وسیب کے لئے نئے سال 2020ء کی آمد مبارک ثابت نہیں ہوئی کہ آج وسیب کی دو بڑی شخصیات حضرت مولانا فدا الرحمن درخواستی بن حضرت مولانا عبداللہ درخواستی خانپور اور معروف ادیب ،شاعر ، دانشور ، ریسرچ اسکالر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر طاہر تونسوی ملتان میں انتقال کر گئے۔مولانا فدا الرحمن درخواستی کا بہت بڑے خانوادے سے تعلق ہے ، اور ان کی مذہبی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں ۔ سرِ دست سرائیکی زبان کے بہت بڑے لکھاری کی خدمات کا تذکرہ اس وقت میرا موضوع ہے۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی کی وسیب کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کیلئے بہت خدمات ہیں ، وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے ڈاکٹر طاہر تونسوی کی علمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مرحوم کی مغفرت کیلئے دعا کی ہے ۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی ایک شخص نہیں ایک ادارے کا نام ہے ۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ مصر اور بھارت کی یونیورسٹیوں میں بھی تحقیقی کام ہوا اور ان کی شخصیت پر مقالے لکھے گئے ۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی کی بہت سی مطبوعات کو بہت شہرت حاصل ہوئی مگر ان کی کتاب ’’ سرائیکی وچ مزاحمتی شاعری ‘‘ جس کا دوسرا ایڈیشن جھوک پبلشرز ملتان کی طرف سے 2000 ء میں شائع ہوا ، کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی ۔ پیش لفظ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی لکھتے ہیں کہ ’’اکادمی ادبیات اسلام آباد نے 9 ، 10، 11 اکتوبر 1994ء کو اہل قلم کانفرنس منعقد کی جس میں ملک بھر سے ایک ہزار ادیب شریک ہوئے ، میرے مقالے کا عنوان سرائیکی میں مزاحمتی شاعری تھا ، میں نے اپنے وسیب کی ترجمانی کرتے ہوئے مزاحمتی شاعری کو اکٹھا کیا ، جسے سن کر ملک بھر کے ادیب حیران ہوئے کہ سرائیکی میں اتنا خوبصورت مزاحمتی ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ پذیرائی پر میںنے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس مقالے کو میں شائع کراؤں گا ۔ ‘‘ ڈاکٹر طاہر تونسوی کی بحیثیت پرنسپل تعیناتی خانپو کالج میں ہوئی تو ان کے ساتھ وقت گزارنے اور بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملا ۔ ڈاکٹر صاحب نے آتے ہی سب سے پہلا کام کالج کے مجلے کی اشاعت کا کیا ۔ مجلہ کیا تھا ، نہ صرف خانپور بلکہ وسیب کی علمی ، ادبی اور ثقافتی تاریخ کا ایک خوبصورت گلدستہ تھا ، کالج میگزین میں پہلی مرتبہ اسٹوڈنٹس کو حقیقی معنوں میں اپنی تخلیقی صلاحتوں کے اظہار کا موقع ملا اور اہل خانپور کو بھی اپنے شہر کی تاریخ اور آثار کے بارے میں جاننے کا موقع میسر آیا ۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی اپنی ذات میں انجمن تھے ۔ آپ کی آمد سے خانپورکی علمی و ادبی سرگرمیوں کو عروج ملا اور دھریجہ پریس خانپور جو کہ در اصل ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کا ٹھکانہ تھا اور جہاں بہت بڑے شاعر جناب قیس فریدی ، بہت بڑے ادیب جناب میاں انیس دین پوری ، بہت بڑے صحافی غلام یٰسین فخری ، منیر احمد دھریجہ ، مرید حسین راز جتوئی ، صوفی محمد یار بے رنگ و دیگر پہلے سے موجود تھے۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی بہت اچھے لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے ، بظاہر وہ لا اُبالی طبیعت کے مالک تھے مگر ان کا یہ روپ ظاہری تھا ، دل کے بہت اچھے تھے ، وہ لوگوں کے بہت کام کرتے تھے ، اگر وہ کسی کام کا انکار کر دیں تو پھر کام کرانا مسئلہ ہوتا۔ ڈاکٹر صاحب بہاولپور میں ایس ای کالج کے پرنسپل تھے ، ان دنوں صوبائی محتسب اعلیٰ پنجاب کی عدالت میں سرائیکی لیکچرر کی پوسٹوں کا میرا کیس چل رہا تھا ، میرا موقف یہ تھا کہ سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر شہزاد قیصر کے حکم کے باوجود ایمرسن کالج ملتان اور ایس ای کالج بہاولپور میں سرائیکی لیکچرر تعینات نہیں ہوئے ۔ میں ایک سال سے پیشیاں بھگت رہا تھا ، ایک پیشی پر سیکشن افسر چوہدری اسلم نے ایک نیا اعتراض اٹھا دیا کہ جب متعلقہ پرنسپل کی طرف سے ہم سے ڈیمانڈ ہی نہیں کی گئی تو ہم سرائیکی لیکچرر کی آسامیاںکیوں دیں ؟ میں نے ایمرسن کالج ملتان کے پرنسپل سے ڈیمانڈ لکھوائی اور بہاولپور پہنچا ۔ مجھے خوف لا حق تھا کہ ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب نے خدانخواستہ انکار کر دیا تو پھر کیا ہوگا؟ میں نے ڈاکٹر صاحب سے جا کر درخواست کی ، انہوں نے پہلے دو چار سنا دیں کہ ظہور دھریجہ تم ’’درخواستی ‘‘ کے شہر کے ہو ، ہر جگہ تمہاری پھڈے بازیاں چل رہی ہیں، میں لکھ کر نہیں دوں گا ۔ میں دوبارہ درخواست کرنے والا تھا کہ انہو ںنے مجھے خاموش کراتے ہوئے سپرٹینڈنٹ کو بلایا اور پوچھا کہ ہمارے کالج میں سرائیکی کے کتنے اسٹوڈنٹس ہیں ، سپرٹینڈنٹ نے کہا کہ 72۔ تو ڈاکٹر صاحب نے وہیں پر ہی لیٹر لکھوایا کہ ہمیں ایک نہیں دو سرائیکی لیکچرر کی ضرورت ہے کہ اسٹوڈنٹس کی تعداد زیادہ ہے، فوری طور پر ایس ایس کالج بہاولپور کے لئے سرائیکی لیکچرر کی دو آسامیاں دی جائیں ۔ میں خوش اور نہال ہو گیا اور ڈاکٹر صاحب کاشکریہ ادا کیا ۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی اردو اور سرائیکی کے ممتاز محقق، ادیب، شاعر، نقاد اور پروفیسر تھے۔ ان کا اصل نام حفیظ الرحمٰن طاہر تھا۔ ڈیرہ غازی خان سے میٹرک، گورنمنٹ کالج ملتان سے انٹرمیڈیٹ اور اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے (اردو) کیا۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کی زیرِ نگرانی جامعہ پنجاب سے ’’سید مسعود حسن رضوی، احوال و آثار ‘‘کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1974ء میں محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے اور گورنمنٹ ترقی تعلیم کالج خانپور، ایس ای کالج بہاولپور ، ایجوکیشن کالج ملتان سمیت مختلف کالجوں میں تعینات رہے۔فیصل آباد و ملتان تعلیمی بورڈ کے چیئرمین اور ملتان ڈویژن کے ڈائریکٹر ایجوکیشن بھی رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف سرگودھا کے شعبہ اردو سے بھی وابستہ رہے۔ان کی مطبوعہ تصانیف میں ملتان میں اردو شاعری، اقبال اور مشاہیر، مسعودحسن رضوی ادیب: کتابیات، مسعود حسن رضوی ادیب: حیات اور کارنامے، ڈاکٹر فرمان فتح پوری ۔ احوال و آثار، طنز و مزاح: تاریخ تنقید اتخاب، تجزیے، دنیائے ادب کا عرش، شجر سایہ دار صحرا کا، ہم سفر بگولوں کا، رجحانات، حیاتِ اقبال، تذکرہ کتابوں کا، فیض احمد فیض: تنقیدی مطالعہ، شاعرِ خوشنوا: فیض احمد فیض، اقبال اور سید سلیمان ندوی، تحقیق و تنقید: منظرنامہ، جہان ِ تخلیق کا شہاب، وہ میرا محسن وہ تیرا شاعر، نصاب تعلیم اور اکیسویں صدی، جہت ساز قلم کار: ڈاکٹر سلیم اختر، خواجہ غلام فرید - شخصیت اور فن، عکس فرید، سرائیکی کتابیات آغاز تا 1993ئ، اقبال اور عظیم شخصیات، اقبال شناسی اور نخلستان، اقبال اور پاکستانی ادب، اقبال اور مشاہیر، ہم سخن فہم ہیں اور سرائیکی ادب، ریت تے روایت شامل ہیں۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق کے بعد سرائیکی ادبی بورڈ انہوں نے سنبھالا اور ایک سو کے لگ بھگ کتابیں شائع کیں۔