صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے ابھی ہفتہ بھر بھی نہ گزرا تھا،اپنے بچپن کا پسندیدہ ڈرامہ۔ دیکھنے کا شوق چرایا۔ ’’دیس پردیس ‘‘ یہی سوچ کار فرما تھی کہ بچپن کی یادوں کو کچھ وقت کے لئے زندہ کیا جائے۔ورنہ زندگی کے جھمیلوں میں اتنا وقت کہاں میسر ہے۔کیا خوبصورت انداز بیاں، چار چاند تو اداکاروں کی اداکاری نے لگا دیئے۔ رشتوں میں دراڑیں کیسی بھی ہوں، پھر بھی رشتے نایاب رہتے ہیں، قیمتی ہوتے ہیں۔صرف ایک مثبت شخصیت، دور اندیش ، پختہ ذہن ہی ایسے جملوں کا ادراک رکھتا ہے۔ چھبیس مارچ نے کیا قہر ڈھایا۔معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین، جنہیں حسینہ آپا کہتے تھے، منوں مٹی تلے جا سوئیں۔ لفظوں کی روشنی سے معاشرے کی حقیقت دکھانے والا ایک اور چراغ بجھ گیا۔ کہانی ہے، تو اتنی ہے،فریب خواب ہستی کی کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے اپنی پیدائش سے قبل کے کئی بلاک بسٹر ڈرامے جن میں ان کہی اور دھوپ کنارے شامل ہیں۔ڈرامہ " انکل عرفی" کے کیا کہنے۔ اور دیگر جنہوں نے عالمی سطح پر دھوم مچائے رکھی۔ دنیا کو پاکستانی ڈراموں کے حصار میں جکڑے رکھا۔ حسینہ آپا کے لکھے ڈراموں کی ایک طویل فہرست ہے جو انمول تھے،ہیں اور رہیں گے۔ بھلا ہو اس جدید ٹیکنالوجی کا جس نے دیس پردیس سمیت ان ڈراموں کو بھی سرچ انجن میں دکھا دیا۔حسینہ معین کی خبر آنے سے قبل ہی دل افسردہ تھا۔ ٹی وی بریکنگ کی شکل میں خبر دے رہے ہیں " معروف جرنلسٹ کنول نصیر انتقال کر گئیں "یہ ضروری نہیں کہ کوئی اپنا جائے تو ہی غم محسوس ہوتا ہے۔ مرحومہ کنول نصیر صاحبہ سے کبھی کوئی ذاتی ملاقات نہ تھی۔جیسی شخصیت کی وہ مالک تھیں وہ سحر میں مبتلا کرنے کو کافی تھی۔ چند سال قبل اسلام آباد قیام کے دوران ایک افطار ڈنر جس میں تمام سینئر، جونئیر صحافی مدعو تھے۔ وہیں دور ایک میز کے گرد موجود صحافیوں کے درمیان بیٹھی مرحومہ کنول نصیر کو دیکھا۔انکی سیاستدانوں سمیت صحافیوں کے ساتھ مصروفیت کی وجہ سے ملنے کی شدید خواہش کے باوجود یہ ناممکن رہا۔ ان کے لئے یہ کہنا سو فیصد درست ہے، ایک ایسی خاتون صحافی جن سے بات کرنے کو جی چاہے۔ اللہ مرحومہ حسینہ آپا اور کنول نصیر کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ کبھی ڈرامہ اور معاشرہ دونوں ہی صاحب کردار ہوا کرتے تھے۔ابھی کیا یہ بھی ناکافی تھا کہ رشتوں کو بگاڑنے، تقدس کو پامال کرنے کے لئے ڈرامہ نگار جو کچھ لکھ رہے ہیں۔ جہاں ماں اور بیٹی ایک ساتھ بیٹھ کر ڈرامہ دیکھنے سے گئیں، جہاں اولاد اپنے ہی باپ کے ساتھ کوئی content دیکھنے سے گئی۔ جس نے ہر عزت دار خاندان کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ وہیں ایک ایسی سیریز جس نے باقاعدہ اگلے مرحلے پر جا کر صحافت سے وابستہ خواتین کو کیچڑ میں لت پت دکھا دیا۔ یہ نہ صرف صحافت بلکہ اس شعبے سے وابستہ ہر خاتون پر "شرمناک حملے" کے مترادف ہے۔اس سے زیادہ ذہنی پستی اور کیا ہو گی ،کہ فاطمہ ثریا بجیا، اشفاق احمد اور حسینہ معین کے پڑھنے والے اب ایسی ویسی کہانیوں کو پسند کر رہے ہیں۔ بے حد غلط انداز میں یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ خواتین کا صحافت میں آنے کا طریقہ کار کیا ہے، صحافت کرنے کا طریقہ کار کیا ہے، اس شعبے میں خواتین اپنا سکہ کیسے منواتی ہیں۔بطور ایک خاتون صحافی کے ایک دہائی سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ سینکڑوں نہ سہی ، درجنوں خواتین کو آتے جاتے اور اس فیلڈ میں خود کو منواتے دیکھا۔ بے حد بھونڈے انداز میں ڈرامے میں خواتین کو مقاصد کے حصول، پرائم ٹائم میں آنے کے لئے کسی بھی حد سے گزرتے دکھایا گیا ہے۔پاکستان کے تینوں بڑے شہر لاہور ،کراچی اور اسلام آباد جہاں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ کافی بڑے میڈیا ہاوسز ہیں۔ ریٹنگ اسکیلز ہیں، سیاست کا محور ہیں اور میرے لئے ان تینوں بڑے شہروں میں کام کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں۔کوئی خاتون صحافی دن بھر کے چوبیس گھنٹے شراب نوشی یا سگریٹ کے دھوئیں میں غرق نہیں دیکھی۔ جیسا ڈرامہ رائٹر نے دکھانے کی کوشش کی۔ہاں، البتہ فیشن انڈسٹری کے بارے یہ سب کہا جا سکتا ہے۔ صحافت کے شعبے سے وابستہ خواتین کی حقیقی محنت اور قابلیت کو کسی لفافہ کا نام دینا قابل مذمت ہے۔ دھوپ گرمی سردی میں خواتیں بھی اسی طرح کام کرتی ہیں جیسے کوئی مرد۔ داد کا مستحق ہے "لفافہ" ڈرامے کا رائٹر، جس نے لفافہ کے ٹیگ کو بڑی مہارت سے مرد کے کندھوں سے اتار کر خواتین کے دوپٹے پر ٹانک دیا ہے۔ اس وقت اپنے کام کا لوہا منوانے والی تقریبا تمام خواتین اپنی محنت کے بل بوتے پر اعلی مقام پر بیٹھی نظر آتی ہیں۔ سوچ کی گراوٹ بھی کس انتہا کو ہے۔ اگر کوئی مرد صحافی کامیاب ہے تو اس کی ذہانت پر عش عش۔ خاتون صحافی کی کامیابی پر شکوک وشبہات اور گمان کہ شارٹ کٹ سے ہی بات بنی ہو گی۔ گمان ہے ڈرامہ نگار بھی شاید ایسی ہی کسی کیفیت میں غرق تھا،جو صحافت کے کپڑوں میں فیشن انڈسٹری کا رنگ بھر گیا۔ کیا یہ بہتر نہ تھا لکھنے والا تھوڑا فوکس اس جانب کرتا کہ کیسے صحافت ہو یا فیشن انڈسٹری خواتین کا استحصال کون کرتا ہے۔ پھر چاہے نوکری ہو یا اختیارات کا لالچ۔ یہ مرد ہی تو ہے جو مجبوری خریدتا ہے۔خواتین ایسے ہی آگے بڑھتی رہیں گی۔صحافت کیا، ہر شعبے میں خود کو منواتی رہیں گی لیکن افسوس، شاید اب ہم اچھے ڈرامہ نگاروں سے محروم ہو گئے۔ مضبوط کرداروں سے محروم ہو گئے۔ اچھے ڈائیلاگ اور مضبوط موضوعات کی بجائے مصالحہ بیچنے والوں کے قائل ہو گئے۔۔ یاد رہے۔ کبھی جو دیوانگی اور دلچسپی قوم کو پاکستانی کہانیوں میں تھی وہ اب ترکی کے ڈراموں اور کرداروں میں نظر آ گئی ہے۔جب تک اس فیلڈ میں کمرشلائز رائٹر موجود رہیں گے ڈرامہ انڈسٹری زوال کا شکار رہے گی۔