ہمارے معاملہ سازوں نے معاملہ بگاڑنے میں پھر کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ایاز صادق غدار وطن ہے تو مجھے پھر اس شخص کی تلاش ہے جسے میں محب وطن کہہ سکوں۔ ایک زمانہ تھا جب قیام پاکستان سے پس منظر میں بہت سے لوگ تھے جن پر غداری کا لیبل شغل طور پر ٹپکا دیا گیا تھا۔ مثال کے طورپر باچا خاں کی آل اولاد پر، پیروکاروں کے بارے میںیہ تاثر تھا کہ وہ نہ صرف پکے پکے غدار ہیں بلکہ لادین بھی ہیں۔ یہ تو جب ملک توڑنے والے ملک توڑ رہے تھے تو جن لوگوں نے ولی خاں کے کردار کو قریب سے دیکھاانہوں نے گواہی دی کہ اس شخص نے ملک بچانے کے لیے کیا جتن کئے ہیں۔ رہی اس گروہ کی لادینی تو میں نے خود ان میں ایسے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کا روزہ نماز سب کچھ مجھ سے بہتر ہے۔ موجودہ تناظر میں عرض کیا کہ سارا بگاڑ معاملہ سازوں کی کم فہمی کی کی پیداوار ہے۔ میں تو کہہ رہا تھا اب سنا ہے فواد چودھری نے بھی بھارتی میڈیا پر یہ کہہ دیا ہے کہ ایاز صادق نے تو فوج کو کچھ نہیں کہا‘ وہ تو ہم سیاستدانوں پر اعتراض کر رہے تھے۔ پھر پوچھا جائے کس نے باگوں کا رخ اس سمت موڑا ہے۔ ایاز صادق نے یہ تو نہیں کہا کہ ہمیں فوجیوں کی طرف سے یہ بتایا گیا یا سمجھا گیا کہ ابھی نندن کو چائے دو‘ ورنہ بھارتی فوج شام نو بجے حملہ کردے گی۔ اس میں ورنہ کا لفظ خاص طورپر بڑا اہم اور خطرناک ہے۔ شکایت تو یہ کی گئی کہ ہمیں ہم خیال کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے یہ پیغام دیا گیا کہ ورنہ بھارت 9 بجے حملہ کردے گا۔ اگرچہ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بھی ورنہ کا لفظ استعمال نہیں کیا‘ صرف خفیہ اداروں کی اس بات کی اطلاع دی کہ بھارت حملے کی سوچ رہا ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو خوا ہ مخواہ لٹکانے کی ضرورت نہیں۔ غالباً ایاز صادق کا خیال ہے کہ وزیرخارجہ نے عیاری‘ مکاری سے کام لے کر فیصلہ کرانے میں دروغ گوئی سے کام لیا ہے۔ ان کے ساتھیوں کی رائے ہے اسے دوچار دن موخر کیا جاسکتا تھا اور بہتر تھا کہ ایسے کرلیا جاتا۔ اب اس ساری کہانی کو یہ رنگ دینا کہ ایاز صادق نے فوج کی قربانیوں کا مذاق اڑایا ہے سراسر بے تکی بات ہے۔ حکومت کو تویہ بات سود مند معلوم ہوتی ہے۔ اپنے مخالفوں کو فوج کے مقابلے میں لا کھڑا کرنے کو اپنی سیاسی حکمت عملی کا حصہ سمجھتی ہے۔ پھر اس شور شرابے سے مہنگائی‘ بیروزگاری کے مسائل سے توجہ ہٹ جائے گی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اعلیٰ حلقوں میں اب اس معاملے پر بڑی تشویش پائی جاتی ہے کہ حکومت ہر چیز خراب کر رہی ہے‘ عوام ہر بات کا الزام کسی اور پر نہیں حکومت پر لگاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ تاثر بھی پیدا کیا جارہا ہے کہ اس حکومت کو فوج کی پشت پناہی حاصل ہے۔ سیم پیج کی یہی تو کہانی ہے جو سیاست کے بازار میں بک رہی ہے۔ موجودہ واقعہ نے اور اپوزیشن کی سیاست نے خاص کر نوازشریف کے بیانئے نے حکومت کو یہ تاثر دینے میں مدد کی کہ اپوزیشن فوج کے خلاف محاذ آرائی کر رہی ہے۔ مریم نواز نے درست کہا کہ صفحہ پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ مجھے یہ تو معلوم ہے کہ نوازشریف کا بیانیہ کیا ہے‘ مگر یہ خبر نہیں کہ ان کا ٹارگٹ کیا ہے۔ اب بتائیے ابھی اس بیان کی آواز مدھم نہ ہوئی تھی کہ فواد چودھری کے نام سے ایک ایسی بات منسوب کردی گئی کہ جو سفارتی لحاظ سے بڑی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر فواد چودھری نے یہ بات کہی بھی ہو گی تو بھی میں اس کی تردید کروں گا۔ میں کیا‘ خود فواد چودھری اس کی تردید کرتے پھرتے ہیں۔ پلوامہ یا پٹھان کوٹ‘ بھارت ہر ایک کا الزام پاکستان کی ایجنسیوں کے سر منڈھ دیتا ہے۔ ادھر واقعہ ہوتا ہے‘ ادھر اس کے بھونپو چیخنے لگتے ہیں۔ ایک لمحے کو تردد نہیں کرتے‘ کچھ سوچنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ اگر بھارت کی کشمیر کے بارے میں یہی حکمت عملی جاری رہی تو ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب شاید پورے برصغیر سے بلکہ عالم اسلام سے مسلمان اٹھ اٹھ کر بھارت میں آزادی کی جنگ لڑ رہے ہوں گے۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ ہم وقت کے اسیر ہیں۔ آج دنیا کے حالات بھی مختلف ہیں۔ آج کل حریت پسندی کی ہر تحریک کو دہشت گردی کی جنگ بنا ڈالا گیا ہے مگر یہ سب زیادہ عرصہ نہیں رہے گا۔ اس ملک میں جو کچھ غلط ہوتا ہے‘ ہم اسے بھارت کا کیا دھرا کہہ کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں۔ کبھی غور بھی کرتے ہیں کہ اس میں کچھ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ ہم نے بلوچستان میں کیا کچھ نہیں کیا۔ ایوب خان کے زمانے کو چھوڑتے ہیں۔ ستر کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں جس کو ہم نیا پاکستان کہتے تھے‘ ہم نے نیا آئین بنایا اور صوبوں تک میں حکومتیں قائم کیں۔ بلوچستان کی حکومت میں مری‘ مینگل‘ بزنجو سب شامل تھے کہ ہمارے بھٹو صاحب نے حکومت توڑ دی‘ ساری قیادت کو جیل میں ڈال دیا۔ یہ پہاڑوں پر چڑھنے والے گوریلے اس وقت پیدا ہوئے۔ افغانستان میں تب ہی ٹھکانے قائم ہوئے۔ ہم نے شورش کو دبانے کے لیے فوج استعمال کی جو بات سیاسی انداز میں بنی ہوئی تھی اسے ہم نے فوجی اندا زمیں بدل ڈالا۔ آخر کس لیے معاملات تب ذرا معمول کی طرف بڑھے جب ملک میں دوبارہ فوج آئی اور ضیاء الحق نے مقدمات ختم کئے۔ جی‘ سازش کے مقدمات‘ حیدر آباد ٹربیونل انجام کو پہنچا مگر معاملہ بگڑ چکا تھا۔ پھر بھی ایک جمہوری بندوبست چلتا رہا حتیٰ کہ مشرف نے اکبر بگٹی کو مار ڈالا۔ آگے کیا عرض کروں۔ کراچی میں بڑی پرسکون زندگی تھی۔ کیا ضرورت تھی ایم کیو ایم کی پرورش کی۔ وہ زمانہ میں نے کراچی میں گزارا ہے۔ ایک ایک پل سے واقف ہوں۔ بوری بندلاشیں‘ بھتہ خوری کیا کچھ نہیں ہوا۔ آج بھی رینجرز مستقل طور پر تعینات ہے‘ کوئی ربع صدی سے۔ خیبر پختونخوا کے بارے میں جتنا نہ کہا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ آخر میں ہم نے کہا کہ ہمیں اپنا ہائوس ان آرڈر کرنا چاہیے۔ بات یہاں تک آ پہنچی ہے تو ذرا سوچئے اس کا مطلب کیا ہے۔ مطلب کہ ہم پہلے حماقتیں کرتے رہے ہیں۔ یہ عمران خان کی آمد کے بعد کا بیانیہ نہیں۔ ان دنوں کی بات ہے جب خواجہ آصف وزیر خارجہ تھے۔ میرا مطلب سمجھ گئے۔ اس سے پہلے کوئی اگر یہ کہہ دیتاکہ ہمیں طالبان سے مذاکرات کرنا چاہئیں تو جان کھا لی جاتی۔ نوازشریف کا کیا حال کیا تھا ۔ خدا کے لیے پوائنٹ سکورنگ چھوڑیئے اپنی منزل کھوٹی نہ کیجئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں غدار خال خال ہی ہوں گے۔ اس کی فیکٹریاں بند کیجئے۔ ملک کو سچے جذبوں کی ضرورت ہے۔