زندگی عمل ہے لیکن عمل کا آغاز کیا دعا اور یکسوئی سے نہیں ہوتا؟ 17دسمبر 1971ء کی وہ خوں ریز شام، جب پاکستان کا پیکر دو حصوں میں کاٹ دیا گیا۔ دوسروں کی طرح اس آدمی کے دل پر بھی ایک کچل ڈالنے والی بھاری پتھر کی طرح گری تھی لیکن وہ شام اسے ہلاک نہ کر سکی۔ وہ دوسروں سے بہت مختلف تھا۔ اپنے مالک سے اس نے اپنی جان کا سودا کر لیا تھا۔ نہیں، وہ ایسا نہیں تھا کہ اس کے گرد روشنی کا ہالہ ہو اورخلقِ خدا اس کے ہاتھ چومنے کو ٹوٹی پڑتی ہو۔ وہ تودوسروں جیسا ایک آدمی تھا،پنجاب کے ایک دور افتادہ گاؤں کا مکین۔ اگرچہ اس نے کالج میں بارہویں جماعت تک تعلیم پائی تھی لیکن پھر اسے کثرت سے نوافل پڑھتے اور قرآن کی آیات تلاوت کر تے دیکھا جانے لگا۔۔۔۔رفتہ رفتہ، بتدریج اس پر سرمستی کی کیفیت طاری ہونے لگی۔ کبھی اسے برہنہ پا دیکھا جاتا اور وہ قریہ قریہ گھومتا۔۔ چھوٹی بڑی مسجدوں میں، گھروں اور چوپالوں میں، جہاں کہیں لوگ اس کے گرد جمع ہو جاتے اور فرمائش کرتے تو وہ دھیمے لیکن محکم لہجے میں قرآن پڑھتا اور آیات میں چھپے اسرار پہ گفتگو کرتا۔۔۔کتاب کے اوراق پر اس کے آنسو گرتے۔ اب وہ نصف رات تک جاگتا رہتا اور صبحِ کاذب کے بطن سے صبحِ صادق کے نور پھوٹنے سے کچھ دیر پہلے پھر سے جاگ اٹھتا۔ وہ رمضان المبارک کے منور دنوں کے سوا بھی روزے رکھتا اور اس کے لہجے میں نرمی پڑھتی گئی لیکن وہ اب بھی ایک عام سا آدمی تھا۔ اس پر گاہے کوئی شام اس طرح اترتی کہ اس دل کے چراغ کی لو ڈوبنے لگتی اور کبھی کوئی سحر اس طرح نمودار ہوتی کہ وہ ایک پرندے کی طرح پرواز کا آرزو مند ہوتا۔ ہاں! اس میں پرندوں کی سی ایک بات تھی۔ جب رزق مہیا ہوتا تو وہ ضرورت کے لقمے کھا لیتا اور جب ایسا نہ ہو تو مسجد کی ٹونٹی سے پانی پی کر عبادت گاہ میں سو رہتا۔ اس کے تفکرات اور اس کی مسرتیں بدل گئی تھیں۔۔۔اس نے اپنے مالک سے اپنی جان کا سودا کر لیا تھا۔ پھر ایک شب اس نے خود کو گہرے، توڑدینے والے اضطراب میں پایا۔ رسول اللہﷺ کی امت کی حالتِ زار پر وہ رویا اور اس نے خدا سے فریاد کی۔ ایک بے پناہ دکھ، ہلاک کرنے دینے والا ایک غم اس کی رگ رگ میں تھا اور ابل رہاتھا۔ معلوم نہیں، کیوں اور کیسے،بے ساختہ اس نے خود کو دہائی دیتے ہوئے پایا۔ نصف شب کے سناٹے میں، جب ساری زمین پر زندگی سوئی پڑی تھی اور وہ اپنے خدا کے ساتھ تنہا تھا، سسکیوں کے درمیان اس نے دعا کی ’’اے میرے خدا! اے تقدیریں لکھنے اور تقدیریں بدلنے والے رب! پاکستان کو زخمی کرنے والوں کے مددگار ملک کو برباد کر دے۔ اے قادرِ مطلق! تیرا یہ حقیر اور عاجز بندہ تجھ سے وحشی سویت یونین کے حصے بخرے مانگتا ہے۔ اے مالک! روسیوں کو ہیضے کے مارے گاؤں کے خربوزوں کی طرح سستا کر دے‘‘۔ وہ روتا اور فریاد کرتا رہا حتیٰ کہ سوئی ہوئی زندگی جاگ پڑی۔ کھیتوں، راستوں، گھروں، کارخانوں اور دفتروں میں رونے بسورنے، ہنسنے اور ٹھٹھا کرنے لگی۔ اس کے بعد، اس پراسرار رات کے بعد، اس کی جان پر کوئی سورج اس طرح طلوع نہ ہوا کہ اس نے ا پنی دعا بار بار نہ دہرائی ہو’’اے خدا! روسیوں کو ہیضے کے مارے گاؤں کے خربوزوں کی طرح سستا کر دے‘‘ گھروں، دفتروں، راستوں اور کارخانوں میں زندگی ہنستی، روتی، انتظار اور سوال کرتی رہی۔ چہروں اور دلوں پر وقت اپنی تحریر رقم کرتا رہا اور گزرے ہوئے مہ و سال اس کے سر میں سفیدی بن کر اترنے لگے۔ اب وہ چوڑی چھاتی والا ایک جوان آدمی نہ تھا، جس کے چہرے اور لہجے کی بشاشت کہانی کہتی ہے لیکن اب زیادہ لوگ اس کے پاس آتے۔ وہ اس سے دعا کی درخواست کرتے۔ اپنے گھروں اور مسجدوں میں اسے قرآن سنانے کو مدعو کرتے۔۔۔کتاب کے اوراق پر اس کے آنسو گرتے رہتے اور وہ اپنی دعا دہراتا۔۔۔’’اے خدا! اے سب ستاروں، آسمانوں اور زمینوں کے مالک، روسیوں کو ہیضے کے مارے گاؤں کے خربوزوں کی طرح سستا کر دے‘‘ پھر اسے حجاز میں دیکھا گیا۔ پروردگار کے پہلے گھر میں، جہاں دعائیں باریاب ہوتی ہیں۔ شکنوں والے اسی سادہ لباس میں، اسی دھیمے لہجے میں وہ اپنی دعا دہراتا رہتا۔ ’’اے خدا! روسیوں کو ہیضے کے مارے گاؤں کے خربوزوں کی طرح سستا کر دے‘‘۔ اور یہ وہ وقت تھا، جب افغان بچے ہجرت کے سفر میں برفانی بلندیوں پہ مر رہے تھے اور کھلونا بمبوں سے قتل ہو رہے تھے۔ سفید ریشمی ملبوس والے چوکور کمرے کے سامنے طواف کرنے والے ہجوم سے بے نیاز، ساری زمین اور ساری مخلوق سے بے نیاز، وہ دعا کے الفاظ دہراتا رہا۔ سرگوشی کے انداز میں، سسکیوں کے درمیان، وہ بے آواز آنسوؤں سے روتا رہا۔ پانی کے قطرے اس کی پلکوں سے چہرے اور چہرے سے پیرہن پر گرتے رہے۔ وہ سفید کفن جیسا پیرہن! ایک نما ز سے دوسری نماز کے درمیان، کامل ایک پہر تک وہ گریہ کرتا رہا اور کیا عجب ہے کہ اسی حال میں رات کی سیاہی اس پر اترنے لگتی لیکن پھر کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’۔۔۔۔تمہاری دعا قبول ہوئی، تم دیکھو گے اور ہم نہیں دیکھ پائیں گے۔‘‘ وہ اسی قبیلے کا ایک دوسرا آدمی تھا۔ وہ آدمی جس کی بھنویں سفید ہو گئی تھیں اور جس نے زمین کے سینے پر پون صدی اس نجابت اور ایسے بے نیازی سے گزاری کہ بیان کرنے والا بیان نہ کر سکے۔ جب سویت یونین، روئے زمین کی سب سے بڑی فوج کا ملک،خود اپنے بوجھ سے مٹی کے بوسیدہ برتن کی طرح ٹوٹ گرا اور جب روسی ہیضے کے مارے گاؤں کے خربوزوں کی طرح سستے ہوگئے تو کیا اس پر پھیلا دینے والے فخر اور گنگ کر دینے والی حیرت کی کوئی ساعت طلوع ہوئی؟ کوئی نہیں جانتا کیونکہ وہ اب بھی کتاب پر جھکا رہتاہے۔ اب بھی اس کے آنسو اوراق پر گرتے ہیں تواس میں نرمی، محبت، روشنی اور امید کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ اور وہ دعا مانگتا ہے ’’اے خدا!امریکیوں کو ہیضے کے مارے گاؤں کے خربوزوں کی طرح سستا کر دے‘‘ زندگی عمل ہے لیکن عمل کا آغاز کیا دعا اور یکسوئی سے نہیں ہوتا؟ ٭٭٭٭٭