افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر معاملہ شناس نکلے۔ برادرم شاہد خان نے مترجم کے فرائض ادا نہ کئے ہوتے تو ہم پشتو میں ان کے جوابات کا مطلب سمجھ نہ پاتے۔ ذبیح اللہ مجاہد امن معاہدے کے سلسلے میں خاصے مصروف تھے بعد میں لیکن ارشاد احمد عارف صاحب اور اسد اللہ کے شو ’’کراس ٹاک ‘‘میں بھی فون پر بات کرتے رہے ان سے جو سوال ہوئے ان کے جواب میں بہت کچھ کہا لیکن دو باتیں خاص طور پر یاد رکھنے کے لائق ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے امن معاہدے کا احترام نہ کیا تو افغان عوام اپنا دفاع کریں گے‘ اسلحہ اٹھائیں گے اور لڑیں گے۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ پاکستان نے امن معاہدے تک پہنچنے کے لئے بہت خلوص اور ایثار سے محنت کی۔ پاکستان کوشش نہ کرتا تو معاہدہ ممکن نہ ہوتا۔ پاکستان میں طالبان کو دو حوالوں سے جانا جاتا ہے۔ ان کی پہلی شناخت پاکستانی علماء کرام کے جہاد پسند شاگردوں کی ہے۔ پاکستان میں کچھ مذہبی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں نے طالبان سے تعلقات کو اس طرح پیش کیا کہ عوام میں طالبان سے انسیت کے بجائے لاتعلقی کا جذبہ پیدا ہوا۔ طالبان کی دینداری اور شجاعت کی کہانیاں جب کبھی سنائی جاتیں عوام ان سے لاتعلق سے رہتے۔ پاکستانی سماج اپنی سوچ کے کئی حوالے جدید دنیا کے مہذب معاشروں کے متوازی رکھتا ہے۔ اس معاملے میں ہم بھارت سے کہیں بہتر ہیں جہاں مذہبی عدم برداشت نے دہلی گجرات اور راجستھان میں مسلم کش فسادات بھڑکا رکھے ہیں۔ ہمارے ہاں بامیان کے دیوقامت مجسموں کو کوئی مذہبی یادگار سے زیادہ ایک ثقافتی اثاثہ سمجھا جاتا ہے لیکن طالبان نے ان کو پوجے جانے والے بت تصور کر کے توڑ ڈالا۔ اہل پاکستان کے سماجی اور ثقافتی تصورات طالبان سے تھوڑے مختلف ہیں۔ اس اختلاف نظر کو ایک مخصوص پروپیگنڈہ نے شدید بنایا۔ پھر تحریک طالبان پاکستان نام کی ایک جعلی طالبان تنظیم نے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کر کے افغان طالبان کی ساکھ مجروح کی۔ طالبان کا دوسرا حوالہ یہ ہے کہ یہ پاکستان کی افغان پالیسی کے محافظ ہیں۔کرنل امام سے رابطہ ان کے بھانجے اشتیاق منہاس کے ذریعے ہوا۔ ان دنوں کرنل صاحب جی ایچ کیو میں ایک فلیٹ کے مکین تھے۔ پختہ عمر ‘بھر پور قدوقامت۔ کرنل صاحب ان دنوں قندھار میں فرائض انجام دے رہے تھے جہاں ملا عمر طالبان حکومت کے امیر المومنین کے طور پر ان سے مسلسل رابطے میں تھے۔ کرنل امام پر ایشیا نیوز جیسے جرائد نے مضامین شائع کئے۔ سرورق پر ان کی تصاویر کے ساتھ لکھا گیا’’طالبان کا بانی‘‘۔ میں نے کرنل امام سے پوچھا تو انہوں نے اقرار کیا۔ طالبان کے ابتدائی دور اور ان کو منظم کرنے کے حوالے سے کرنل امام نے بہت سی باتیں کیں۔ اکثر باتیں ناقابل اشاعت تھیں اس لئے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہن سے اترتی گئیں۔ چند سال ہوئے کرنل امام کو قتل کر دیا گیا۔ آج وہ حیات ہوتے تو اس تاریخی لمحے سے سرور کشید کرتے جب دنیا کی سپر پاور امریکہ نے نان سٹیٹ ایکٹر طالبان سے امن معاہدہ کیا۔ پاکستان کی افغان پالیسی کو دنیا بھر میں سب سے پیچیدہ تصور کیا جاتا ہے۔ افغان حکومت‘ عوام اور وار لارڈز کے ساتھ پاکستان کے تہہ در تہہ تعلقات ہیں۔ ایک گروہ سے ادارے یا شخصیت کے ساتھ مراسم کی نوعیت دوستانہ ہے تو دوسرے گروہ‘ ادارے یا شخصیت کے ساتھ تعلق بدترین دشمنی کا ہو سکتا ہے۔ پھر افغانستان میں مرکزی حکومت کا تصور ہمیشہ غیر مستحکم رہا اس لئے پاکستان نے دنیا بھر میں پھیلے افغان مفادات کو ایک خاص سلیقے کے ساتھ اپنی مٹھی میں رکھا ہے۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی۔ اس جنگ کا پہلا مرحلہ افغانستان میں اتحادی فورسز کا داخلہ اور طالبان اقتدار کا خاتمہ تھا۔ دوسرا مرحلہ طالبان اور پاکستان کے باہمی تعلقات کو سبوتاژ کرنا تھا پاکستان سے طالبان حکومت کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کی گرفتاری سے امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ گرفتاری اس وجہ سے کی گئی کہ طالبان کی نظر میں پاکستان برا بنے۔جنرل پرویز مشرف بہت بولتے تھے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی خاموش طبع تھے۔ دونوں نے افغان پالیسی کو امریکی مداخلت سے بچانے کی کوشش کی۔ امریکہ کا دبائو بہت زیادہ تھا۔ مداخلت ہوتی رہی۔ جنرل راحیل شریف نے سیاسی قیادت کی مدد کے بغیر امریکہ کو افغانستان کے معاملے پر مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ ان کے دور میں افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع ہوا۔ فوج کا کردار جمہوری دنیا میں محدود سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان کے جمہوری حکمران نواز شریف نے وزیر خارجہ کے بغیر چار سال ملک چلایا۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف دہشت گرد گروہ سرگرم رہے۔ سفارت خانے پر حملے ہوئے‘ سرحدوں پر افغان شرپسندوں نے فائرنگ کی لیکن حکومت کچھ کرنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمان سنبھالتے ہی اس معاملے پر توجہ دی۔ آئی ایس آئی چیف‘ سیکرٹری خارجہ اور دیگر اہم شخصیات کے ساتھ افغانستان کے دورے کئے۔ امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں اور افغانستان میں پاکستان کے دوستوں سے رابطے کئے۔ اس مشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کو احساس ہونے لگا کہ وہ دلدل میں دھنس چکا ہے‘ امریکی حکام نے اس خطے میں نئے دوستوں سے مدد طلب کی‘ سب بے بس دکھائی دیے۔ ٹرمپ جیسا حکمران آخر مان گیا کہ پاکستان کی مدد لئے بغیر امریکہ اپنی عزت کی دھجیاں سمیٹ کر افغانستان سے نہیں جا سکتا۔ امن معاہدے میں کئی ایسے نکات شامل ہیں جن پر الگ الگ کالم باندھا جا سکتا ہے۔ طالبان کے بغیر افغان حکومت کی شکل اور اختیار کچھ اورتھا ‘اب اس کی ساخت اور دائرہ عمل تبدیل ہو رہا ہے۔ افغانستان ادارہ جاتی نظم اور حکومت سے نہیں چلتا‘ وہاں طاقت ہی اختیار استعمال کرتی ہے۔ طالبان نے عبوری معاہدے کے دوران اپنے کارکنوں کو کارروائیوں سے روکا تو افغانستان نے چالیس برس بعد مکمل سات روز امن کا منہ دیکھا۔ طالبان نے اپنے موقف میں لچک پیدا کی ہے۔ اس لچک کو بعض لوگ طالبان کی نئی سوچ قرار دے رہے ہیں۔ اشرف غنی حکومت کے ساتھ مل کر امریکہ نے الگ سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے ممکن ہے طالبان انٹرا افغان مذاکرات میں نئے حکومتی بندوبست کا مطالبہ کر دیں۔حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں افغانستان میں پاکستان کا نام لیوا کوئی نہ تھا‘طالبان کی سیاسی قوت اگر ہمارے لئے وہاں پھر سے گنجائش بنا سکے تو یہ اہم سٹریٹجک فائدہ ہو گا۔