نیکی کرنے سے پہلے خوب اچھی طرح سوچ لیا کرو کہ اس نیکی کا تمہیں کوئی عوض نہیں ملے گا۔ جس کے ساتھ تم نیکی کرتے ہو اگر تم اس کی توقعات پر پورے نہیں اترے تو تمہاری نیکی بھی برباد جائے گی۔٭تم مشہور ہونا چاہتے ہو۔ تمہارا خیال یہ ہے کہ تم اس کے مستحق ہو لیکن خدا نہیں چاہتا کہ تمہیں شہرت ملے۔ایسا سوچتے ہوئے یہ نہ بھولو کہ شہرت کی خواہش بھی خدا ہی نے تمہارے اندر پیدا کی ہے۔وہ جب چاہے گا اس خواہش کو پورا کر دے گا تو پھر انتظار کرو۔اگر تمہارے مقدر میں ہو گا تو یہ نعمت تمہیں مل جائے گی، ورنہ رونے پیٹنے اور شکوہ شکایت کرنے کا کچھ حاصل نہیں۔اپنی تقدیرپر راضی رہنا ہی سب سے بڑی نیکی ہے۔٭کبھی کبھی اپنی موت کا مراقبہ کر لیا کرو۔یعنی تصور کرو کہ تم مر چکے ہو‘ تمہاری نماز جنازہ پڑھائی جا رہی ہے‘ تمہیں قبرستان لے جایا جا رہا ہے تمہیں قبر میں اتار دیا گیا ہے۔لوگ تمہارا آخری دیدار کر چکے ہیں۔پھر گورکن نے تمہاری قبر کا منہ بند کر کے اس پر منوں مٹی ڈال دی ہے۔موت کے اس مراقبے سے تمہارے دل سے دنیا کی محبت ختم ہو جائے گی اور تم اس قابل ہو جائو گے کہ دنیا میں ایک مسافر کی طرح رہ سکو۔٭اپنی محرومیوں کا گلہ نہ کرو۔خدا نے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے‘ ابھی تو تم نے اس کا پوری طرح شکر ادا نہیں کیا اور مزید کہ متمنی ہو گئے۔ تو خدا تمہیں کیوں اور دے۔شکر کیا کرو تاکہ خدا خوش ہو کر تمہیں اور زیادہ دے۔کبھی کبھی پلٹ کر پیچھے دیکھ لیا کرو اس زندگی کی طرف جو تم نے گزاری ہے۔اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا بیلنس شیٹ بناتے ہوئے اس کا جائزہ بھی لو کہ اس میں خدا کی کتنی عطا ہے اور تمہاری اپنی کوشش کا دخل کتنا۔جو مواقع تمہیں کامیابی کے ملے وہ کس نے دیے؟ تمہیں کوشش اور محنت کی توفیق کس سے ملی؟ اس طرح سوچو گے تو شاید تم صحیح نتیجے تک پہنچ جائو اور شکر و احسان مندی کی کوئی رمق تمہارے اندر بھی پیدا ہو سکے۔٭ اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھو۔اگر تم پہ ظلم ہوا ہے تو تم نے بھی کسی نہ کسی پر ضرور ظلم کیا ہے۔اگر تم ظلم نہ کرتے تو کبھی مظلوم بھی نہ ہوتے۔٭یہ ٹھیک ہے کہ وقت بڑا مرہم ہے۔ہرزخم کو مندمل کر دیتا ہے لیکن جو زخم تمہیں ملا ہے وہ بھی وقت ہی نے دیا ہے۔اگر وقت نے زخم نہ دیا ہوتا تو وہ زخم کو بھرتا بھی نہیں۔٭آیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کچھ سوچ کر تمہاری آنکھوں میں آنسو آ جائیں۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو تمہیں اپنے قلب کی حالت پہ فکر مند ہونا چاہیے قلب کی سختی اچھی چیز نہیں۔٭رستہ چلتے ہوئے اگر تم ٹکرا جائو تو اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ تم کسی سوچ میں گم چلے جا رہے تھے یا یہ کہ ایسا محض حادثاتی طور پر ہو گیا۔پہلی وجہ مبارک اور قابل قبول ہے۔تمہیں اس کے عوض کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ دوسری صورت میں سراسر نقصان ہے۔٭بعض لوگ زندگی کو ہنسی اور ٹھٹھول میں گزار دیتے ہیں۔بعض زندگی کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اعتدال ہونا چاہیے کبھی کبھی ہنسی اور ٹھٹھول ورنہ سنجیدگی۔٭کبھی اپنے دریچے سے اڑتے ہوئے بادلوں کو دیکھو‘ پرندوں کا چہچہانا سنو‘ کسی چھوٹے سے بچے کو پیار کر لو کسی ضرورت مند کو کچھ دے دو۔اپنی کسی بھول یا غلطی پر معذرت کر لو‘ کسی مہمان کا گھر آنا خدا کی رحمت سمجھو اور ہاں کبھی کبھی اپنے آپ کو دنیا کا خوش نصیب ترین انسان جانو جس کو خدا نے ایسی نعمت دی جو کسی اور کو نہیں دی۔یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہیں جن سے زندگی میں حسن و جمال پیدا ہو جاتا ہے اور قلب تمہارا روشن ہو جاتا ہے۔٭تم کتابیں نہیں پڑھتے۔ اس لئے کہ تمہیں اس کی عادت نہیں پڑی اور تم اس لذت و مسرت سے واقف ہی نہیں ہو سکے جو مطالعے سے ملتا ہے۔٭تم نے پڑھا ہو گا کہ دوسروں کی زیادتی اور ظلم پر معاف کر دینا سب سے بڑی نیکی ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ معاف کر دینے کے باوجود دل میں ایک قلق‘ ایک شکایت باقی رہ جاتی ہے کچھ اور نہیں تو آدمی خود کو مظلوم تو ضرور ہی سمجھتا ہے۔اس لئے جتنا ظلم اور جتنی زیادتی ہوئی ہو اتنا ہی بدلہ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔لیکن الجھن یہ ہے کہ یہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ ظلم و زیادتی کے برابر بدلہ کیا ہو سکتا ہے؟ بدلے میںکمی بیشی کا امکان ہوتا ہے اس لئے آسان راستہ معاف کر دینا ہی ہے۔٭پورا سچ لوگوں سے برداشت نہیں ہوتا۔لیکن سچ کے ساتھ جھوٹ بھی ملا دیا جائے تو وہ قابل ہضم ہی نہیں لوگوں کو بہت مرغوب ہوتا ہے۔اس لئے سچ موقع محل دیکھ کر اور جس بولا جا رہا ہو‘اس کی قوت برداشت کا اندازہ لگا کر ہی بولنا چاہیے۔ورنہ تمہارا سچ بھی ضائع جائے گا اور مراسم کے کشیدہ ہوجانے کا بھی اندیشہ ہے۔٭زندگی کو سفید و سیاہ کے خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔درمیان میں اور بھی بہت سے رنگ ہیں اور یہ دنیا اور اس کی زندگی رنگ برنگی ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو زندگی کے سیاہ رخ کو دیکھنے والے سبھی لوگ خودکشی کر چکے ہوتے۔٭مسجدمیں اتنے نمازی نہیں ہوتے جتنے سینما ہائوس میں تماشائی ہوتے ہیں۔٭تعلق میں جب تک محبت کی حرارت ہوتی ہے۔ یہ جاندار اور گرم جوش ہوتا ہے۔٭آج کل کے نوجوان لڑکے لڑکیاں راتوں کو جاگتے اور دن چڑھے تک سوتے ہیں۔٭پہلے بچے والدین کے اطاعت گزار ہوتے تھے اب والدین بچوں کا کہا ماننے لگے ہیں۔٭ ہر پچاس سال بعد ثقافت بدل جاتی ہے۔٭شہری زندگی فطرت سے دور ہو گئی ہے اس لئے انسان بھی اپنی حقیقی فطرت سے دور ہو گیا ہے جس پر اسے خلق کیا گیا تھا۔٭صبح کو کیفیت اور ہوتی ہے‘ شام کو اور اس لئے کہ صبح کو آدمی تازہ دم ہوتا ہے اور شام کو تھک چکا ہوتا ہے۔اسی لئے صبح سے پہلے رات اور شام سے پہلے دوپہر ہے۔یہی ہے فطرت کا اعتدال اور توازن۔٭ایک اچھا قول جگنو کی طرح ہے جو چمک کر بجھ جاتا ہے اور پھر چمک اٹھتا ہے۔دوبارہ بجھ جانے کے لئے۔