کورونا کی مہلک وبا سے پاکستان میں مزید 14افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ جس کے بعد اموات کی تعداد 6601ہو گئی ہے۔ اسلام آباد کے مزید 2تعلیمی اداروں کو 5کورونا کیسز کی تصدیق پر بند کر دیا گیاجبکہ کورونا وار کے پیش نظر فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لئے حکومت پاکستان نے سخت احتیاطی اقدامات کئے تھے، جس کے بعد پاکستان ایسی تباہی سے بچا رہا،جو اس موذی وائرس نے ہمارے پڑوسی ممالک بھارت‘ایران ‘چین سمیت یورپی ممالک اور امریکہ میں پھیلائی۔حکومت پاکستان نے ہیلتھ ایمرجنسی کا نفاذ کر کے ہر قسم کے امتحانات اور 23مارچ کی پریڈ پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔اس کے علاوہ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں‘ عدالتوں‘ شادی ہالز، سینما گھر‘ مارکیٹوں اور بازاروں کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔ جس کے باعث وائرس پھیلنے سے رک گیا۔ سخت لاک ڈائون کے دوران نہ صرف عوام نے حکومتی ایس او پیز پر کماحقہ عملدرآمد یقینی بنایا بلکہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی خطرات کو بھانپ کر احتجاجی جلوسوں اور دھرنوں سے گریز کیے رکھا۔ اس دوران مساجد‘مدارس اور علماء کرام نے بھی حکومت کا بھر پور ساتھ دیا،یہی وجہ تھی کہ ہم اس آزمائش کی گھڑی میں سرخرو ہوئے۔ اب بھی امریکہ اور بھارت سمیت کئی ملکوں میں کورونا وائرس تھمنے کا نام نہیں لے رہا جبکہ سپین‘ فرانس اور جرمنی میں اس موذی وائرس کی دوسری لہر بھی آ چکی ہے۔ حکومت پاکستان نے جو لائحہ عمل تشکیل دیا تھا، اس سے کورونا پر ہم نے قابو پایا،22کروڑ کی آبادی میں2سے تین افراد روزانہ اس موذی وائرس کے باعث انتقال کر رہے تھے،جس کے بعد حکومت اور عوام دونوں مطمئن تھے ۔اب عوام نے ایک بار پھر بے احتیاطی شروع کر دی ہے۔ مذہبی اور سیاسی اجتماعات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ سکولز ‘ کالجز‘ یونیورسٹیوں اور بازاروں میں وہی معمول کا کاروبار شروع ہے حالانکہ حکومت پاکستان نے تعلیمی اداروں کو کھولنے اور کاروباری سرگرمیاں شروع کرنے سے قبل ایس او پیز جاری کئے تھے،جس کے مطابق ہاتھوں کو دھونا‘مناسب فاصلہ رکھنا‘ماسک پہننا شامل تھا۔ بدقسمتی سے عوام نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی۔ جس کے بعد کورونا کیسز پھر سے بڑھ رہے ہیں۔ اس وقت مظفر آباد میں کورونا کے مثبت کیسز سب سے زیادہ ہیں۔کراچی میں کورونا کیسز کی سطح بلند ہوتی جا رہی ہے جبکہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی متعدد کیس سامنے آ چکے ہیں۔ قومی سطح پر کل کورونا کیسز کی شرح 2.372فیصد تھی جو گزشتہ 50دنوں میں مثبت کیسز کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ آخری بار یہ شرح 23اگست کو سامنے آئی تھی۔ رواں ہفتے کے پہلے چار دنوں میں روزانہ گیارہ اموات کی شرح ہے جبکہ گزشتہ روز 14افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ جو اگست کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ان حالات میں اپوزیشن جماعتیں بھی جلسے جلوس کر رہی ہیں۔ صاف ظاہر ہے اتنے بڑے مجمع میں ایس او پیز پر عملدرآمد ہو سکتا ہے،نہ ہی ہر کسی کو ماسک پہننے اور تین فٹ فاصلہ رکھنے کا پابند بنایا جا سکتا ہے۔ اس لئے اپوزیشن رہنمائوں کو خود ہی اپنی ادائوں پر غور کرنا چاہیے۔ خدانخواستہ اگر کورونا کیسزبڑھنا شروع ہو گئے تو انہیں کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ اپوزیشن رہنما خود تو حفاظتی تدابیر اختیار کر لیں گے۔ سٹیج پر مناسب فاصلہ بھی رکھ لیا جائے گا لیکن سٹیڈیم میں موجود عوام سے ایس او پیز پر عملدرآمد کون کروائے گا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے اپیل کی ہے کہ عوامی اجتماعات سے اجتناب کیا جائے۔ عوامی اجتماعات میں ان ڈور اور آئوٹ ڈور میں لوگوں کی شمولیت بارے بھی انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ان ڈور تقریب میں زیاہ سے زیادہ 500افراد شریک ہوں اور تقریب کا دورانیہ بھی تین گھنٹے سے زیادہ نہ رکھا جائے‘ اسی طرح آئوٹ ڈور تقریب میں کرسیوں کے درمیان کم از کم فاصلہ تین فٹ کا ہونا چاہیے۔ جس میں بچوں اور بزرگوں کو قطعاً شریک نہ کیا جائے۔اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں میں تو ایس او پیز پر قطعی عملدرآمد نہیں ہو گا۔ اس لئے سیاسی رہنمائوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد میں سوائے بلاول بھٹو زرداری کے سبھی بزرگ ہیںجبکہ ان رہنمائوں میں متعدد کورونا وائرس کا شکار بھی ہو چکے ہیں، وہ اس وائرس کی اذیت اور مشکل سے بھی آگاہ ہیں،اس سے انہیں عوام الناس کو گھروں سے باہر نہیں نکالنا چاہیے۔ سیاست کے دن ختم ہو رہے ہیں نہ ہی جلسوں سے کبھی حکومتیں ختم ہوئی ہیں۔اس لئے اپوزیشن جماعتیں اپنے کارکنوں کو آزمائش میں ڈالنے کی بجائے جلسوں کو موخر کر دیں ،جیسے ہی حالات معمول پر آئیں تب اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کر لیں۔ حکومت بھی شادی بیاہ کے اجتماعات میں ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنائے۔ پولیس کو متحرک کیا جائے،اس کے علاوہ ٹائیگر فورس کو بھی بازاروں‘ ریسٹورنٹس اور شادی ہالز میں حفاظتی انتظامات کا جائزہ لینا چاہیے، حکومت نے جب سے نگرانی ختم کی ہے تب سے عوام نے بھی ایس او پیز پر عملدرآمد چھوڑ دیا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر کے سختی سے اپنی رٹ قائم کرے۔ خدانخواستہ اگر کورونا کی دوسری لہر نے پاکستان میں تباہی پھیلا دی، تو ہماراہیلتھ سسٹم جو پہلے ہی کمزور ہے وہ اس بوجھ کو برداشت کر سکے گا اورنہ ہی حکومت اس وائرس کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گی۔ اس لئے اپوزیشن جماعتیں، عوام‘تاجر‘طلبا، اساتذہ اور عام مزدور بھی اپنے اپنے طور پر ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔