اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور حکومت کے بہتر اقدامات کی وجہ سے پاکستانی عوام کے لئے خطرناک ثابت نہیں ہوئی۔ ع رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت دوسری لہر میں ایس اوپیز کی خلاف ورزی اور بے ہنگم اجتماعات کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے جسے عمران خان بجا طور پر کفران نعمت قرار دے چکے ہیں‘ اپوزیشن پہلی لہر کے دوران کرفیو نما لاک ڈائون کا مطالبہ شدومد سے کرتی اور سندھ حکومت کے اقدامات کی زبردست مداح رہی جس نے پنجاب اور دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ سخت اقدامات کئے۔ اب بھی سندھ بالخصوص کراچی میں کورونا کا پھیلائو زیادہ ہے اور سندھ حکومت اس پر قابو پانے کے لئے ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی لگا چکی ہے۔ بلاول بھٹو کی ہمشیرہ اور آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری کی منگنی کی تقریب انہی پابندیوں اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ وقوع پذیر ہوئی مگر عام شہریوں کے معاملے میں صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں مسلم لیگ(ن)‘ جمعیت علماء اسلام اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنما اس قدر سنگدل و سفاک واقع ہوئے ہیں کہ انہیں جلسوں اور ریلیوں میں پرجوش شرکت کی دعوت دے رہے ہیں جہاں ایس او پیز کی پابندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اپوزیشن کے سر پر عمران خان کی حکومت گرانے کا بھوت سوار ہے جس نے کرپشن مقدمات میں شریف خاندان اور زرداری خاندان کا ناطقہ بند کر رکھا ہے اور جوش انتقام میں کسی کو عوام کی صحت بلکہ زندگی سے کوئی سروکار نہیں۔ بعض اوقات آدمی اس بدگمانی کا شکار ہوتا ہے کہیں اپوزیشن لیڈر بالخصوص دونوں سابقہ حکمران خاندانوں کے سپوت واقعی کورونا کے پھیلائو میں دلچسپی تو نہیں رکھتے کہ ایران‘ اٹلی‘ امریکہ اور سپین کی طرح لاشیں گریں اور وہ اسے عمران خان کی نااہلی ثابت کر کے اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکیں۔ اپوزیشن تو کھل کر کہہ رہی ہے کہ اس کے نزدیک عمران خان کورونا سے زیادہ خطرناک ہے۔ مطلب واضح ہے کہ کورونا سے صرف جان جانے کا خطرہ ہے جبکہ عمران خان سدا حکمرانی کے خواہش مند افراد اور خاندانوں کے مال‘ اولاد اور سیاست کے لئے تباہ کن ۔جو لوگ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے اصول پر کاربند ہیں وہ عمران خان کی رخصتی کے لئے ہر دائو آزمائیں گے لیکن حیرت حکومت پر ہے جو ایک طرف کورونا کی تباہ کاریوں سے واقف اور روک تھام کے لئے سنجیدگی کی دعویدار ہے مگر ملتان میں قانون کی عملدراری کو یقینی بنا سکی نہ اپنے بلند بانگ دعوئوں کی لاج رکھ پائی اور نہ اپوزیشن کو فری ہینڈ دینے کی پرانی فراخدلانہ پالیسی پر کاربند رہی۔ پاکستان میں قانون کی مٹی پلید کرنے میں ہماری سیاسی جماعتوں کا اہم کردار رہا ہے۔ احتجاجی سیاست نے عوام کو قانون شکنی کی ترغیب دی اور بلا تخصیص ہر سیاسی رہنما نے ملکی قوانین ہی نہیں ریاست کو کمزور کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔ موجودہ حکومت نے مگر عوام سے قانون کی بلا تفریق و امتیاز عملداری کا عہد کیا اور عمران خان بار بار اپنے وعدے کی تکمیل کا یقین دلاتے ہیں‘ کورونا ایسا مہلک اور موذی مرض ہے جو نہ بڑے چھوٹے میں کوئی تفریق کرتا ہے نہ لیڈر اور کارکن میں امتیاز برتتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے نقطہ نظر اور پوائنٹ سکورنگ سے قطع نظر جملہ طبّی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سماجی فاصلے اور ماسک کی پابندی کے بغیر پھیلائو روکنا ممکن نہیں اور ہر طرح کے اجتماعات عوامی صحت کے لئے زہر قاتل ہیں‘ حکومت نے اگر اجتماع روکنے کا فیصلہ کیا تھا تو پھر آسمان گرتا یا زمین پھٹتی‘ اپنے فیصلے کی پابندی کراتی مگر پہلے گرفتاریوں اور پابندیوں پر اصرار اور آخری روز جلسہ کرنے کی اجازت‘ یہ کھلا تضاد ہے جس کے بل بوتے پر ملک میں قانون کا بلا تمیز اطلاق ممکن ہے نہ کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد آسان۔ پنجاب حکومت اور ملتان کی پولیس و انتظامیہ میں جلسہ روکنے کی صلاحیت نہ تھی تو بڑھکیں مارنے‘ کنٹینر کھڑے کرنے‘ رکاوٹیں ڈالنے اور گرفتاریوں سے اپنی جگ ہنسائی کرانے کی ضرورت کیا تھی ماڑی سی تے لڑی کیوں سی؟ بزدار حکومت اور حکومتی مشیروں کو سوچنا ضرور چاہیے اپوزیشن اگر شکر گزار نہیں تو یہ اس کی احسان ناشناسی ہے۔