یہ اپنی حد سے نکل کر حدود ڈھونڈتی ہے کہ خاک بار دگر بھی قیود ڈھونڈتی ہے یہ میرے شعر نہیں ہیں ترا سراپا ہے کہ خوبصورتی اپنی نمود ڈھونڈتی ہے ’’خاک کی چٹکی کو بھی آ گئی پرواز ہے کیا‘‘جو بھی ہے انسان حدود و قیود کے اندر جکڑا ہوا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ اسے قدرت نے اس کی اوقات میں رکھا ہے۔ یہ ذوق اور مذاق کی بات ہے بندہ اس بے بسی سے بھی لطف اندوز ہو۔ بات بکھرنے سے پہلے ہی سمیٹ لی جائے کہ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ انسان کو اپنی حد میں رہنا چاہیے اور اس کے امکانات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ تبھی تو حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ ’’میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے خدا کو پہچانا‘‘ ڈاکٹر ناصر قریشی بات کر رہے تھے ارتکاز کی یعنی انسان بعض اوقات جہاں نظریں مرتکز کرتا ہے تو اس کے اردگرد کی اشیا نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ آپ سامنے دیکھتے ہیں تو 30ڈگری بائیں اور 30ڈگری دائیں والی اشیا آپ کو دکھائی دیتی ہیں۔ مگر جب آپ سامنے کی کسی چیز کو فوکس کرتے ہیں تو دائیں بائیں کی چیزیں دھندلا جاتی ہیں۔ بات دراصل ہو رہی تھی انفاق کی کہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنا کہ اللہ کا حکم ہے کہ اس کے دیے ہوئے مال سے خرچ کرو اور پھر خرچ کرنے کی جگہیں بھی بتائیں۔ ظاہر ہے جب ہم اللہ کی راہ میں انفاق کرتے ہیں تو یہ سب رضائے الٰہی کے لئے ہوتا ہے۔ مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارا دھیان یا توجہ لوگوں کی طرف ہو جاتی ہے‘ یعنی ہم یہ کام کرتے ہوئے مخلوق کے ساتھ معروف ہو جاتے ہیں اور وہ اخلاص نہیں رہتا کہ وہ خلوص جو خالصتاً اللہ کے لئے ہوتا ہے۔ اصل رخ دھندلا جاتا ہے کہ ہمارا فوکس کچھ اور ہوتا ہے یقینا اس میں اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ خیر کا عمل دکھاوا بن جائے۔ واقعتاً میں نے ایسے لوگ بھی سنے جو غریب کے گھر کے سامنے آٹا یا ضروریات کی اشیا رکھ کر دستک دیتے ہیں اور پھر وہاں سے کھسک جاتے ہیں کہ ضرورت مند انہیں دیکھ کر شرمندہ نہ ہو یا کم از کم باراحسان محسوس نہ کرے۔ یہ بھی درست ہے کہ سامنے یعنی اعلانیہ دیناترغیب کے لئے مستحسن ہے مگر اخلاص قائم رہے۔ بات تو نیت کی ہے کہ دھیان پروردگار کی جانب مبذول ہو۔ جہاں تک بات فوکس کرنے کی ہے وہ ضروری ہے کہ ٹھیک مسئلے کو فوکس کیا جائے۔ مگر ایسے بھی نہ ہو کہ باقی اشیا دھندلا جائیں۔ جیسے کہ ہماری حکومتوں کے حال ہیں جو کسی من پسند چیز کو یا اپنے مفاد کی شے کو فوکس کرتے ہیں اور باقی معاملات نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ اچھی چیز کی طرف فوکس ضرور کریں مثلاً صحت اور تعلیم کو۔ بات چلی تھی ارتکاز کی۔ دولت کی تقسیم میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ جب یہ ارتکاز ہوتا ہے تو کتنے طبقے نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ تقسیم غیر مساویانہ ہو جاتی ہے۔ غریب غربت تر اور امیر امیر تر ہوتا جاتا ہے۔ ترجیحات طے ہونی چاہیے۔ افراط وتفریط بھی تو تب ہی پیدا ہوتی ہے۔ اعتدال بہر طور ضروری ہے۔ یہ بھیڑ چال بھی تو اسی قبیل سے ہے کہ بغیر سوچے سمجھے سب ایک ہی طرف چل نکلتے ہیں۔ جب توجہ ایک طرف ہو جائے تو باقی سمتیں نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ آپ موبائل کا فیشن دیکھ لیں اگرچہ یہ نہایت ضروری اور مفید بھی ہے مگر اس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کہ آپ نے تو اسے زندگی کا مرکز بنا لیاہے کہ اس کے بغیر آپ واش روم بھی نہیں جاتے۔ آپ کے ہاتھ میں موبائل ہو تو پھر کچھ نہ پوچھیے کون کون آپ کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ یہ شعر بھی تو ارتکاز ہے کہ: وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ایک اور شعر بھی کچھ کچھ اس مزاج کا ہے: مجھ پہ طاری ہے خیال لب جاناں ایسے ایک چڑیا بھی جو بولے تو برا لگتا ہے یہ ادھر ادھر کی باتیں ہیں‘ آپ انفاق کی طرف توجہ دیںکہ اللہ کو یہ عمل بہت پسند ہے۔ اس ضمن میں ایک قول حضرت علیؓ کا ہے کہ پھلدار درخت کو آپ جتنی مرتبہ بھی ہلائیں گے کچھ نہ کچھ پھل ضرور گرے گا۔ اتنا تو آپ بھی جانتے ہونگے کہ پھل کا موسم ضرور ہو۔ ویسے یہ بھی کیسا دور تھا کہ ہم بیری کے ٹہنے کو جنبش دیتے تھے تو بیروں کی بارش ہوتی تھی جامن سے جامن اور شہتوت سے شہتوت بھی ایسے ہی گرتے ہیں۔ مگر مجھے خیال آتا ہے کہ یہ حکمران تو شاید کیکر کے درخت ہیں جن پر انگوروں کے خوشے بھی زخمائے جاتے ہیں۔ ان سے خیر کی کوئی توقع نہیں یعنی ان سے کوئی فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی ان کی نظریں بھی کہیں اور ہوتی ہیں۔ یہ اپنے مفاد کے سوا کچھ نہیں دیکھتے۔ یہ اپنے لئے زندہ ہیں۔ آپ دیکھتے نہیں کہ عمران خاں کو بھی صرف وزیر اعظم بننے کا شوق تھا۔ اس منصب کے تقاضے کیا ہیں اسے کچھ خبر نہیں۔ اس نے اے ٹی ایم مشینوں کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے جو مستقل بھر رہی ہیں۔ دوسری طرف لوگ آٹے کو ترس گئے ہیں۔ اگلی باری چینی کی ہے۔چہیتے لوٹ رہے ہیں۔ حد بندیوں کا اپنا لطف ہے کہ ’’صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گل بھی ہے‘‘ اور پھر ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا‘‘ یہ سب کچھ ہمارے لئے ہی تو ہے وگرنہ سب کچھ کس کام کا۔ شہزاد احمد نے کہا تھا: پھر دکھاتا ہے مجھے جنت فردوس کے خواب کیا فرشتوں میں ترا دل نہ لگا مرے بعد اس جہان رنگ و بو میں بھی تو سارا حساب کتاب ہم سے: بہار ہو کہ خزاں ہو نہیں ہے میرے بغیر یہ کائنات تو شاید شہود ڈھونڈتی ہے یہ اپنی جگہ درست کہ ہم نہ زمین کے کناروں سے باہر نکل سکتے ہیں اور نہ آسمان کے کناروں سے آگے جا سکتے ہیں۔ مگر آسمان نے جھک کرزمین کو گھیرا ہوا ہے تو یہ محبت ہی کی ایک علامت ہے اور یہ ستاروں سے آسمان کو مزین کیا گیا ہے ۔ ’’تم جن و انساں اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے‘‘ منیر نیازی نے کہا تھا: سیاہ شب کا سمندر سفید دن کی ہوا انہی قیود کے اندر فریب ارض و سما