اگرچہ دنیا میں اس وقت شراکتی انتظام و انصرام" "Participative Management کی زیادہ پذیرائی ہے ۔ تاہم ہمارے ہاں ایسی دوستانہ ایڈ منسٹریشن اور مینجمنٹ سے بعض اوقات اچھے نتائج برآمد نہیں بھی ہوتے ، او ر ہم کسی کی نرمی اور فیاضی کا ناجائزفائدہ اُٹھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔دراصل قیادت اور ایڈ منسٹریشن عموماً غیر معمولی حالات میں ، غیر معمولی صلاحیتوں کے اظہار اور تسلیم سے اُبھرتی ہے ۔ اچھی ایڈ منسٹریشن اور لیڈر شپ انسانوں اور اداروں کو مشترکہ مقاصد اور اعلیٰ نصب العین کے لیے "Motivate" کرتی ، راہنمائی بخشتی اور اپنے ماتحت افراد کو اشتیاق اور اعتماد کے ساتھ کام کی طرف راغب کرتی ہے ،اگر کسی ادارے کا سربراہ اچھا لیڈر بھی ہو، تو ادارے کی فعالیت اور اس کے ورکرز کی کارکردگی دو چند ہوجاتی ہے ، گزشتہ جمعرات کو دی فیصل آباد یونیورسٹی کے وسیع و عریض اور پُر نور ماحول میں مدفونینِ جنّتُ البقیع الحاج میاں محمد سلیم،الحاج میاں محمد رفیق اورالحاج میاں نثار احمد--- کی یاد میں بزم محبت و الفت آراستہ تھی ، جس میں ثناگویانِ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے منفر د اور معتبر اسلوب طرز وبیان کو بروئے کار لاتے ہوئے، بارگاہ ِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عقیدت سرا تھے۔ شہزادہ ٔ غوث الوریٰ الشیخ خالد منصورالگیلانی ، اس نشست ِ خاص کے لیے دربار ِغوث ِ اعظم بغداد شریف سے ، بطورِ خاص جلوۂ آرا ہوئے ۔ تقریب ِ سعید --- رنگ و نور سے مزین و منور تھی،میاں محمد حنیف مسلسل استقبالیہ پر مستعد--- آنے والے مہمانوں کی پذیرائی اور دلجوئی میں سرگرم تھے ۔ بڑے میاں صاحب مردِ خلیق ہیں، اُن کے مقاماتِ فقر وتصوّف میرے لیے تو کوئی سربستہ راز ہے ، میں نے انہیں روضہ اقدس پرقدمین شریفین میں پہروں قیام و قیود اور مدینے کی گلیوں میں پا برہنہ ---کبھی احد شر یف، کبھی قبا اور کبھی بقیع شر یف میں دیکھا ہے، ان کے خاندان کو سرکارِختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ ِ بے کس پناہ سے کوئی حصہ وافر میسر ہے ، سارے گھرانے کو بس ایک ہی دھُن ہے اور وہ ہے مدینہ منورہ --- اس خاندان کے موسس الحاج میاں محمد سلیم ؒ کا وصال24 جون1995ء بمطابق 24 محرم الحرام کو مدینہ منورہ میں ہوا اور یوں یہ دن جو سیّدُ السّاجدین امام زین العابدینؑ کے حوالے سے معروف و معتبر ہے ، میاں صاحبؒ کے نصیب میں آیا ۔ اِس تقریبِ سعید میں میری نشست میاں محمد رشید کی ہمرا ہی میں تھی ، سیلاب کی حالیہ تباہ کاریوں اور انسانی المیوں پر، مَیں نے انہیں ازحد ازُردہ اوردُکھی پایا ، وہ اداروں کی بے اعتنائی اور سٹیٹ اور سوسائٹی کے طرزِ عمل سے غیر مطمئن تھے ۔اعداد و شمار اُن کو از بر تھے ۔فصلو ں کی تباہ کاری اور انفراسٹرکچر کی زمین بوسی سے ملکی معیشت کو اب تک دس کروڑ ڈالرزسے زائد کا نقصان ہوچکا ہے ، ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہوچکے ہیں، ایک ہزار سے زائد پیر و جواں اور مر د و خواتین اور بچے وبوڑھے ، ان سیلابی تباہیوں کے سبب مکانات گرنے اور ندی نالوں و دریائوں میں بہہ جانے کے سبب جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ دس لاکھ کے قریب مویشی ہلاک ہوچکے ہیں ۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق ، کھربوں روپے کی فصلیں ، گھریلو سازوسامان، سڑکیں ، پُل، ڈیمز اور دوسرا انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے ۔ لوگ سخت مشکل میں ہیں ، قوم آزمائش میں ہے ، انسانی المیے جنم دے رہے ہیں ۔ طوفانی بارشیں اگرچہ ، قدرے تھمتی نظر آرہی ہیں۔ لیکن مون سون کے تازہ اسپیل ہیں ، کہ ان کے امکان کی کوئی نہ کوئی پیش گوئی بھی سننے کو ملتی رہتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی اور انہوں نے ایک ایسے وقت میں اپنے میڈیا گروپ کو سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے اُتارا ، جب دیگر نشریاتی ادارے اِن سیلابی آفات اور اِس کے اِس نقصان کی گہرائی کا ادراک کرنے کی طرف متوجہ ہونے کے لیے تیار نہ تھے ، قدرت نے انہیں یہ ہمت بخشی اور انہوں نے اپنی میڈیا ٹیموں کو سیلابی علاقوں کی طرف روانہ کر کے خصوصی نیوز رپورٹس نشر کروا کے ،عامۃُ الناس کے ساتھ حکومتی اداروں اور سرکاری مشینری کو ان کی امداد کی طرف متوجہ کیا، ان کی اِن کاوشوں اور میڈیا رپورٹس کی نشاندہی کے سبب ، ابھی تک پچاس سے زائد لوگوں کی قیمتی جانیں محفوظ ہوئیں ، 92 نیوز ٹیم کی نشاندہی پر سندھ کے علاقے قبو سعید خان کے قریب پڑنے والے شگاف کو محفوظ بنایا دیا گیا ، بلوچستان کے شہر سبی کے نواحی گائوں میں کراس ٹاک کے میزبان اسد اللہ خان نے موقع پر پہنچ کر انتظامیہ کو بیدار کیا اور متاثرین کے لیے قیام وطعام کا اہتمام کیا ۔ تونسہ شریف میں ڈیم ٹوٹنے سے مزارات کو بھی نقصان پہنچا،اس میڈیا گروپ کی ٹیم اپنے اینکر فیصل عباسی کے ہمراہ بستی منگروٹھ اور ہنگڑ نالے میں پھنسے لوگوں کی مدد کو پہنچی۔ اسی طرح بلوچستان کے ضلع محبت پور میں بھی 92 نیوز کی ٹیم نے لوگوں کے لیے کھانے پینے کی اشیاء اور خیمے تقسیم کیے۔اسی طرح 92 نیوز کی ٹیم نے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے متاثرین کی بھرپور امداد کی ، فاضل پور ریلوے اسٹیشن پہنچ کر سیلاب زدگان کے لیے عافیت کا اہتمام کیا ۔ اور اس پورے دورانیئے میں یہ میڈیا ٹیمیں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے پوری طرح کمر بستہ ہیں ۔ اسی طرح بولان ، جہاں گاڑی کے جانے کا کوئی امکان نہ تھا ، اور سڑکیں پانی میں بہہ چکی تھیں ، 92 میڈیا ٹیم موٹر سائیکل کے ذریعے پہنچیں۔ اقوامِ متحدہ نے 160 ملین ڈالرزجو کہ تقریباً35 ارب روپے بنتے ہیں ، کاتخمینہ لگاتے ہوئے ، عالمی برادری سے فوری امدادکی اپیل کی ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے پاکستان قوم کے جذبہ ٔ ایثار اور خدمت ِ خلق کی تعریف کرتے ہوئے ، عالمی براداری کو متوجہ کیا ہے کہ پاکستان بر س ہا برس تک افغان مہاجرین کو پناہ دے کر ، جس فراخدلی کا مظاہرہ کر کے ، انسان دوستی کا ثبوت دے چکا ہے ۔ وہ نا قابل ِ فراموش ہے ، آج اس ملک پر خود مشکل وقت ہے، تو ہمیں اس کو تنہانہیں چھوڑنا چاہیے ۔ ہماری ڈانواں ڈول معیشت ، آئی ایم ایف کے پیکج سے قدرے سنبھلنے کو تھی ،کہ ہمیں اس افتاد سے واسطہ پڑھ گیا ۔ بارشوں اور سیلابوں کے بعد دھوپ کی تمازت اور حدت اور پانی کی آلودگی اور تعفن سے امراض اور مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔مقامی آبادیاں متعدی بیماریوں کی زَد میں، جبکہ جنوب ایشیا موسمی تغیرات کی لپیٹ میں ہے ، موجودہ بدلتے ہوئے موسمی حالات، سیلابوں کی فراوانی اورخشک سالی کے بحرانوں سے بچائو کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیم بنانے کی ضرورت ہے ۔ ٭٭٭٭٭