روزنامہ 92 کی خبر کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کور کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کیلئے کمیٹی بنانے کا فیصلہ ہوا وزیر دفاع پرویز خٹک کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اجلاس میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی۔ مذاکرات کیلئے کمیٹی کے قیام کا فیصلہ درست ہے مگر مذاکرات سے پہلے سازگار ماحول کا ہونا ضروری ہے عمران خان خود مولانا فضل الرحمن کے بارے میں سخت لب و لہجہ اختیار کرتے رہے اور انہیں ہمیشہ اجتماعات میں ’’مولوی ڈیزل‘‘ کے نام سے پکارا۔ اب بھی کابینہ کے فواد چودھری جیسے وزراء کا انداز تکلم سیاسی ماحول کو نا سازگار بنانے کا موجب ہے، کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے یہ حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے حکومت کو وقت ڈال دیا ہے اور حکومتی نمائندوں کے یہ بیانات کہ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا معیشت کیلئے تباہی اور ملک سے غداری کا موجب ہے تو گویا حکومتی نمائندے دراصل تحریک انصاف کی طرف سے ڈی چوک اسلام آباد میں دیئے گئے دھرنے کیخلاف ہی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے استعفیٰ سے قبل حکومت سے مذاکرات نہیں ہوں گے ، کوئی مارشل لاء کا نہ سوچے، ایسی کوشش کی گئی تو تحریک کا رخ موڑ دیں گے، اداروں کو آئین کے اندر رہ کر کام کرنا ہو گا، اب پوری قوم کی ایک ہی آواز ہے کہ سلیکٹڈ وزیر اعظم استعفیٰ دیں، پختون قوم پرست رہنمائوں محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی نے کھلم کھلا مولانا فضل الرحمن کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، پیپلز پارٹی بھی مولانا فضل الرحمن کو سندھ میں سہولتیں دے رہی ہے، میاں نوازشریف تو لگتا ہے کہ وہ دامے ، درمے، قدمے، سخنے مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دینے کو تیار ہیں، جبکہ حکومتی نمائندوں کا یہ کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کشمیر کاز کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، تاہم حکومتی نمائندوں کی دلیل کمزور نظر آتی ہے، یہ بھی حقیقت ہے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کو دوسروں سے زیادہ حکومت خود کامیاب کر رہی ہے کہ آج ملک کا ہر باشندہ غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں پس چکا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اُن کی ہمدردیاں حکومت مخالف قوتوں کے ساتھ ہوں گی۔ وسیب میں مولانا فضل الرحمن کے دھرنے بارے ہر فورم پر گفتگو ہو رہی ہے، وسیب میں مولانا فضل الرحمن مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دینی مدارس کا بہت اثر ہے اور امکان ہے کہ دینی مدارس کی کافی تعداد اسلام آباد پہنچے گی، مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد میں دو نومبر 2019ء کو منعقد ہونے والی سالانہ سرائیکی کانفرنس ملتوی ہو چکی ہے جبکہ سرائیکستان صوبہ محاذ کے ایک خصوصی اجلاس میں مولانا فضل الرحمن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے آزادی مارچ میں سرائیکی صوبے کا مطالبہ شامل کریں تو سرائیکی جماعتیں اُن کا ساتھ دیں گی۔ صوبہ محاذ کے مرکزی رہنمائوں خواجہ غلام فرید کوریجہ، ملک خضرت حیات ڈیال آف ڈی آئی خان، عاشق بزدار اور کرنل (ر) عبدالجبار عباسی کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا تعلق ڈی آئی خاں سے ہے اور وہ اپنے والد کی طرح ہمیشہ ڈی آئی خاں سے الیکشن لڑتے ہیں۔ الیکشن کے موقع پر اُن کا نعرہ سرائیکی صوبے کا ہوتا ہے، البتہ الیکشن کے بعد وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔ روزنامہ 92 نیوز کی ایک خبر یہ بھی ہے کہ عوامی راج پارٹی کے سربراہ اور سابق ممبر قومی اسمبلی جمشید دستی نے کہا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کریں گے اور دھرنے میں بہت بڑے قافلے کے ساتھ شریک ہوں گے اور خاص بات یہ ہے کہ آزادی مارچ کے موقع پر وہ اپنی شادی کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔ جمشید دستی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب لوگ مجھے طعنے دیتے ہیں کہ وہ شیخ رشید بنتے جا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ جب بھی شادی کی تیاری کرتا ہوں کوئی نہ کوئی مسئلہ دَر پیش ہو جاتا ہے لیکن اب میں دھرنے کے موقع پر ہر صورت اپنی شادی کا اعلان کروں گا۔جمشید دستی کو شادی کا اعلان مبارک ہو، مگر یہ اعلان احتجاج کے موقع کی بجائے خوشی کے کسی جشن پر ہو تو اچھا ہے، بہر حال وقت وقت کی بات ہے جمشید دستی عمران خان کے اُس دھرنے میں بھی شریک ہوئے تھے جس میں عمران خان مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کے لقب سے پکار رہے تھے، اب جمشید دستی اُس دھرنے میں بھی شریک ہو رہے ہیں جس میں مولانا فضل الرحمن عمران خان کو سیدھی سنا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے بارے میں چہ مگوئیاں جاری ہیں، کوئی کہتا ہے کہ وہ نئے خادم رضوی بننے جا رہے ہیں اور کسی کا کہنا ہے کہ وہ بیرونی قوتوں کے اشارے پر احتجاج کا ڈھونگ رچانے جا رہے ہیں، دور کی کوڑی لانے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ امریکہ، بھارت اور افغانستان کو خوش کرنے کیلئے ایسا کر رہے ہیں، یہ تو باتیں ہیں، باتوں کا کیا ہے، باتیں چلتی رہتی ہیں، الزام جوابی الزام کی سیاست بھی چلتی رہتی ہے، اصولی طور پر حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئے کہ مولانا فضل الرحمن بذات خود اُس پارلیمانی نظام کا حصہ ہیں جس کے باعث عمران خان وزیر اعظم ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے اُس پارلیمانی نظام سے روپوشی اختیار نہیں کی جس کا عمران خان اور وہ خود یا اُن کی جماعت حصہ ہیں۔ اسی بناء پر اُس وقت تک استعفیٰ کے مطالبے میں طاقت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک مولانا فضل الرحمن یا اُن کے حامیوں کی جماعتیں اسمبلی سے استعفیٰ نہیں دے دیتیں ۔ جہاں تک حکومت کی بات ہے تو عمران خان کو اپنی کارکردگی بہتر بنانی چاہئے کہ اس وقت اُن کے پاس نوازشریف سے بھی بڑا اقتدار ہے، (ن) لیگ کے پاس مرکز اور ایک صوبے کی حکومت تھی جبکہ عمران خان کے پاس مرکز اور دو صوبوں کی حکومتیں ہیں۔ اس سے پہلے پانچ سال خیبرپختونخواہ اُن کے پاس رہا ہے، باتوں سے پیٹ نہیں بھرتے، باتیں آپ جتنی کر لیں حقیقت یہی ہے کہ تحریک انصاف گزشتہ چھ سالوں سے مکمل ناکام جا رہی ہے، لوگ تنگ آچکے ہیں اور وہ نوجوان بھی خلاف ہو رہے ہیں جنہوں نے عمران خان کو لانے میں جنون کی حد تک کام کیا تھا، عمران خان کی حکومت مرکز اور پنجاب میں صرف اور صرف سرائیکی وسیب کے بل بوتے پر قائم ہوئی مگر سوال یہ ہے کہ وسیب سے صوبے کے جو وعدے ہوئے وہ کہاں گئے؟ صوبے کے وعدے سے یوٹرن لیکر بات سول سیکرٹریٹ تک آئی، سوال یہ ہے کہ فاٹا کی نشستوں کے اضافے کا مسئلہ ہو تو اسمبلی میں سب ایک ہو جاتے ہیں، سرائیکی صوبے کے مسئلے پر کیوں نہیں؟ اب تو گزشتہ رات ن لیگ کے احسن اقبال نے بھی سرائیکی صوبے کی حمایت کر دی ہے اب تاخیر کیوں؟