ایسے ہی یہ خیال نہیں آیا ‘میں برسوں اس پر سوچتا رہا ہوںحتمی جواب اب بھی مرے پاس نہیں ہے۔ یا شاید دل یکسو ہے مگر اس جواب کو دو ٹوک انداز میں زبان دینے کا ابھی سلیقہ اپنے میں نہیں پاتا۔ اس بات کا مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ اہل مغرب ایک طویل عرصے سے جس بات سے خوفزدہ ہیں اسے مشہور برطانوی مورخ ٹانن بی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کے دل سے موت کا خوف نکال دیا ہے۔ خلافت عثمانیہ اور سلطنت مغلیہ کے خلاف لڑتے ہوئے یہ سوال بڑی شدو مد سے ان کے سامنے تھا۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کے لئے تو یہ خطرے کی گھنٹی ہو گی کہ ان کا واسطہ اس قوم سے پڑا ہے جو موت سے نہیں ڈرتی اور مرے لئے یہ ایک مثبت قدر ہے کہ مسلمان اپنی اعلیٰ تہذیبی روایات کی پاسداری کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں حتیٰ کہ جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔ ایثار اور قربانی کا یہ جذبہ اپنی روح میں کئی جہتیں رکھتا ہے۔ فی الحال مگر آگے بڑھتے ہیں۔ خلافت عثمانیہ کے خلاف فکری اور عملی موشگافیوں کیا کیا ہوئیں‘ فی الحال ان سے صرف نظر کرتے ہوئے‘ اس زمانے کی دوسری بڑی مسلم سلطنت کے خلاف مغربی سامراج کی تاریخ ہمیں بہت کچھ بتاتی ہے۔ ہمارے ہاں اس کی ایک جہت یہ تک تھی کہ ایک نبوت کا پودا تک لگانا پڑا جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہ تھی۔ نبوت کا یہ دعویدار یہ اعلان کرتا تھا کہ اب جہاد سا قط ہو گیا ہے۔ اقبال کے تو اس کے جواب میں شعر یاد ہی ہوں گے۔ مولانا ظفرعلی خاں حتیٰ کہ سبھی مشاہدین امت نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ برطانوی سامراج ڈرتا تھا تو مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے ڈرتا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں اس قوم کے اندر جہاد و شہادت کی روح بیدار نہ ہو جائے۔ ذرا غور کریں تو مری تاریخ ہی بہت سے سوالات سے دوچار کرتی ہے۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ جہاد کے اعلان کا اختیار صرف ریاست کرے۔ یہ نہیں کہ جو بھی چاہے جہاد کا اعلان کر دے۔ مری بھی یہی رائے ہے‘ مگر بعض اوقات اس رائے کا اظہار درست طور پر نہیں کیا جاتا۔ آج کے پس منظر میں ہم اسے دہشت گردی کہنے لگتے ہیں۔ جہادی فکر دہشت گردی کے معنوں میں عام استعمال ہوتا ہے اور ہم سنتے رہتے ہیں۔ اس لئے سوچا ہے کہ آج فیصلہ کر لوں کہ (جنرل) بخت خاں جب میرٹھ چھائونی سے مسلمان لشکریوں کو لے کر دلی کی طرف بڑھے تھے تو ان کا جذبہ کیا تھا۔اس وقت بھی بعضوں نے انہیں لٹیرے کہا تھا۔ میں ان کے بارے میں یہ تو نہیں کہتا جو اقبال نے حضرت عالمگیر کے بارے میں کہا تھا کہ مرے ترکش کا آخری تیر تھا جو میں نے چلا دیا۔ بخت خاں انگریزی استعمار کے خلاف مری آخری کوشش تھی۔ انگریز نے بھی اسے نظر انداز نہیں کیا۔ اسے بغاوت یا غدار سے تعبیر کیا۔ ہمارے زمانے تک پاکستان بننے کے کئی برس بعد تک ہم بھی اپنی درسی کتابوں میں اسے غدار پڑھتے رہے۔ پھر جب 1957ء میں ہمیں 10مئی کو یوم آزادی کا صد سالہ جشن منانے کا خیال آیا تو یاد آیا کہ یہ تو ہماری تحریک آزادی تھی۔ مجھے نہیں معلوم اس وقت جہاد کا اعلان کس نے کیا تھا۔ اب میں اسے کیا کہوں۔ دلی میں آ کر بخت خاں نے بادشاہ کی مدد چاہی اور درخواست کی کہ قلعہ چھوڑ کر مرے ساتھ چلے آئیں میں انگریز کو ایسا تگنی کا ناچ نچوائوں گا کہ تاریخ یاد رکھے گی۔ مگر بوڑھا بادشاہ شاید پیرانہ سالی کی وجہ سے یا کسی اور بنا پر ایسا نہ کر سکا اور پھر اسے جو تکلیف اور ذلت برداشت کرنا پڑی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ گویا ’’ریاست‘‘ نے جہاد کا اعلان کرنے سے انکارکر دیا تھا اورکہتے ہیں پھر بخت خاں جنگلوں اور پہاڑوں میں ایسا غائب ہوا کہ پھر اسے کسی نے نہیں دیکھا۔ سوال یہ ہے کہ اس نے اکیلے جنگ کیوں جاری نہ رکھی۔ کیا وہ سمجھتا تھا کہ جہاد کے لئے بھی سچائی کا اعلان ضروری ہے۔ شاید اس لئے کہ اس وقت وہ زمانہ ابھی جاری تھا جب مجاہد اپنی جدوجہد کے ان دو مجاہدوں کے نام پر رکھا گیا تھا۔1857ء کے مجاہدین کی ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی تھی۔ اب بتائیے ‘ میں انہیں کس کھاتے میں رکھوں۔ بھگت سنگھ وغیرہ سے تو میں دستبردار ہو جاتا ہوں۔ مگر بخت خاں کو تو نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ تو انگریزوں کا زمانہ تھا تاریخ اس زمانے کے تقاضوں کے مطابق لکھی گئی۔ مرے لئے اسے لٹیرا یا دہشت گرد کہنا مشکل ہے۔ وہ مرا مجاہد تھا جس نے انگریز کے خلاف جہاد کیا‘ مگر بادشاہ یا ریاست نے ساتھ نہ دیا۔ میں اس کہانی کو طول نہیں دینا چاہتا۔ دلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں تک جا کر اس فتوے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو انگریزی استعمار کے خلاف کیا تھا۔ ہمارے جید علماء نے کالا پانی تک کی قید کاٹی۔ اس وقت تو کوئی حکومت نہ تھی جو اعلان جہاد کرتی۔ علماء کے اعلان جہاد کا کیا مطلب تھا۔ حضور ہر زمانے کے اپنے اپنے تقاضے ہیں۔ امام شاہی حاجی مراد کی جدوجہد کو میں کیا کہوں۔ ایک نہیں کئی جگہوں پر مسلمانوں نے جہاد کیا جب افغانستان میں روس کے خلاف جنگ جاری تھی تو اسامہ بن لادن ‘ حکمت یار‘ برہان الدین حقانی سب مجاہد تھے۔ امریکہ سے تصدیق شدہ مجاہد‘ اس وقت تو کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ انہیں جہاد کا حکم کس نے دیا ہے۔ اپنے ابتدائی دنوںمیں ملا عمر بھی مجاہد تھے پھر کیا ہو گیا۔ اس سے مجھے غرض نہیں۔ میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ میں کسے جہاد کہوں۔ کسے دہشت گردی کہوں۔ جب برہان وانی کا معاملہ ہوا تو پاکستانی علماء نے اسے مجاہدین قرار دیا۔ جبکہ ہندوستان کے دارالعلوم دیو بند دوسرا فتویٰ آیا۔ اب بتائیے میں اسے کیا کہوں۔ ایک فتوے کو بڑی شہرت دی جاتی رہی ہے۔ جو سید مودودی سے کشمیر کے جہاد کے حوالے سے منسوب ہے۔ اس وقت شاید مسئلہ یہ تھا کہ جو قبائلی وہاں گئے تھے ان کے بارے میں حکومت باضابطہ اعلان کرے‘ انہیں حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دے۔ ہم نے کارگل کے مجاہدوں کے ساتھ یہی کیا‘ یہ تسلیم نہ کیا یہ ہمارے آدمی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ وقت ضرورت ہم ان کی مدد نہ کر سکے۔ یہ ساری بدلتی ہوئی صورتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ جہاد کے موضوع پر سب سے پہلی کتاب لکھنے کا اعزاز بھی سید مودودی کو حاصل ہوا تھا‘ جب وہ ابھی 25,26سال کے نوجوان تھے اس پر اقبال نے کہا تھا کہ دنیا میں کوئی دوسری کتاب اس موضوع پر نہیں جو ایسی مدلل ہو اور غیر معذرت خواہانہ نہ ہو۔ اس کی تصنیف کے پیچھے محمد علی جوہر کی خواہش بھی شامل تھی۔ یہ سوال دراصل اس وقت مرے ذہن میں اس لئے آیا ہے کہ ہم حالات حاضرہ کی وجہ سے اور سفارت کاری کے حالیہ تقاضے پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات پر اصرار کرتے آ رہے ہیں کہ ہم نے کشمیریوں کی صرف اخلاقی مدد کی ہے اورکرتے رہیں گے۔ ہم حافظ سعید ‘ سید صلاح الدین‘ مسعود اظہر کی اس جدوجہد سے بھی دست کش ہونا چاہتے ہیں جس کا الزام ہم پر لگتا رہا ہے۔ تاہم یہ سوال پھر پیدا ہو گا کہ اگر کشمیر کی وادی اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑی ہو تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ مرا مطلب یہ نہیں کہ ہتھیار اٹھا کر چل پڑو‘ مطلب صرف یہ ہے کہ ہمیں یہ تو سوچنا چاہیے کہ ایسی صورت میں امہ بالخصوص پاکستانیوں پر کیا فرض ہو گا ؟چاہے کوئی اسلامی حکومت بھی ان کا ساتھ دے یا نہ دے۔ کیا ہم انہیں ظالم بھارتی جنونیوں کے ہاتھوں نہتا چھوڑ کر تاریخ کے تقاضے پورے کریں گے۔ میں نے تاریخ کے تقاضے کہاہے‘ دین کے نہیں۔ میں بھی شاید بزدل ہوں۔