سات اکتوبر 2020ء کو ایک خاتون ملزم کی شناخت کے لیے کیمپ جیل پہنچی تو جیل کے دو تین اعلی افسران کے علاوہ کسی کو خبر نہیں تھی کہ یہ موٹروے پر ھونے والے ہائی پروفائل گینگ ریپ کی ستم رسیدہ خاتون ہیں ۔شناخت پریڈ کے لیے ایک جیسی قدوقامت اور عمروں کے دس ملزمان کو قطار میں کھڑا کیا گیا، ان میں گینگ ریپ کا شریک ملزم شفقت بھی موجود تھا،خاتون نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ڈی آئی جی پولیس اور متعلقہ سول جج اس موقع پر موجود تھے عموما ایسے کیسز میں انسپکٹر لیول کے پولیس آفیسر شناخت پریڈ کرواتے ہیں لیکن موٹروے زیادتی کیس اس وقت ملک کا ایک ہائی پروفائل کیس ہے ،عوام کی نظریں اب اس کے اوپر ہیں کہ مجرموں کو کیفر کردار تک جلد سے جلد پہنچایا جا ئے۔ ہولناک حادثے کے اثرات سے شاید وہ تمام عمر باہر نہ سکے لیکن اس حادثے کے فورا بعد اس خاتون سے میڈیا کا سوال جواب کرنے کے لئے پہنچ جانا بجائے خود ایک ظلم ہوتا، متاثرہ خاتون میڈیا سے دور رہیں اور میڈیا نے بھی اس ستم رسیدہ خاتون کا پیچھا کرنے سے گریز کیا،ورنہ یہاں کچھ بھی بعید نہیں ہے مرنے والے والدین کے متاثرہ بچوں کو بٹھا کر کیمروں کے سامنے سینئر اینکر پرسن یہ پوچھتے رہے ہیں کہ بیٹا جب آپ کے والدین گولیاں لگنے سے مر گئے تو آپ کو کیسا محسوس ہوا تھا۔بدقسمتی سے ریٹنگ کے لئے یہاں بہت سی ناجائز چیزوں کو بھی جائز سمجھا جاتا ہے،یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ میڈیا نے اس بار سمجھداری اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا،متاثرہ خاتون شناخت پریڈ کیلئے بھی آنے کو تیار نہیں تھی کیونکہ نفسیاتی طور پر وہ اتنی ٹوٹ پھوٹ چکی ہے کہ اپنے آپ کو سمیٹ کر دنیا والوں کے سامنے آنا اس کے لیے نہایت مشکل کام ہے یقینا کسی کی تکلیف کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن کیس کی پروسیسنگ کے لیے ملزم کی شناخت پریڈ ضروری تھی تاکہ سزا کا فیصلہ کرتے وقت کسی بھی قسم کا ابہام نہ رہے۔سامنے کھڑے ہوئے دس لوگوں کی قطار میں متاثرہ خاتون کا ملزم موجود تھا،جس نے اس کی زندگی کو تاریک کیا مظلوم نے ظالم کو پہچان لیا تھا۔خاتون نے کہا کہ میں اس سے کچھ سوال کرنا چاہتی ہوں ۔ خاتون نے پوچھا کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ جب تم نے میرے بچوں کو اور مجھے ویرانے کی طرف لے جانے پر مجبور کیا تو میں اور میرے بچے کیا پڑھ رہے تھے بد بخت نے تسلیم کیا کہ ماں اور اس کے بچے کلمہ کا ورد کر رہے تھے۔لیکن ھمارے دل رحم سے عاری رہے،پھرمتاثرہ خاتون نے ایک اور سوال کیا اس کا جواب ملزم نے غلط دینے کی کوشش کی تو ستم رسیدہ خاتون نے ایک زناٹے دار تھپڑ پر اس کے منہ پر مارا،شناخت پریڈ کے دوران ستم رسیدہ مسلسل روتی رہی،اس حادثے نے اس کی روح پر ایسے گھاؤ لگائے ہیں کہ جس کو بھرتے بھرتے بھی شاید زمانے لگیں گے،چند روز پہلے گینگ ریپ کا مرکزی ملزم عابد ملہی بھی گرفتار ہو گیا، پہلے پنجاب پولیس نے اس کی گرفتاری کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی لیکن جلد ہی اس کے باپ کا بیان سامنے آگیا کہ عابد ملہی کو ہم نے خود پولیس کے حوالے کیا ہے ،میڈیا میں ان دونوں بیانات نے ایک ابہام پیدا کیاگیا ہے ،اس میں شک نہیں ہے کہ پنجاب پولیس نے ملزم کے گرد گھیرا اس قدر تنگ کر دیا تھا کہ اس کا بچ کر نکلنا بہت مشکل تھا،اس کیس کے حوالے سے میڈیا اورعوام میں ایک پریشر موجود تھا وہی پریشر پنجاب پولیس کے اوپر بھی تھا،شاید یہی وہ دباو تھا جس کی وجہ سے مرکزی ملزم کو کہیں بھی جائے پناہ نہیں ملی ۔کئی جاننے والے دور پار کا رشتے داروں نے بھی عابد کو پناہ دینے سے انکار کر دیا اور وہ ایک مہینہ پولیس سے بچتا بچاتا پھرتا رہا ۔ایک مہینہ تک ہاتھ نہ آنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس نے اپنے حلیے کو بدلہ ہوا تھا۔کرونا کی وجہ سے ہر شخص ماسک لگائے پھرتا ہے وہ بھی ماسک لگا پولیس کی نظروں سے بچتا رہا،یہ بات مرکزی ملزم عابد نے خود بتائی کہ ایک دو بار تو وہ پولیس کے سامنے سے جل دے کر غائب ہوا کیونکہ اس نے ماسک لگایا ہوا تھا اور وہ پہچان میں نہیں آیا تھا، گرفتاری کے بعد اس نے تسلیم کیا کہ اسے اس جرم پر بہت پچھتاوا تھا، وہ مزید اس کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا تھا، پھر اسنے اپنے باپ کو فون کیا اور کہا کہ وہ اپنے باپ اور بھائی کے ہاتھوں سے پولیس اس کے سامنے سرنڈر ہونا چاہتا ہے، ایک رپورٹ کی مطابق پاکستان عورتوں کے لیے خطرناک ملکوں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔لیکن ھمیں شرمشار کردینے والی تلخ حقیقت یہ ھے یہاں تو نابالغ بچے بچیوں کے ساتھ بھی جنسی جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کو عبرتناک سزا نہیں دی جاتی۔ بعض معاملات میں جہاں قریبی رشتے داروں نے اس طرح کا کوئی جرم کیا ہوتا ہے وہاں پر آپس میں کچھ شرائط وقت کی بنیاد پرصلح صفائی بھی ہو جاتی ہے یوں وہ سزا سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ہماری عدالتوں کا نظام ایسا ہے کہ خلق خدا پناہ مانگتی ہے کیونکہ کیس سالہا سال تک لٹکے رہتے ہیں اور متاثرین کو انصاف نہیں ملتا۔جیل سے حاصل ہونے والے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جب سے موٹروے پر ہونے والا زیادتی کیس ہائی پروفائل بنا ہے ہے ماہانہ بنیادوں پر زیادتی کے زیادہ کیس رپورٹ ہونے لگے ھیں، اس سے پہلے ہر مہینے چار سے پانچ ملزمان زنا کے کیس میں جیل آتے تھے ستمبر سے اکتوبر کے مہینے کے دوران زنا کے تیس سے پینتیس ملزمان جیل آئے ہیں۔ہمارے عدالتی اور قانونی نظام میں جو خامیاں پائی جاتی ہیں معاشرے اسی کا عکس ھمیں بڑھتے ہوئے، جرائم کی صورت میں دکھائی دیتا ہے،جیسی ہوا س کیس کی بن چکی ہے ہے اس میں تو مجرموں کو فوری سزا دیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، اصل سوال یہ ہے کہ سالانہ سینکڑوں کیسز جنسی زیاتیاور زنا بالجبر رپورٹ ہوتے ہیںحادثوں کی ان متاثرہ خواتین اور بچے بچیوں کے لئے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں انصاف کے لئے کوئی بھی آواز بلند نہیں کرتا تو کیا اس کیس کیpresidentکے بعد ان کو بھی اسی طرح فوری انصاف مل سکے گا۔۔؟؟