سوشل میڈیا پر خواہ مخواہ ہنگامہ برپا ہے‘ مجھے تو مسلم لیگ(ن) کا فیصلہ صائب لگا‘ آرمی ایکٹ میں ترمیم اور سروسز چیفس کی مدت ملازمت کے حوالے سے قانون سازی حکومت کی مجبوری ہے‘ سپریم کورٹ کا حکم ہے جس سے سرتابی ممکن نہیں‘ اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ کسی کو اچھا لگے یا برا لگے ماننا پڑتا ہے۔ مہذب معاشروں میں عدالتی فیصلہ آنے کے بعد متاثرہ فریق ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا شور مچاتا ہے نہ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگا کر عوام اور سیاسی کارکنوں کو حکم عدولی پر اکساتا ہے‘ امریکی انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو معاملہ اعلیٰ عدلیہ تک پہنچا‘ امریکی عدلیہ کی ہئیت ترکیبی پاکستان سے خاصی مختلف ہے فیصلہ الگور کے خلاف آیا جس نے پاپولر ووٹ لے کر مخالف کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ الگور نے اسے خلائی مخلوق کی کارستانی قرار دیا نہ فیصلہ دینے والے بنچ کے بارے میں یہ کہا کہ ’’عوام کے فیصلے کو ٹھکرانے والے یہ جج کون ہیں‘‘ الگور چاہتے تو کاررواں لے کر واشنگٹن کی طرف چل پڑتے کئی دن تک سینہ کوبی کرتے اور جگہ جگہ مجمع لگا کر اپنی داستان حسرت سناتے‘ لیکن ایک قانون پسند سیاستدان کی طرح اس نے عدالتی فیصلے کو جمہوریت کی فتح قرار دیا اور مخالف کو کامیابی پر مبارکباد دے کر گھر جا بیٹھے۔ وہ دن اور آج کا دن عدالتی فیصلے کے سامنے سرنگوں ہونے والے الگور کی اس ادا کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ جن نادان دوستوں نے میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو عدلیہ اور فوج کے خلاف سرکشی پر اکسایا اور عدالتی فیصلے کے علاوہ جولائی کے انتخابات میں عوامی رائے کو مسترد کرنے کی راہ دکھائی ان کا تو کچھ نہیں بگڑا ‘زیادہ سے زیادہ ایوان اقتدار سے باہر آ گئے لیکن شریف خاندان کو انہوں نے کہیں کا نہیں چھوڑا’’اوج ثریا سے تحت الثریٰ تک ‘‘ زوال کی مثال ان پر صادق آتی ہے۔ کہاں وہ وقت کہ چیف جسٹس ‘ آرمی چیف اور دوسرے ریاستی منصب داروں کو وہ پر کاہ کے برابر وقعت نہیں دیتے تھے اور کہاں اب یہ حالت کہ طبی بنیادوں پر ضمانت کے دورانیے میں اضافے کے لئے سردار عثمان بزدار کی صوبائی حکومت کو درخواست دیتے اور اُمید کرم رکھتے ہیں۔ اخلاقی جرأت کا یہ عالم کہ مخاطب وزیر اعلیٰ کو نہیں چیف سیکرٹری کو فرماتے ہیں‘ کان دائیں کے بجائے بائیں ہاتھ سے پکڑنے کی عادت یا اپنے کارکنوں کو بے وقوف بنانے کی علّت۔ مریم نواز ملک سے باہر جانے کے لئے بے تاب ہیں اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ اب بھولے سے بھی کوئی نہیں لگاتا کہ مبادا کسی کی پیشانی شکن آلود ہو اور پھر جیل یاترا کرنی پڑی جو عیش و آرام کی دلدادہ سہل پسندقیادت کے لئے جان جوکھوں کا کام ہے۔ جن عملیت پسند اور مسلم لیگ کے اجتماعی مزاج سے واقف لوگوں نے پانامہ پیپرز منظر عام پر آنے کے بعد شریف خاندان کو تصادم و محاذ آرائی کے بجائے ’’ایاز قدر بشناس‘‘ کا مشورہ دیا انہیں پرواسٹیبلشمنٹ ‘ کم ہمت اور جمہوریت مخالف کے علاوہ معلوم نہیں کیا کیا کہا گیا‘ نثار علی خان بے چارے کا تو حقہ پانی بند ہو گیا جو دانشور‘ تجزیہ کار اور اہل قلم خلوص دل سے یہ سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ(ن) اپنی جمع پونجی کو یوںکوئلوں کی دلالی میں ضائع نہ کرے انہیں بھی دشمنوں کی صف میں دھکیل دیا گیا مگر آج میاں نواز شریف اور مریم نواز کے علاوہ پرویزرشید‘ طارق فاطمی اور دیگر عقابوںکی خاموشی بلکہ خلائی مخلوق کی غیر مشروط حمائت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو شریف خاندان کے پرجوش حامی اور اندھے مقلد فریب قرار دے کر ’’بوٹ کو عزت دو‘‘ کی پھبتی کس رہے ہیں جو چند ہفتے پہلے تک ناقدین کے لئے وقف تھی۔ بہادر شاہ ظفر نے آدمی کی پہچان کا پیمانہ یہ مقرر کیا تھا ؎ ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا‘وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اخبار نویسوں کی ایک محفل میں بتایا کہ ’’پانامہ کا قضیہ سامنے آیا تو میں نے وزیر اعظم نواز شریف سے پوچھا کیا ارادے ہیں؟ بولے اگر عدالت عظمیٰ نے ہلکا سا اشارہ بھی کیا کہ میرا اس معاملے سے لینا دینا ہے تو منصب چھوڑ کر گھر چلا جائوں گا فیصلے کا انتظار نہیں کروں گا‘‘ ہوا مگر یہ کہ ایک نہیں دو فیصلے آ گئے‘ ٹھنڈے دل و دماغ سے کچھ سوچنے کے بجائے طیش میں آ گئے اور ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا شور مچا دیا‘ غصہ اتنا بڑھا کہ عدلیہ کے ساتھ فوج پر بھی طعنہ زنی شروع کر دی‘ جو عدالتی فیصلے کے احترام میں پیش پیش تھی۔ ہوش اس وقت آئی جب ریلیف کے لئے انہی عدالتوں سے رجوع کرنا پڑا جنہیں بدنام کرنے کے لئے کیا کچھ جتن نہ کیے‘ احتجاجی ریلیاں ‘ سوشل میڈیا پر شرمناک مہم اور جج ارشد ملک سے رابطے وغیرہ وغیرہ۔ عدالتی ریلیف کے بعد میاں برادران ملک سے باہر ہیں اور مریم نواز گھر آرام فرما‘ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے فیصلہ دیا تو ملک کے سب سے طاقتور ادارے اور متوالوں کے بقول مقتدر قوت نے فیصلے کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے آئینی‘ قانونی اور پارلیمانی راستہ اختیار کیا وزارت دفاع اور حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر ہوئی اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کا مسودہ سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے منظور کرانے کی تگ و دو ہو رہی ہے‘ عدالتی فیصلے پر سوالات اُٹھ رہے ہیں اور حکومتی قانونی ٹیم کی اہلیت و صلاحیت بھی زیر بحث ہے جو عدالت عظمیٰ کے روبرو دائرہ اختیار کو چیلنج کر سکی نہ پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوئی مگر سرتابی کسی نے نہیں کی۔جن خوش فہم عناصر کا خیال تھا کہ اس معاملے پر مسلم لیگ سخت سودے بازی کرے گی اور پارلیمنٹ سے مسودہ قانون کی منظوری مشکل بنا دے گی وہ مسلم لیگی قیادت کی طرف سے غیر مشروط حمائت کے اعلان پر پریشان بلکہ پشیمان ہیں۔رانا ثناء اللہ جیسا ہارڈ لائنربھی غیر مشروط تعاون کی یقین دہانی کرا رہا ہے جس کے زخم ابھی ہرے ہیں اور دل شکستہ۔ یہی دانش مندی کا تقاضہ ہے اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگے قدم بڑھانے کی تدبیر۔’’ووٹ کو عزت دو‘‘ محض ایک سیاسی نعرہ تھا‘ کارکنوں کو جوش دلا کرحکومت اور ریاستی اداروں سے مراعات حاصل کرنے کی حکمت عملی‘ شریف خاندان کو جتنا ریلیف ملنا تھا‘ مل چکا‘ مزید کی توقع رکھنی چاہیے نہ گنجائش نظر آتی ہے‘ کسی کو اب بھی سمجھ نہ آئے تو اس کی مرضی۔ جذباتی نعرے بازی کے لئے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم دستیاب ہے ۔پرجوش کارکن اور مراعات یافتہ تجزیہ کار و صحافی سو جوتے‘ سو پیاز کا طعنہ دیں یا ’’بوٹ کو عزت دو ‘‘کی پھبتی کسیں‘ مسلم لیگ نے وہی فیصلہ کیا جو شریف برادران کے خاندانی مفاد میں تھا۔ سیاسی جماعتیں جب افراد کے ہاتھ کی چھڑی‘ خاندانوں کے جیب کی گھڑی بن جائیں تو پھر وہ کسی اُصول ‘ ضابطے‘ اخلاقی و جمہوری قدر کے تحت نہیں انہی افراد اور خاندانوں کی خوشنودی طبع‘ صوابدید اور مفاد کے مطابق فیصلے اور اقدامات کرتی ہیں ۔ لیبل ان پر خواہ ملکی مفاد کا لگا دیں یا جمہوریت کی بالادستی اور اداروں کے استحکام کا۔ میری رائے میں تو یہ مسلم لیگ کا صائب فیصلہ ہے اپنے مزاج اور شریف خاندان کے مفاد کے عین مطابق ‘کسی کی مرضی مانے یا نہ مانے ؎ خیال زلف دوتا میں نصیر پیٹا کر گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر