عمران خان سے گفتگو کے بعد حامد میر کو جو تاثر ملا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے بعض ساتھی انہیں محاذ آرائی نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں عمران سے گفتگو کے بعد انہیں یہ تاثر ملا کہ وہ ہر طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اگر ان کے ساتھ لڑائی کی جائے گی یا انہیں گرفتار کیا جائے گا۔ تو اس کیلئے بھی ان کے پاس لائحہ عمل ہے اور اگر کوئی بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کیلئے بھی ان کے پاس اپنی شرائط ہیں۔ تاثر یہی ملا کہ وہ لڑائی کیلئے بھی تیار ہیں اور انتخابات کی غرض سے بات چیت کے لئے بھی تیار ہیں۔ان کے خیال میں یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ پہلے سپریم کورٹ سے توہین عدالت کے حوالے سے معافی مانگ چکے ہیں تو وہ اس بار معافی مانگنے میں ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہیں۔ یہاں پر؎ اینکر کا خیال ہے کہ شاید عمران سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے متعلق فیصلہ پہلے ہی کرلیا گیا ہے تو پھر مجھے معافی مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ معافی مانگ لیں گے تو عوام کے بیچ میں جاکر اس کی وضاحت کس طرح کریں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں نااہل کیا گیا یا انہیں گرفتار کیا گیا تو کے پی اور پنجاب سے اسلام آباد پر عوامی یلغار ہوجائے گی اور شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ اس سیاسی یلغار اور طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ اینکر کا خیال ہے کہ عمران کی حکمت عملی اور سوچ اپنی جگہ‘ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ عمران کو اداروں کو Confront نہیں کرنا چاہئے۔ انہیں معافی مانگنی چاہئے اور وہ جو بھی حکمت عملی بنارہے ہیں وہ ایک سیاسی حکمت عملی ہوسکتی ہے‘ قانونی حکمت عملی نہیں۔ جمعرات کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے اپنی عبوری ضمانت منظور ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ شہباز گل پر جو جنسی تشدد ہوا اسے مارا پیٹا گیا‘ یہ سب پولیس کی کسٹڈی میں ہوا۔ اس کی ذمہ داری آئی جی اور ڈی آئی جی پر آتی ہے۔ تشدد کے بعد بھی جج نے شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ دیا۔ اس پر میں نے قانونی ایکشن کی بات کی تھی تو مجھ پر دہشت گردی کا پرچہ کاٹ دیا گیا۔ عمران خان کے اس موقف کے بعد لگ یہ رہا ہے کہ وہ ہائیکورٹ میں بھی غیر مشروط معافی مانگنے کے بجائے Contest کرنے کو ترجیح دیں گے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر ملک کے بیشتر نامور قانون دانوں کی رائے یہ ہے کہ عمران خان ایسا کرکے اپنے لئے ایک نئی مشکل کھڑی کریں گے ،بعض ذرائع یہ بھی بتارہے ہیں کہ عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل واؤڈا اور پرویز خٹک انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کیخلاف جارحانہ کے بجائے مفاہمانہ انداز اپنائیں۔ اس حوالے سے مونس الٰہی کا بھی یہی موقف ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانا کسی بھی طور عمران اور پی ٹی آئی کیلئے درست نہیں۔ اس سے ملک کو نقصان ہوگا۔ عمران خان کے بھی قریبی ذرائع اس بات کی امید کررہے ہیں کہ یہ کوششیں آئندہ دنوں میں بار آور ہوتی دکھائی دیں گی۔ چند اہم پی ٹی آئی رہنما ایسے بھی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے عمران کے رویئے پر خوش نہیں ہیں‘ لیکن وہ منہ پر عمران سے ایسی بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پارٹی میں کچھ ایسے تیز طرار لوگ بھی ہیں جو نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے عمران کے موقف کی حمایت بھی کرتے ہیں بلکہ یہ ان کے کانوں میں سازشی نظریات اور غلط معلومات بھی انڈیلتے رہتے ہیں۔ ساتھ ساتھ دوسری طرف پی ٹی آئی کے پی میں بھی پی ڈی ایم کے رہنماؤں پر بغاوت کے مقدمات قائم کرنے اور مقدمات قائم کرنے کو غلطی قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں۔ پی ڈی ایم کے اوپر حملہ آور ہونے کی تھیوری میں سب سے زیادہ متحرک علی امین گنڈا پور نظر آرہے ہیں‘ جبکہ شوکت یوسف زئی اور اشتیاق آرمر اس آئیڈیا کیخلاف ہیں۔ کے پی کے زیادہ تر رہنما سمجھتے ہیں کہ شہباز گل کو اپنے بیان پر معافی مانگنی چاہئے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کے پی کے متعدد پی ٹی آئی رہنماؤں کا خیال ہے کہ ہمیں خود کو اس پوری صورتحال سے الگ تھلگ رکھنا چاہئے۔ ساتھ ساتھ یہ خبر بھی دن بدن توانا ہوتی جارہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نے وطن واپسی سے متعلق قانونی ٹیم سے مشاورت مکمل کرلی ہے۔ نااہلی‘ سزائیں اور کیسز کے حوالے سے عدالت سے رجوع کرنے کیلئے قانونی ٹیم کو نواز شریف کی طرف سے گرین سگنل مل گیا ہے اور اسی تناظر میں ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے نواز شریف نے وطن واپسی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس حوالے سے پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے بھی مشاورت مکمل کرلی ہے اور اسی لئے نااہلی‘ سزاؤں اور مختلف مقدمات کے حوالے سے قانونی ٹیم کو کارروائی شروع کردینے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ اس حوالے سے وکلاکو بھی نواز شریف کی طرف سے ضروری ہدایات وصول ہوگئی ہیں اور انہوں نے کیسز کے حوالے سے پٹیشنز تیار کرنی شروع کردی ہیں جو جلد ہی عدالتوں میں دائر کردی جائیں گی۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں وکلاکی ٹیم ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست عدالت میں پیش کرے گی‘ تاکہ نواز شریف کو آتے ہی جیل نہ جانا پڑے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ نواز شریف وطن واپسی کے بعد اپنی پارٹی کی تنظیم نو اور پارٹی کو سیاسی میدان میں زیادہ متحرک کریں گے۔ قائد مسلم لیگ (ن) اس سلسلے میں اہم رہنماؤں اور عہدیداروں کے ساتھ مشاورت اور رابطوں میں ہیں اور انہیں اپنے فیصلوں سے آگاہ کردیا ہے۔ نواز شریف پاکستان کی سیاست کو بڑے غور اور متفکرانہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان ایک طرف پاکستان میں آبادی کے بہت بڑے طبقے کو موبلائز اور انسپائر کررہے ہیں۔ وہاں قانونی طور پر ان کے خلاف مقدمات کی ایک سیریز بن چکی ہے۔ ان پر بعض مقدمات ایسے ہیں جن پر ان کی ضمانت نہیں ہوسکتی‘ لیکن وہ گرفتاری سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ سوال بھی ذہن میں آسکتا ہے کہ بارہ جماعتوں پر مشتمل اتنی تگڑی حکومت عمران خان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈال رہی۔ لوگ یہ بھی سمجھ نہیں پارہے کہ جب عمران اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف اپنارہے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ ان کیخلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کرپارہی۔ الزام ان پر یہ ہے کہ وہ ججز دھمکیاں دیتے ہیں۔ کبھی وہ پولیس کو دھمکیاں دیتے ہیں‘ کبھی بیورو کریٹس کو خبردار کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی اکاؤنٹس کمیٹی میں ایک دلچسپ سوال یہ اٹھا کہ عمران خان نے کے پی حکومت کا ہیلی کاپٹر 166 گھنٹے استعمال کیا‘ جس کا ان کے پاس استحقاق نہیں تھا‘ جبکہ اس کی مینٹیننس پر 34 کروڑ 46 لاکھ خرچ ہوئے۔ اکاؤنٹس کمیٹی نے عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیئے۔ اس کے علاوہ جسٹس (ر) ثاقب نثار کو بھی طلب کیا گیا ہے کہ وہ آکر بتائیں کہ ڈیم فنڈ کہاں گیا۔ (جاری ہے)