لیون ٹراٹسکی نے کہا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ کسی سماجی تعمیر نو کے منصوبے کے تحت نہیں بلکہ اس احساس کے ساتھ انقلاب برپا کرتا ہے کہ وہ پرانی حکومت کو برداشت کرنے سے عاجز آ چکا ہوتا ہے جس میں خوشحالی ،ترقی کے مواقع صرف حکمران اشرافیہ تک محدود ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انقلاب کی ابتدا استحصال کی انتہا سے ہوتی ہے اورلاوا بھوک کی آگ سے پیٹ میں پکتا ہے۔استحصال کی انتہا کا آغاز تب ہوتا ہے جب معاشرہ بحیثیت مجموعی فیصل آباد کی گلناز کی طرح یہ التجائیں شروع کر دے۔ گوتم میرے نال دھڑ وٹا لے سنیا اے تینوں بھک نہیں لگدی تاریخ گواہ ہے کہ التجائیں پہلے مایوسی پھر غم و غصے اور آخر میں بقا کی جنگ میں بدل جاتی ہیں۔ حکمران سٹیس کو قائم رکھنے کے لئے مختلف تدابیر کرتے ہیں۔ تدابیر کا انحصارحب الوطنی اور قوم کے شعور کی سطح پر ہوتا ہے۔ حکمران اپنے عوام کو فاقوں کے خوف سے بغاوت سے دور رکھنے کے لئے تدابیر کرتے ہیں۔ اگر تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو پھر دنیا فرانس اور شگاگو کی طرح انقلاب کا نظارہ کرتی ہے ۔ماضی قریب میں مختلف ممالک نے اپنے عوام کے امید ٹوٹنے سے بچانے کے لئے مختلف اقدامات کئے۔ 2005ء میں فلپائن دیوالیہ ہونے کے قریب تھا ملک میں درآمدات کے لئے صرف تین ماہ کا زرمبادلہ تھا۔ فلپائن نے ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا فیصلہ کیا، حکومت جانتی تھی آئی ایم ایف پیکج سے مہنگائی میںاضافہ ہوگا۔اس نازک صورتحال میں فلپائن کے صدر نے سیاسی مشاورت سے اس مسئلے کا بہتر حل تلاش کیا اور ایک آزاد معاشی ادارہ قائم کیا۔ ادارے کو چلانے کے لئے اقربا پروری کے بجائے ملک اور بیرون ممالک سے اہل افراد کا انتخاب کیا گیا ان کو سیاسی مداخلت کے بغیر آزادی سے کام کرنے کا ماحول فراہم کیاگیا ۔ایک سال میں فلپائن نے نہ صرف آئی ایم ایف کا قرض واپس کیا بلکہ فلپائن کو دوبارہ آئی ایم ایف کے قرض کی ضرورت ہی نہ پڑی۔دوسری مثال سری لنکا کی ہے 2019ء میں کورونا کے باعث پوری دنیا میں سفری پابندیاں لگنا شروع ہوئیں تو سری لنکا جس کی معیشت کا انحصار ہی سیاحت پر تھا شدید معاشی بحران سے دوچار ہو گیا۔ سری لنکا میں ایک خاندان کی حکومت تھی اس نے معیشت بچانے کے بجائے حکومت بچانے کو ترجیح دی عوام کو عالمی پابندیوں کے اثرات بد سے بچانے کے لئے قرض لے کر خوراک پر سبسڈی دی اور ڈالر بچانے کے لئے کھاد کی درآمد پر پابندی لگا دی۔ کھاد میسر نہ ہونے سے ملک میں اناج کی قلت پیدا ہو ئی تو سری لنکا کو غذائی اجناس درآمد کرنا پڑی۔جس سے خوراک مہنگی ہونے کے ساتھ معیشت بھی ڈیفالٹ کر گئی۔ تیسری مثال پاکستان کی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر سے زیادہ اور برطانوی پونڈ کے لگ بھگ برابر تھی۔ حکمران اشرافیہ کی لوٹ مار کے لئے سرکاری املاک ضرورت سے زیادہ تھیں اور اشرافیہ 22خاندانوں تک محدود ۔ سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ اشرافیہ کا پیٹ بھر رہی تھی۔ پھر سرکاری خزانہ بھی میسر تھا جو عام پاکستانی نہیں صرف اشرافیہ کے لئے مخصوص تھا۔ اشرافیہ نے جب جالب کی طرح پاکستا نیوں کوبھی میں نہیں مانتا، پکارتے دیکھا تو احتجاج کرنے والوں کو لوٹ مار میں شامل کرنے کا انوکھا حل نکالا۔کرپشن کا زہر اقتدار کے ایوانوں سے نکل کر سماج کے رگ و پے میں پھیلنا شروع ہوا۔خاکروب سے خادم اعلیٰ تک ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق جسد وطن کو نوچنے لگا۔ملک ‘ معیشت کے ساتھ معاشرہ بھی زوال کا شکار ہوا تو عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ بدعنوانی لوٹ مار فیشن بن گیا اور رشوت بھتہ خوری کو اوپر کمائی تسلیم کر لیا گیا۔ پہلے لوٹ مار کرنے والے22خاندان تھے اب 300ہو گئے۔ حکمران قرض کے ڈالروں سے بیرون ممالک جائیدادیں بنانے میں لگ گئے اور سرکاری افسر عوام کا خون چوسنے۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ دوست ممالک نے بھی بھیک دینے سے ہاتھ کھینچنا شروع کر دیا۔ ان حالات میں عمران خان کو حکومت ملی انہوں نے سماجی مساوات اور معاشی بحالی کے ایجنڈے پر کام شروع کیا۔ ان کی کوششوں کا ہی ثمر تھاکورونا کے وقت جب پوری دنیا کی معیشت سکڑ رہی تھی پاکستان ترقی کر رہا تھا۔ ٹیکس کولیکشن، برآمدات، ترسیلات زر میں تاریخی اضافہ ہو رہا تھا۔ بس کرپشن کے آگے بندھ باندھنا باقی تھا کہ اشرافیہ اور اس کے گماشتے متحرک ہو گئے اور تحریک انصاف حکومت سے نکل کر احتجاجی جلسوں تک پہنچ گئی ۔ نئی حکومت نے آتے ہی کرپشن کے مقدمات کے خاتمے کے بعد اگر کوئی کام کیا تو وہ عمران خان کے سٹیٹ بنک اور معیشت کو سیاسی مصلحتوں سے پاک کرنے کے اقدامات کو واپس کرنے کا تھا ۔معیشت کو ملکی مفاد کے بجائے حکمرانوں کے مفاد کے تحت کرنے کا نتیجہ ملک کو ڈیفالٹ کے دھانے پر لے آیا۔ ڈار کی سٹیٹ بنک کے امور میں مداخلت اور درآمدی ایل سیز پر پابندی کی وجہ سے پیداواری صنعتیں بند ہو چکی ہیں۔ صرف آٹو موبائل انڈسٹری کی خام مال نہ ملنے کی وجہ سے پیداوار 19.7فیصد کمی ہو ئی ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری بند پڑی ہے۔ حکومت نے 20ملین ڈالر کی ایل سیز روک رکھی ہیں جس سے آنے دنوں میں خام مال کی کمی کی وجہ سے ادویات خوراک اور اشیاء ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ رواں برس 35ارب ڈالر کا قرض واپس کرنے کے لئے وزیر اعظم دیس دیس بھیک مانگ رہے ہیں۔ حکومت رواں برس 35ارب ڈالر کی ادائیگیوں کے لئے جو قرض حاصل کرلیتی ہے تو اگلے سال قرض اداکرنے لے لئے85ارب ڈالر درکارہونگے۔ بقول شبر زیدی ملک ڈیفالٹ کر چکا ہے اگر اس سال نہیں تو اگلے سال ڈیفالٹ سے بچنا ممکن نہ ہو گا۔ خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے توعالمی طاقتیںپاکستان کو جوہری اثاثوں اور سی پیک کی شرط پر بیل آئوٹ کریں گی۔خدا نہ کرے ایسا وقت آئے کہ انقلاب کی نوبت آئے ورنہ عوام حکمرانوں سے سوالوں کے بھالے لے کر حساب مانگیں گے۔ فرحت سلطانہ نے کیا خوب کہا ہے: سوال پوچھیں گے تم سے حساب مانگیں گے ہمارے خواب لٹے ہیں حساب مانگیں گے تمہاری بات میں دم خم نہیں ہے اب صاحب ورق الٹ کے نیا انتساب مانگیں گے