تسخیرکائنات اور چاند پر نئی دنیا بسانے میں مصروف انسان ایک کمرے میںمحدود ہو چکا جبکہ آئے روزانسانی عقل کو دنگ کردینے والی سائنسی ایجادات کا سلسلہ ترک اور تمام فوکس’’کرونا‘‘ پر ہے۔کرونا وائرس پاکستان سمیت دنیابھر کو اپنی لپیٹ میںلے چکاہے۔ بازار‘مارکیٹس‘تجارتی مراکز‘تفریحی اور سیاحتی مقامات پر ہوکا عالم ہے۔ دنیا بھر کے سائنسدان تین ماہ سے سرجوڑ کر بیٹھے ہیں مگر تمام تر ٹیکنالوجیکل جدت کے باوجود کرونا کی وبا پر قابو پانے کیلئے کوئی مؤثر دوا دستیاب نہیں۔دنیا بھر میں ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے کہ خودکو گھروں میں محدود کرلیں کہ جو محدود ہے‘ وہ محفوظ ہے۔چند روز ہ لاک ڈاؤن نے انسانیت کو کئی خطرات سے دوچار کردیا ہے۔کرونا وبا اوراس کے تباہ کن اثرات فوری طور پر ٹلنے والے نہیں۔انسانی تاریخ میں جب بھی ایسی وبائیں پھوٹیں جن کے باعث کروڑوں افراد لقمہ اجل بنے ‘ایسے لمحات میں یہ اعزاز بھی انسان کو ہی حاصل ہے کہ اس نے ہمت نہیں ہاری۔وہ اپنے رب کے حضور عرضیاں پیش کرتے ہوئے انسانیت کی بقا کیلئے کوشاں رہا اور پھروبا یاتباہی میں گھرے انسانوں کی مشکلات کا حل تلاش کرلیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسانی معاشرہ مختلف بحرانوں سے نکلتا رہا ہے۔آج پھر انسان کو’ کرونا‘ سے نمٹنے کا چیلنج درپیش ہے۔ رب ذوالجلال انسان کو اس بحران سے نکلنے کی راہ ضروردکھائے گا مگر تب تک اس کی تباہ کاریاں جاری رہیں گی۔اس مشکل کی گھڑی میں ہمیں اپنی ذمہ داریوں پر نظرثانی کرتے ہوئے سسکتی انسانیت کی مدد کیلئے آگے بڑھنا ہوگا۔ گزشتہ دد ہفتوں کے دوران کرونا وائرس سے بچاؤکا موجودہ مؤثر علاج احتیاط اور آئیسولیشن قراردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں مزدوراور ایسے افراد جن کا ذریعہ معاش مختلف چھوٹی چھوٹی معاشی سرگرمیوں کیساتھ جڑا ہواتھا‘مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے ۔ شہروں میں بالخصوص گھروں میںکام کرنے والے مردوخواتین کو رخصت پر بھیج دیا گیاہے۔ دیہاڑی دار مزدور کا کام مکمل طور پر بند ہوچکا۔آئن لائن سروس کے ذریعے مختلف خدمات فراہم کرنے والے افراد بے روزگارہوچکے ہیں۔ بڑے شہروں میں موٹر سائیکل اور نجی ٹرانسپورٹ سروس سے منسلک 50لاکھ سے زائد افراد فاقہ کشی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہی صورتحال دیگر شعبوں کی ہے ۔ حکومت دستیاب وسائل کے مطابق غریب عوام کیلئے پیکیج کا اعلان کررہی ہے مگر یقین جانیے جس المیے سے عوام دوچار ہیں ‘حکومت کسی صورت ان کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی۔ حکومت کی نیت اور اقدامات پر کوئی شک نہیں مگر وسائل‘ منصوبہ بندی اور استعدادکار کافقدان اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت صرف کرونا وائرس کے مریضوں کیلئے آئیسولیشن سنٹرزاورامدادی پیکج کے ذریعے ہی عوام کے زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہے۔ ملک بھر میں جاری لاک ڈاؤن کے بعدغریب عوام کی تکالیف میں کمی کی حقیقی ذمہ داری صاحب ثروت افراد پر آن پڑی ہے جوکرونا سے زیادہ خطرناک چیلنج’ بھوک‘ سے نمٹ سکتے ہیں۔حکومت اور صاحب ثروت افراد مل کر ہی کرونااور اس کی تباہ کاریوں کو شکست دے سکتے ہیں۔ دونوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے بہترین منصوبہ بندی اور فراخدلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان میںسیلاب ہو یا زلزلہ کی تباہ کاریاں‘ہردور میں حکومتوں کو وسائل کی کمی کاسامنا رہاہے۔ ظاہر ہے جب ملکی معیشت قرضوں کے وینٹی لیٹر پرہوتو اضافی وسائل تو کسی صورت دستیاب نہیں ہوسکتے ۔ مگر ہر دور میں عوام اور عالمی اداروں نے حکومتوں کی بھرپور مدد ضرورکی ہے۔تاہم اس موقع پر دستیاب وسائل کے بہترین اور شفاف استعمال پر خصوصی توجہ درکار ہے۔ زلزلے اور سیلاب کے تباہ کاریوں کے دوران متاثرین کی امداد کیلئے ملنی والی اشیاء سرکاری افسران اور ملازمین کی جانب سے اپنے پیاروں میں بانٹنے کی خوفناک روایت موجود ہے۔دوماہ قبل بینظیرانکم سپورٹ پروگرام پر سرکاری افسران اوران کے اہل خانہ کا اربوں روپے کے ڈاکے کا سکینڈل تو زیادہ پرانا نہیں۔لہٰذا ایسی بے حسی اور سنگین وارداتوں کا خاتمہ وقت کی اہم ضرور ت ہے۔قدرت نے وزیراعظم عمران خان کوسیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے بکھری ہوئی قوم کو یکجاکرنے کاسنہری موقع عطا کیا ہے۔ ایسے میں تمام سیاسی جماعتوں کیساتھ مشاورت ‘اتحاد اور تنظیم کی عملی تصویر پیش کرتے ہوئے عوام کے دکھوں کا مداواکرناممکن ہے۔ آج کل سرکاری اداروں کودھڑا دھڑ فنڈز کی فراہمی جاری ہے مگر افسران اور ملازمین کو حکام بالاکی جانب سے کڑی ہدایت کی ضرورت ہے تاکہ ماضی کی ’واردات‘ دوبارہ نہ ڈالی جاسکے۔ کروڑوں روپے کے فنڈز اورپروکیورمنٹ کرنے والوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔وفاقی حکومت کو فنڈز کی اشد ضرورت ہے ۔ وزیراعظم کی ہدایت پر گزشتہ ایک ماہ کے دوران 25ارب روپے کے صوابدیدی فنڈز کے تحت سوئی نادرن‘ سدرن اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو اربوں روپے جاری کئے گئے ہیں ۔ یہ فنڈز کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں موجود ہیں۔جن سکیموں کیلئے فنڈز جاری ہوئے موجودہ حالات میں ان پر کسی صورت کام شرو ع نہیں ہوسکتا لہٰذا یہ رقم فوری طورپر واپس لے کرعوام کی مشکلات کم کرنے اور غریب افراد میں تقسیم کرنے کا شفاف بندوبست کیا جائے۔دوسری جانب ہم سب پر اجتماعی ذمہ داری عائد ہوچکی ہے کہ اپنے آس پاس جاننے والوں کی مدد کیلئے آگے بڑھیں ۔آپ کا دیا گیاراشن یا تھوڑی سی نقدی بہت سے خاندانوں کو نئی زندگی بخش دے گی۔کریانہ سٹورز سے راشن بیگ تیار کرواکر ایسے خاندانوں کے گھروں پرلازماً پہنچانے چاہئیں۔ بحرانوں اورچیلنجزسے حکومت نہیں قوم نبردآزما ہو کر کڑے امتحان سے نکلنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔عظیم سبز ہلالی پرچم تلے اکٹھے ہو کر‘ سیاسی اختلافات اور بغض وعنادکو پس پشت ڈال کراجتماعی احساس ذمہ داری سے آگے بڑھیں توکوئی وائرس اس عظیم قوم کو شکست نہیں دے سکتا۔شرط صرف ایک کہ حق حقدار تک۔