گزشتہ روز ملکہ ترنم نور جہاں کی برسی منائی گئی۔دکھ اس بات کا ہے کہ برسی کے موقع پر قابل ذکر تقریبات کا انعقاد نہیں ہوا۔ فن کی دنیا میں ملکہ ترنم نور جہان ایک بہت بڑا نام ہیں۔ اُن کی فن کے علاوہ ایک لحاظ سے عسکری خدمات بھی ہیں کہ 1965ئ، 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہوں نے ملی ترانے گا کر پاکستانی قوم اور افواج پاکستان کا مورال بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ صوفی تبسم کا لکھا ہوا پنجابی ملی نغمہ ’’اے پتر ہٹاں تے نیں وکدے، توں لبھنی پھریں بزار کُڑے‘‘ آج بھی ہر زبان پر ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملکہ ترنم نور جہان کی پنجابی زبان کیلئے بہت خدمات ہیں مگر اہل پنجاب نے اُن کو بھلا دیا ہے۔ ملکہ ترنم نور جہان کی قبر لاہور یا قصور میں ہونی چاہئے تھی مگر اُن کو کراچی میں دفن کیا گیا۔ ایک مرتبہ اپنے دوست غلام مصطفی خان کے ہمراہ کراچی کے ڈیفنس قبرستان میں ملکہ ترنم نور جہان کی قبر پر فاتحہ کیلئے گیا تو یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ قبر گری ہوئی تھی اور لوح قبر بھی سلامت حالت میں نہ تھی۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے لاوارث قبر ہو۔ ملکہ ترنم نور جہاں کا تعلق ایک لحاظ سے سرائیکی وسیب سے بھی رہا کہ اُن کے بیٹے صادق پبلک سکول بہاولپور میں پڑھتے تھے اور اُن کا بہاولپور آنا جانا رہتا تھا۔ معروف دانشور و سرائیکی رہنما ملک حبیب اللہ بھٹہ سے اُن کے بہت مراسم تھے۔ ملکہ ترنم نور جہاں نے سرائیکی فلم ’’دھیاں نمانیاں‘‘ کیلئے سرائیکی گیت گائے اور دیگر مواقع پر اور خواجہ فرید کی کافیاں محبت سے گائیں بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُن کا آغاز ایک سرائیکی لوک گیت سے ہوا۔ ملکہ ترنم نور جہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا وہ کوٹ مراد خان قصور میں 21 ستمبر 1926ء کو پیدا ہوئیں۔ اُن کے استاد کا نام غلام محمد ہے۔ لاہور شہر سے اسٹیج اور تھیٹر سے اپنے فن کا آغاز کیا۔ پہلی شادی 1943ء میں شوکت حسین رضوی اور دوسری اداکار اعجاز درانی سے ہوئی۔ 1935ء میں پہلی فلم میں بطور چائلڈ سٹار کام کیا۔ ہیروئن کے طور پر 1942ء میں جلوہ گر ہوئیں۔ پہلا فلمی گیت ’’لنگھ آ جا پتن چنا دا یار‘‘ گایا۔ متحدہ ہندوستان میں 27 اور قیام پاکستان کے بعد تقریباً 100 سے زائد فلموں میں بطور اداکار و گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ 23دسمبر 2000ء میں وفات ہوئی۔ اور ان کو کراچی میں دفن کیا گیا ۔ ہمارے دوست ڈاکٹر ظہور چودھری اپنی کتاب جہان فن میں ملکہ ترنم نور جہان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ملکہ ترنم نور جہاں بہت بڑی آواز تھیں ، ان میں خوبیوں کے ساتھ شخصی خامیاں بھی تھیں، جیسا کہ 1947ء سے 1961ء تک منور سلطانہ، پکھراج پپو، زینت بیگم، زبیدہ خانم، کوثر پروین گلوکاری کرتی ہیں ،ملکہ ترنم نورجہاں نے ان سے کوئی تعرض نہ کیا کیونکہ ان کی توجہ اداکاری کی جانب تھی مگر جب ’’غالب‘‘ کے بعد انہوں نے باقاعدہ پلے بیک گلوکاری کا آغاز کیا تو ان کی دیگر ہم عصر فنکاروں سے رنجشیں شروع ہو گئیں۔ اداکار فردوس کے لیے پلے بیک اس لیے منع تھا کہ اس کے تعلقات، ان کے شوہر اعجاز درانی کے ساتھ تھے۔ ناہید اختر سے بھی ان کے تعلقات کشیدہ رہے اور اس کے مقابلے کے لیے مہناز کو ہوا دی گئی حتیٰ کہ ناہید اختر نے خود ہی گانا چھوڑ دیا اور راستے کا یہ پتھر خود ہی دور ہو گیا۔ منور سلطانہ، زبیدہ اور مالا پس منظر میں چلی گئی تھیں۔ کوثر پروین فوت ہو چکی تھیں۔ زاہدہ پروین نے صرف کافی اور کلاسیکی موسیقی کو اپنا میدان بنا لیا تھا۔ رونا لیلیٰ بنگلہ دیش سدھار گئی تھیں۔ آئرن پروین نے برطانوی شہریت لے لی تھی اور کچھ عرصہ بعد نسیم بیگم کا بھی انتقال ہو گیا۔ اب ملکہ ترنم نور جہاں کے لیے راستہ صاف تھا چنانچہ وہ آج کے دور کی امریکہ جیسی واحد سپر پاور طاقت بن کر ابھریں اور جتنی بھی جونیئر گلوکارائیں اس میدان میں اتریں انہوں نے پہلے نور جہاں کے پائوں چھوئے، ان کی آشیر باد حاصل کی اور تب کہیں جا کر انہیں گانے ملے۔ انڈسٹری کی اس ڈکٹیٹر شپ حاصل کرنے کا لا محالہ فائدہ تو بلا شرکت غیرے انہیں حاصل ہونا ہی تھا لیکن جو سب سے بڑا نقصان ہوا، وہ یہ تھا کہ ملک اور فلمی صنعت کو نئی اور اچھی گلوکارائوں کی کھیپ حاصل نہ ہو سکی۔ اس کے برعکس بھارت میں لتا منگیشکر اور ان کی بہنوں کے علاوہ گیتا دت، سمن کلیانپور، مبارک بیگم، وانی جے رام، سلکھشانا پنڈت اور شاردا جیسی آوازیں موجود تھیں جن کی بناء پر وہاں نئی گلوکارائوں کی جو نرسری بنی تو آج اس میں سے الکا یاگنگ، انورادھا پوڈوال اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور وہاں خاتون گلوکارائوں کا کوئی قحط پیدا نہیں ہوا۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں مسرت نذیر سے بھی ان کے تعلقات اس لیے کشیدہ ہو گئے تھے کہ وہ گلوکارہ بن گئی تھیں وہ تو شکر ہوا کہ مسرت نذیر کینیڈا واپس چلی گئیں۔ ماسٹر عبداللہ، پاکستان فلم انڈسٹری کے ایسے ذہین، خوددار اور انا پرست موسیقار تھے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔انہوں نے نور جہاں کے لیے ایسے خوبصورت گیت تخلیق کئے جن کی بناء پر وہ شہرت کے آسمان پر جا پہنچیں۔ چنانچہ 1965ء میں ’’ملنگی‘‘ کے لیے ’’ماہی وے ساہنوں بھل نہ جاویں‘‘ نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے۔ انہی ماسٹر عبداللہ سے ملکہ ترنم کے تعلقات آخری دنوں میں سخت کشیدہ ہو گئے تھے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس خاتون میں بعض صفات ایسی بھی تھیں جو شاید کسی فنکارہ میں موجود نہ ہوں۔ وہ ٹوٹ کر محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ اعجاز درانی جب ہیروئن لے جاتے ہوئے لندن میں پکڑے گئے تو نور جہان نے تمام وسائل اس کی رہائی کے لیے صرف کر دیئے جبکہ اعجاز درانی نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ اسی طرح اپنے کیمپ کے موسیقاروں، گلوکاروں، شاعروں، سازندوں، اپنے اہل خانہ کے ساتھ جو حسن سلوک انہوں نے کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے دوست ڈاکٹر ابرار احمد بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایک بار خود لبرٹی مارکیٹ میں نور جہاں کو اپنے ہاتھوں سے بابا چشتی کو جوتے پہناتے دیکھا۔ ماضی کی گلوکارہ حمیدہ بانو نے پروفیسر سلیم الرحمن کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی بے کاری اور مفلسی کے زمانے میں ملکہ ترنم واحد فنکارہ تھیں جو ان کی مالی مدد کرتی تھیں۔ اسی طرح غریب سازندوں کے بھی ماہانے مقرر تھے۔ ڈاکٹر ابرار احمد نے بتایا کہ ایک بار وہ راولپنڈی میں تعینات تھے کہ ایک راہ گیر زخمی ہو گیا۔ وہ جنرل وارڈ میں زیر علاج تھا کہ اچانک ملکہ ترنم نور جہاں کا فون آیا کہ میرا بھائی آپ کے پاس داخل ہے اس کا خاص خیال رکھا جائے اور اسے پرائیویٹ کمرے میں منتقل کیا جائے۔