انسان کو حیوانِ ناطق کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دوسرے جان داروں کے بر عکس زبان سے بول کر اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کر سکتا ہے ۔ زبان کی قوتِ گویائی اُن نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جو بنی آدم کو امتیازی طور پر عطا کی گئی ہیں۔ جس طرح ہرانعامِ خداوندی کے تشکر کا ایک عمدہ اظہار اس نعمت کا مثبت اور اعتدال پسندانہ استعمال ہے اسی طرح قوتِ گویائی کا بھی مثبت اوردرست استعمال ہی پسندیدہ قرار دیا گیا ہے ۔ اصطلاح ’’کم گوئی‘‘ فارسی ترکیب ہے جس کا متبادل عربی میں اَلتَّکَتُّمْ، انگریزی میں Reticence ہے اور اردو میں اس کا مفہوم کم بولنا، سوچ سمجھ کر گفتگو کرنا اور زبان کی حفاظت ہے ۔ زبان کی حفاظت کرنا اور بولنے میں احتیاط سے کام لینا کس قدر اہم ہے ، اس کا اندازہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بخوبی کیا جا سکتا ہے : مَایَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ۔(ق: 18) یعنی انسان جو بات بھی منہ سے نکالتا ہے اس کو محفوظ کرنے کے لیے ایک مستعد نگران ہمہ وقت تیار رہتا ہے اور اس بات کو محفوظ کر لیتا ہے ۔ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ جو الفاظ اس نے کہے ہیں وہ ہوا میں بکھر گئے اور اب اس کی بات کہیں محفوظ نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس سوچ کی نفی کرتا ہے اور ہمیں تنبیہ کر رہاہے کہ ہم جو بات بھی کریں، خوب سوچ بچار کے بعد کریں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے ہے کہ آپ کو جوامع الکلم عطا فرمائے گئے ۔ جوامع الکلم کا معنی ایسا کلام جس کے الفاظ کم ہوں مگر معانی کے اعتبار سے بہت وسیع ہو اور اس میں آفاقی حقیقتیں بیان کی گئی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جوامع الکلم کا عطا کیا جانا بھی اشارۃً تقلیلِ کلام کی پسندیدگی اور قبولیت ظاہر کر رہا ہے ۔ ہمارے ہاں معروف مقولہ ہے کہ پہلے تولو پھر بولو۔ اہلِ حکمت کے ہاں مشہور جملہ ہے کہ کم کھانا صحت، کم بولنا حکمت اور کم سونا عبادت ہے ۔ کتبِ حدیث میں’’حفظ اللسان‘‘کے عنوان سے آئمہ حدیث نے باقاعدہ ابواب قائم کیے ہیں۔ اس عنوان سے ہی یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ خاموش مزاجی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بالکل خاموشی اختیار کر لی جائے بلکہ میانہ روی سے گفتگو کرنا اور اچھا بول بولنا زبان کی حفاظت کے زمرے میں آتا ہے ۔ زبان کو قابو میں رکھنا ایک مسلمان کے مسلمان ہونے کا حُسن ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من حسن اسلام المرء ترک مالایعنیہ، یعنی آدمی کے اسلام لانے کا حسن اس بات میں ہے کہ ہر لا یعنی اور بے فائدہ قول و فعل کو ترک کر دے ۔(جامع ترمذی) ایک مرتبہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ مجھے نصیحت فرمائیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ زیادہ تر خاموش رہنے کو لازم پکڑو کیوں کہ یہ عمل شیطان کے حملوں سے نجات دینے والا اور دینی امور میں معاون ہے ۔ اس نبوی نصیحت سے معلوم ہوا کہ شیطان کے حملوں سے بچاؤ اور دینی معاملات پر کاربند رہنے کے لیے کم گوئی ایک بہترین حربہ ہے ۔ ہم میں سے ہر کوئی سلامتی اور نجات کا خواہش مند ہے مگر یہ کیسے حاصل ہو سکتی ہے ؟ اس کا طریقہء حصول بھی ہمیں بارگاہِ رسالت ﷺسے ملتا ہے کہ کم گوئی میں سلامتی اور نجات ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ صَمَتَ نَجَا، کہ جس نے (لایعنی کلام سے ) خاموشی اختیار کی وہ نجات پا گیا۔ ایک اور موقع پر حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! نجات کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اَملِک علیک لسانک، یعنی گفتگو میں اپنی زبان کو قابو میں رکھو، نجات پا جاؤ گے ۔(جامع ترمذی) ہمیں ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بولنے اور خاموش رہنے میں ترجیح بھی سکھائی ہے اور اسے ایمان کا حصہ قرار دیا ہے ۔ خیر کی بات، بھلائی کا کلمہ اور مثبت و تعمیری کلام کرنا خاموش رہنے سے بہتر ہے ، جبکہ فضول کلام، لایعنی و غیر متعلق باتوں اور مبنی بر شر گفتگو سے خاموش رہنا افضل ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے ۔(صحیح بخاری) اعضائے بدنیہ میں سے زبان ہی وہ عضو ہے جس سے سب سے زیادہ گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ابنِ آدم کی اکثر خطائیں اس کی زبان میں ہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی) جھوٹ، غیبت، فحش گوئی، بہتان تراشی، طعنہ زنی، جھوٹی گواہی ایسے کتنے ہی کبیرہ گناہ ہیں جن کا منبع زبان ہے ۔ لہٰذا ایسے گناہوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کم گوئی اور خاموش مزاجی کا اصول اختیار کیا جائے ۔ کثرتِ کلام نفسیاتی اعتبار سے بھی مضر ہے ۔ جب انسان اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھے اور بغیر غور وفکر کے کلام کیے جائے تو لازمی بات ہے کہ اس سے ایسی لغو باتیں بھی سرزد ہوں گی جن پر اسے بعد میں پچھتانا پڑ سکتا ہے ۔ بارہا ایسا ہونے سے انسان کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کئی طرح کے ناپسندیدہ افعال کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ جبکہ خاموش رہنے اور کم گوئی اختیار کرنے سے انسان نفسیاتی اعتبار سے مضبوط ہوتا ہے اور وسعتِ فکر، پختہ خیالی اور طمانیتِ قلب جیسی دولت نصیب ہوتی ہے ۔ سلف صالحین نے فضول گوئی سے بچنے اور قلتِ کلام اختیار کرنے کا ایک نسخہ یہ بتایا ہے کہ جب بھی گفتگو کرنے لگو تو یہ سوچ کے کرو کہ کل کلاں عدالت میں یا کسی حاکم کے سامنے اس بات کو ثابت کرنا پڑ سکتا ہے ۔ یہ عادت پختہ ہو جانے سے انسان بہت سے لغو کلام سے بچ سکتا ہے ۔ اب یہ بات سائنسی اعتبار سے بھی ثابت ہو چکی ہے کہ فضا میں انسان کی ہر بات کی لہریں موجود رہتی ہیں جن کو مخصوص آلات کے ذریعے گرفت میں لا کر جب چاہے دوبارہ سُنا جا سکتا ہے ۔ قیامت میں جہاں افعال و اعمال کا وزن ہو گا وہیں انسان کے اقوال کا وزن بھی کیا جائے گا اور اسے اس کے مطابق بدلہ ملے گا۔اس لیے ہر وقت یہ کوشش ہونی چاہیے کہ کم بولیں اور مثبت ہی بولیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ اجمعین۔