کل ایک شخص کی 15ویں برسی تھی،ایک طرف وہ اپنے قبیلے کا سخت سردار تھا۔ دوسری طرف اس کی پارٹی کا نام ’’جمہوری وطن پارٹی‘‘ تھا۔ اب کوئی بتا سکتا ہے کہ جمہوریت اور سرداری کے درمیان کون سی چیز مشترک ہے؟ جمہوریت توسرداری اور جاگیرداری کی جڑ کو کاٹنا چاہتی ہے۔سردار اور جاگیردار جمہوریت سے فطری طور پر نہ صرف خائف ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے عمل سے اس نظام کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ مگر اس شخص کو اپنی پارٹی کا یہ نام اچھا لگا۔ وہ شخص جس کی پارٹی بلوچستان تک محدود تھی۔وہ شخص جس کی نہ صرف ذاتی بلکہ سیاسی پارٹی کی طاقت کا سبب اس کا بگٹی قبیلہ تھا۔ اب کچھ حالات میں بہت معمولی سا فرق پیدا ہونا شروع ہوا ہے، ورنہ ان کی زندگی میں بھی سردار نہ صرف ان پڑھ اور پہاڑی بگٹی افراد کے لیے حرف آخر تھا بلکہ اس کا حکم ماننے والوں میں وہ افراد بھی شامل تھے جو باہر سے پڑھ کر آتے تھے۔ جو انگریزی میں گفتگو کرتے تھے۔ جو مارکسزم پر تھیسز لکھتے تھے۔ جو بین الاقوامی تعلقات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ بھی جب عام لوگوں کے سامنے سردار سے ملتے تھے تو ان کا انداز بھی عام افراد سے مختلف نہ ہوتا تھا۔ وہ سب سردار کے سامنے سر جھکاتے تھے۔ وہ سب سردار کے برابر بیٹھنے کا تصور نہیں کرتے تھے۔ مگر وہ شخص کوئی عام سردار نہیں تھا۔ وہ بلوچ لباس میں ایک انگریز تھا۔ وہ ستر سال کی عمر میں بھی کرکٹ کھیلا کرتا تھا۔ وہ ایک ماہر تیراک تھا۔ اس کا نشانہ بہت اچھا تھا۔ اس کی انگلش کی تعریف غیرملکی صحافی بھی کرتے تھے۔ وہ ڈیرہ بگٹی کے پس ماندہ علاقے میں رہتا تھا مگر اس کے پاس اپنا مخصوص ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ اس ریڈیو پر وہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ سے لیکر ماسکو نیوز تک ہر ملک کی خبر سنا کرتا تھا۔ وہ مقامی حالات پر نظر رکھنے کے لیے بلوچستان کے صوبائی اور ملک کے قومی اخبارات کے ساتھ ساتھ عالمی حالات کو سمجھنے کے لیے ٹائم اور نیوز ویک کے شمارے بھی منگواتا تھا۔ اس کے پاس بہت اچھی لائبریری تھی۔ اس کے مطالعے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی کتاب ہوا کرتی تھی۔ وہ ہمیشہ قالین پر بیٹھتا۔ وہ اپنی برادری کے فیصلے کرتا۔ اس کے علاقے میں کسی کو مجال نہ تھی کہ کسی کے ساتھ زیادتی کرے۔ یہ بات پنجاب کے دوستوں کے لیے خاص دلچسپی کا باعث ہوگی کہ اس کے علاقے میں ایسے ہندو بھی رہا کرتے جو بلوچی بولتے تھے۔ ان کا لباس اور ان کا اٹھنا بیٹھنا بلوچی ہوا کرتا تھا۔ ان ہندو بگٹیوں میں ا یک سے ایک تاریخ کا ماہر تھا۔ ان کے گھر اور ان کے کاروبار ہمیشہ محفوظ رہے۔ ان سب کے لیے وہ شخص تحفظ کی علامت تھا۔ وہ شخص جس کا نام اکبر بگٹی تھا۔ اکبر بگٹی پہلے بلوچستان کا وزیر داخلہ بنا اور پھر صوبے کے گورنر بھی رہا۔ وہ بلوچستان کے دیگر سرداروں سے مختلف تھا۔ وہ نہ صرف عام سرداروں سے الگ انداز کا مالک تھا بلکہ جو بلوچستان کے سیاسی سردار تھے ؛ جن میں خیر بخش مری یا عطاء اللہ مینگل یا جنرل شیروف وغیرہ تھے، ان کے الگ قسم کے نظریات بھی تھے مگر نواب اکبر بگٹی ان سب کے مقابلے میں اقتدار کے کاریڈور کے قریب رہے۔ وہ عملی سیاست کے ماہر تھے۔ انہوں نے پوری زندگی اپنی مرضی اور اپنے اصولوں میں گزاری۔ جو لوگ اکبر بگٹی کو جانتے ہیں ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ اکبر بگٹی جوانی میں پاکستان کا سب سے بڑا حامی تھا۔ان کے لیے وہ دن زندگی کا سب سے یادگار دن تھا جب قائد اعظم بلوچستان آئے اور اکبر بگٹی کو ان سے مصافحہ کرنے کا موقعہ ملا۔ ان کے لیے وہ دن زندگی کاسب سے یادگار دن رہا۔اکبر بگٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان عجیب رشتہ تھا۔ وہ ایک دوسرے کے بے تکلف دوست بھی تھے اور ان کو ایک دوسرے سے سیاسی اختلافات بھی تھے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ نواب اکبر بگٹی کی نظر میں سردار ہونا بہت بڑی بات تھی۔ جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق کسی مڈل کلاس خاندان سے نہیں تھا۔ وہ بھی بہت بڑے زمیندار تھے۔ ان کے پاس تا حد نظر زمین تھی اور ان کے والد کا اثر ورسوخ بہت زیادہ تھا۔ ان کے والد کا سندھ کی سیاست میں اچھا خاصا اثر تھا ۔ جب کہ مسٹر بھٹو اپنے والد سے بہت آگے گئے۔ وہ نہ صرف پاکستان کے مشہور اور مقبول لیڈر بنے بلکہ انہوں نے عالمی سطح پر بھی اپنے آپ کو منوایا۔ اس حوالے سے نواب اکبر بگٹی ان سے متاثر تھے ،وہ ایک دوسرے کے دوست رہے۔ نواب اکبر بگٹی جس نے جوانی میں پاکستان سے غیرمشروط محبت کی، وہ بڑھاپے میں ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں کی طرف کیوں نکل گئے؟ اس سوال کے بارے میں ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ نواب اکبر بگٹی اچانک بغاوت کے راستے پر نہیں چلے تھے۔ انہوں نے کافی وقت سے وفاقی حکمرانوں سے اختلافات رکھے اور جب وہ بلوچ قومپرستی کے سلسلے میں انتہا پسندی کے جانب بڑھنے لگے تب ہمارے ملک میں ایسے لوگ نہیں تھے جو انہیں مناتے اور قومی دھارے میں واپس لاتے۔ پنجاب کے حوالے سے کبھی کبھار تو ان کی باتوں میں بہت سختی ہوا کرتی تھی۔ مگر اس کے باوجود یہ ایک بہت ہی عجیب بات ہے کہ ان کے سب سے زیادہ ذاتی دوست پنجاب سے تھے۔ جب وہ اکبر بگٹی اختلافات کے حوالے سے بہت آگے نکل گیا تھا ،اس وقت ان کو منانے والوں میں پنجاب کا وہ وفد شامل تھا ،جس چودھری شجاعت بھی شامل تھے۔ میں نہیں جانتا کہ ہم اس قابل کب بنیں گے کہ اپنی ملکی تاریخ کے بارے میں کھل کر بات کریں اور ایک دوسرے کو سمجھیں اور سمجھائیں کہ آخر وہ کون سے اسباب اور کیسے حالات تھے ،جن کے باعث جی ایم سید سے لیکر اکبر بگٹی تک پاکستان کے قیام میں عملی طور پر شامل افراد اور پاکستان کے بیحد پیار کرنے والے کردار ملک مخالف باتیں کیوںکرنے لگے؟ اس کا سبب کیا تھا؟ کیوں وہ اپنے ماضی کے مخالف ہوگئے؟جی ایم سید کا تعلق تو تاریخ کے الگ دھارے سے تھا۔ مگر اکبر بگٹی تو پاکستان کے لیے اپنی جان نچھاور کرنے کے جذبے سے سرشار تھے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ انہیں عمر کے اس موڑ پر چند ساتھیوں کے ساتھ اپنے گھر سے نکل کر پہاڑوں کا رخ اختیار کرنا پڑا!؟ بھارت کو یہ بات بہت پسند تھی کہ نواب اکبر بگٹی نے بغاوت کا پرچم بلند کیا تھا۔ ان سے بات ممکن تھی کہ وہ مان جاتے۔ وہ واپس لوٹ آتے۔ مگر ہمارے حکمرانوں میں انا بہت رہی ہے۔ یہ مفادات کے کم اور اناؤں کے ٹکراؤ زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے ملک اور قوم کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔رواں ماہ کی 26 اگست کو جب سوشل میڈیا پر اکبر بگٹی کی برسی کے بارے میں مختلف خیالات کا اظہار جاری تھا تب فقیر منش بلوچ سیاستدان حاصل بزنجوگزرے ہوئے چند دن ہوئے تھے۔ اس وقت مجھے شدت کے ساتھ محسوس ہوا کہ بلوچستان اپنے بہترین اور باصلاحیت بیٹوں سے محروم ہو رہا ہے۔ فیض صاحب جب ڈھاکہ سے لوٹ رہے تھے تب انہوں نے سفر کے دوران جس غزل کو تخلیق کیا وہ آج بھی بڑی محبت اور دکھی دل سے سنا جاتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ جب اکبر بگٹی کو منانے کے لیے پنجاب سے آنے والا وفد دکھی دل کے ساتھ واپس جاتا ہوگا تو اس وفد میں شامل کسی فرد کے دل میں تو وہ الفاظ ابھرے ہونگے جنہیں سروں میں سجا کر اقبال بانو نے گایا ہے: ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد کب بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد اس وقت پورے ملک کی طرح بلوچستان کے پہاڑوں پر شدید بارش جاری ہے۔ نواب اکبر بگٹی کی زندگی کا اختتام ان پہاڑوں کی ایک غار میں ہوا تھا۔ کاش! کوئی مذکورہ غزل کے اس شعر کی گہرائی کو دل سے محسوس کرے: کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد