کوئی پتھر اور پہاڑ نہیں ، شریعت ایک گلستان ہے ۔ گلستاں کے مگر آداب، قرینے، اہتمام اور اصول ہوتے ہیں ۔ جدید پڑھے لکھے تو کیا ، افسوس کہ بعض جیّد علما بھی ایک نکتے پر غور نہیں فرماتے ۔ مذہب بجائے خود ایک سائنس ہے ، سب سے بڑی سائنس۔ اس پہ پھر کبھی! شیری رحمن کو کیا سوجھی کہ بیٹھے بٹھائے ہنگامہ اٹھا دیا۔ معیشت کی بربادی ، عالمی دبائو اور بے یقینی کے ہنگام ،کیا یہ کوئی اہم مسئلہ تھا ؟ ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق نوحہ ء غم ہی سہی ، نغمہ ء شادی نہ سہی سیاستدانوں کے معاملات اتنے سادہ بہرحال نہیں ہوتے۔ انہیں اپنے حلقہ ء انتخاب، اپنے گروہ اور نمود ذات کی فکر ہوتی ہے ۔ کہنے کو عوامی مفادات کے نگہبان مگر عملاً اپنی دنیا کے اسیر اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا آج تک فیصلہ ء نفع و ضر کر نہ سکا پرسوں پرلے روز کسی نے لکھا: انجینئر اور ڈاکٹر بننے کے لیے برسوں کی تعلیم درکار ہوتی ہے ۔ اخبار نویسی آسان کہ ہر موضوع پر اظہارِ خیال کر سکتے ہیں ۔ ارے بھائی، اخبار نویس اگر واقعی اخبار نویس ہے تو ماہرین سے بات کیے بغیر اظہار نہیں کرتا۔ کھیل تماشہ نہیں ، بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ رہی سیاسی حرکیات تو مجھ سے کمترین بھی ہیں ، صحافت میں مگر ایسے بھی ہیں ، جو اس کے رموز سے آشنا ہوتے ہیں ، جتنے کہ سیاستدان۔ اس کے باوجود ٹی وی مباحثوں میں کثرت سے دوسروں کو مدعو کیا جاتاہے ۔ صوفی محمد رفیق مرحوم یاد آئے۔ اخبار نویس تھے مگر سرتاپا درویش ۔ چھٹی کی ایک صبح راجہ ظفر الحق کی بارگاہ میں طلب کیے گئے ۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے طاقتور وزیرِ اطلاعات اور اوپننگ بلے باز۔ راجہ صاحب نے پوچھا:حال کیا ہے ؟ جواب ملا : وہی باسی ٹکڑ ے اور وہی تازہ سفر۔ راجہ صاحب ٹھٹکے اور معذرت کی ۔ اپنے بائیسکل یا بس پہ راولپنڈی کے آخری کونے ٹنچ بھاٹہ میں اپنے گھر لوٹ گئے ۔ صحافت کی دنیا بدل گئی ۔ اب چکا چوند ہے اور چیختے چلّاتے موضوعات مگر اب بھی وہی پیچیدگیاں، اور بھی ریاضت طلب! منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں وہی اندازِ جہاں گزراں ہے کہ جو تھا عشروں پہلے یہ سوال مغرب میں اٹھا کہ بلوغت کی عمر کیا ہے اور اس کے بعدکیسا برتائو اولاد سے کرنا چاہئیے ۔فرد کو نوید ہوئی کہ اٹھارہ سال کے بعد وہ آزاد ہے ۔ دوسری طرف ماں باپ کی ذمہ داری تمام کہ وہ نان نفقے تک کے ذمہ دار نہیں ۔یہ مشرق ہے ، استثنیٰ کے سوا جو مجبوری سے پھوٹتا ہے یا اخلاقی احساس کے فقدان سے ،عمر بھر ہمارے بچّے ہم سے جڑے رہتے ہیں ۔ شادی بیاہ کے ہم ذمہ دار ہیں ۔ اکثر اس کے بعد بھی کفالت کے۔ سرکارؐ نے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں ، جو بڑوں کا احترام نہ کرے اور کم عمروں پہ شفقت نہ کرے ۔ ہر نماز میں لازماً ہم اپنے والدین کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ جنہیں توفیق ہے ، اولاد کے لیے بھی اور ظاہر ہے کہ سب اہلِ ایمان کے لیے ۔ میاں عامر محمود کے والد کا انتقال ہو اتوایک جملہ کہا جو ہمیشہ کے لیے قلب کی لوح پر لکھا گیا : اب میں کیا کروں گا۔ جو وقت ان کے ساتھ بتایا کرتا، اب اس کا کیا کروں ؟ رفتگاں کے لیے دعا کرتا ہوں تو یہ جملہ یاد آتاہے ۔ پھر میں سوچتا ہوں ، ماضی کبھی نہیں مرتا۔ دراصل وہ کبھی ماضی ہوتا ہی نہیں ۔ وہ ہمارے حال اور مستقبل میں گھل جاتاہے ۔ اقبالؔ کی بینائی کمزور ہو گئی توپوچھا گیا: اب آپ کیا کرتے ہیں ؟فرمایا: آنکھیں بند کر لیتا اور قرونِ اولیٰ کی سیر کرتا ہوں ۔ سب زمانے ہمارے ساتھ ہیں اور ہم سب زمانوں کے ساتھ ۔ وقت تخلیق کرنے والے کی ایک تخلیق ہے ۔ ایک اٹل قدر اور حاکم نہیں ۔ مخلوق کی طرح وہ بھی پیدا ہوا اور اسی طرح اس کی نوع بھی بدل جاتی ہے ۔ اسی موضوع پر حکیم الامت نے کبھی خواجہ مہر علی شاہ سے رہنمائی کی درخواست کی تھی ۔ مرنے والوں کو اقبال ؔمرنے والا نہیں مانتے۔ اخلاص عمل مانگ نیاگانِ کہن سے شاہاں چہ عجب گر بنوازندگدارا اور یہ کہ مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں شادی کیا ہے ؟ شریعت اس پر کیا کہتی ہے ؟ شیخ ہجویر ؒ یاد آئے۔ جملہ اگرچہ راہِ سلوک کے باب میں ہے مگر ایک وسیع دائرے کا احاطہ کرتاہوا۔’’جو تصوف پابندِ شریعت نہیں ، وہ زندیق تو پیدا کر سکتاہے ، صدیق نہیں ‘‘ بھٹی راجپوتوں کے علاوہ کہ لاہور شہر کی اساس رکھی ، کتنے ہی قبائل اس علم و عرفان کے سائے میں ایمان لائے، اقبالؔ نے جس پر لکھا : سیّدِ ہجویر مخدومِ امم مرقد او پیرِ سنجر را حرم خاکِ پنجاب از دمِ او زندہ گشت صبح ما از مہر و تابندہ گشت وہ امّتوں کے امام، ان کا مرقد پیر سنجر کے لیے حرم ایسا ۔ خاکِ پنجاب کو آپؒ نے زندہ کیا ۔ میری سحر ، ان کے آفتاب سے روشن ہے ۔ شادی پر فقہا دو طرح کی آرا رکھتے ہیں ۔ ایک وہ ہیں ، جن کا کہنا یہ ہے کہ زمانے کے حالات و اطوار ، عوامل اور پیچیدگیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قاضی اور حاکم عمر کا تعین کر سکتے ہیں ۔وقت بدلتا ہے ، زمانے اور زندگی کے تقاضے بھی ۔ کم سنی کی شادی سے فرض کیجیے ،صحت اور زندگی کو خطرات لاحق ہوں تو پابندی لگائی جا سکتی ہے مگر یونہی نہیں ۔ فیشن اور ہوا کے خبط میں نہیں کہ یہ شریعتِ محمدیہ ؐ کا معاملہ ہے ۔ انسان یکسر آزاد نہیں ۔ اس پر پابندیاں ہیں مگر غور وفکر کا حکم بھی ۔ اجتہاد کی ذمہ داری بھی ۔تین طلاقیں ایک شمار کی جاتیں ۔ رسولِ اکرمؐ اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا عہد بیت جانے کے بعد بعض نے اسے مشغلہ بنا لیا تو فاروقِ اعظمؓ نے تین کو حتمی قرار دے دیا ۔ امامِ اعظمؒ نے اگرچہ برقرار رکھا مگر ہمارے دوسرے بڑے امام اس میں مختلف ہیں ۔ شادی کی عمر پر پروفیسر احمد رفیق اختر نے معرکے کا ایک جملہ کہا : دانائوں کی دانائی اور علم سے زیادہ حالات اور ماحول کے تیور بعض امور کا فیصلہ کیا کرتے ہیں ۔ مختلف نقطہ ء نگاہ رکھنے والے جن ممتاز اہلِ علم سے بات ہوئی ، پابندی کی وہ بھی صریح مخالفت نہیں کرتے ۔ ان کا اصرار یہ ہے کہ شادی کا تعلق بلوغت سے ہے ۔ کسی کو حق نہیں کہ اندھا دھند پابندی لگا ئے ۔ اقبالؔ نے کہا تھا : پارلیمان کو اجتہاد کا اختیار ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ اختیار لامتناہی نہیں ۔ اہلِ علم کی رائے سننا ہوگی۔ کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ ۔ صرف نظریاتی کونسل نہیں کہ غیر معمولی اعتبار وہ بہرحال نہیں رکھتی ۔ اب تک ایک مولانا صاحب کے اثرات اس پہ باقی ہیں ، اصلاً جو سیاستدان ہیں ۔ جن کی ترجیحات ذاتی اور سیاسی ہیں ۔ مولانا قبلہ ایاز اور ارکانِ کونسل کے علاوہ مولانا جسٹس تقی عثمانی ، مولانا زاہدالراشدی اور علامہ اقبالؔ اوپن یونیورسٹی کے ڈاکٹر طفیل ہاشمی اور دوسرے معتبر علما سے بات کرنی چاہئیے ۔ کوئی پتھر اور پہاڑ نہیں ، شریعت ایک گلستان ہے۔ گلستاں کے مگر آداب، قرینے، اہتمام اور اصول ہوتے ہیں ۔ جدید پڑھے لکھے تو کیا ، افسوس کہ بعض جیّد علما بھی ایک نکتے پر غور نہیں فرماتے ۔ مذہب بجائے خود ایک سائنس ہے ، سب سے بڑی سائنس۔ اس پہ پھر کبھی!