افغان امن ایک مرتبہ پھر موضوع بحث بن چکاہے ۔ افغان طالبان کے ساتھ طویل مذاکرات کے نتیجے میں امریکی وزیرخارخہ مائیک پومپیو نے خوشخبری دی ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر29 فروری کو دستخط کی تیاریاں کررہے ہیں ۔ دوسری طرف طالبان اور افغان حکومت بھی بائیس فروری سے ایک ہفتے کیلئے تشدد میں کمی پر رضامند ہوچکے ہیں۔تشدد میں کمی لانے کے اعلان کے بعدجگہ جگہ افغان سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں اور طالبان جنگجو وں کو آپس میں گلے ملتے اور سیلفیاں لیتے دیکھ مجھے انتہائی خوشی ہوئی اورمیرا یقین ہے کہ تشددمیں کمی لانے سے ہرکسی کو خوشی ہوئی ہوگی ۔افغان طالبان اور افغان حکومت کومتوقع امن کیلئے ترستے دیکھ ایسا لگتاہے کہ اس سرزمیں کے یہ دونوں فریق جنگ وجدل اور مزید خون خرابے سے اکتا اور تھک چکے ہیں۔ طرفین کو اب بخوبی اندازہ ہوگیاہے کہ جنگ اور شورش افغان مسئلے کا حل پہلے تھا اور نہ ہی مستقبل میں یہ ایک پرامن اور خوشحال افغانستان کا ضامن ہوسکتاہے ۔ طرفین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ افغانستان امریکیوں ، پاکستانیوں ، ایرانیوں اور عربوں کا گھر نہیں بلکہ یہ مطلق اُن افغانوں کا گھر ہے جو ماضی میں بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑتے یا لڑوائے جاتے تھے اور نائن الیون کے بعد بھی ایک دوسرے سے باہمی دست وگریباں ہیں۔یوں اگر وہ ایک دوسرے کو اس سرزمیں اور یہاں کے باسیوں کے وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے کودل سے برداشت کردیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کے خلاف ریشہ دوانیاں اور سازشیں نہیں کرسکیں گی۔ماضی کی طرح اس وقت بھی افغان مسئلے کا پائیدار حل یہی ہے کہ افغانستان کے یہی حقیقی اسٹیک ہولڈرز خود ایک دوسرے کو سمجھیں اور ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ نائن الیون ڈرامے کے بعد لگ بھگ اٹھارہ سال تک امریکہ اپنے تمام تر اتحادیوں سمیت اس سرزمیں پر موجود رہا لیکن افغانوں کو ایک دوسرے سے لڑوانے اور سازشوںکے علاوہ اور کوئی قابل قدرکام انجام نہ دے سکا ۔اب جب امریکی مداخلت کا جواز ختم ہوگیا تو یہ اپنی افواج کے انخلا پر بھی رضامند ہوگیاہے اور طالبان کو افغان حکومت کو ایک ساتھ بٹھانے کی بھی حمایت کررہاہے ۔ سردست حالات کے تیور بتارہے ہیں کہ امریکہ اپنے آپ کو اس دلدل میں مزید رہنے کیلئے تیار نہیں ہے یوں اسے ہر حالت میں یہاں سے جانے کی جلدی ہے ۔ ایک تو ڈونلڈ ٹرمپ خود کو امسال ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں پھر جتوانے کی خاطر اپنا وعدہ ایفا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور دوسرا یہ کہ امریکہ اس خطے کی بجائے اب مشرق وسطیٰ کے میدان ِ کارزار میں خود کو انگیج کرواناچاہتاہے ۔ بنیادی سوال اب یہ ہے کہ امریکہ کے انخلا کے بعد افغان طالبان اور افغان حکومت کے آئندہ کا لائحہ عمل کیاہوگا اور دو دہائیوں سے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار افغان سرزمیں کے ان اصل اسٹیک ہولڈرز کے ارادے کیا ہیں ؟ اہمیت کے حامل اس سوال کادوٹوک جواب ڈھونڈناسردست بہت مشکل ہے تاہم امن اور مصالحت کی امیدیں ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ پیدا ہوچکی ہیں۔دوسرے لفظوں میں امریکی انخلا کے بعد گیند بڑی حد تک طالبان کے کوٹ میںآجائے گا یوںافغان امن کا زیادہ انحصارہی انہی کے رویے پر ہوگا۔ کیونکہ افغان حکومت شروع دن سے اس مخالف دھڑے کو مذاکرات کی میز پر آنے اور ایک جمہوری سیٹ اپ کا حصہ بننے کیلئے نہ صرف دعوت دے دیتی رہی ہے بلکہ ان کو منتیں بھی کرتی رہی ہیں۔سابق صدر حامدکرزئی کی طرح موجودہ صدر اشرف غنی کی اولین ترجیح بھی یہی ہے کہ افغان امن کی خاطر طالبان سے مذاکرات کیاجائے ۔ طالبان کے بارے میں حتمی طور پر یہ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن غالب امکان یہ ہے کہ وہ بھی اس طویل تھکاوٹ اور شورش کے خاتمے کیلئے ماضی کی بجائے زیادہ میلان رکھتے ہیں۔ ماضی میں افغانستان کو پھر سے فتح کرنا اور وہاں پر اپنے مَن کی حکومت کا قیام ان کا خواب تھا لیکن اب وہ مشروط طور پر ایک مشترک سیٹ اپ بننے کے طرفدار دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف اشرف غنی حکومت پر یہ منحصر ہوگا کہ وہ کن کن شرائط پر طالبان کے ساتھ رضامند ہوسکتی ہے اور کہاں تک ؟ کیونکہ ظاہر بات ہے کہ اٹھارہ سال کی طویل مزاحمت کے بعد اب طالبان بغیر کسی شرط کے اس نظام کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوسکیں گے ۔امریکی انخلا کے بعد طالبان اس زعم میں بھی مبتلا ہوگئے ہیں کہ یہ ہم ہی تھے جنہوں نے امریکہ جیسی طاقت کو مذاکرات کی بھیک مانگنے اور افغان سرزمیں چھوڑنے پر مجبور کردیا ،سووہ ہی افغان سرزمیں کے اصل مالکان ہیں۔ دوسری طرف اشرف غنی حکومت بھی اس موڈ میںدکھائی نہیں دیتی کہ طالبان کے سبھی مطالبات کے آگے سرتسلیم خم کریں۔ سابق صدر حامد کرزئی ، عبداللہ عبداللہ ، حزب اسلامی کے گل بدین حکمت یار، اسلامی جنبش کے مرکزی شوریٰ سرپرست باتور دوستم ، خلق وحدت کے چیئرمین محمد محقق، جمیرت اسلامی کے صلاح الدین ربانی اور افغانستان وحدت پارٹی کے کریم خلیلی جیسے سیاسی رہنمائوں کو نہ صرف حالیہ صدارتی انتخابات کی شفافیت پر تحفظات تھے بلکہ حامدکرزئی تو سرے سے انتخابات کے انعقاد کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔گزشتہ دنوں ان تمام سیاسی رہنماووں کی جانب سے ایک طویل ملاقات کے بعد اعلامیہ جاری ہواہے جس میں کہاگیاہے کہ انہوں نے ایک ایسی اجتماعی حکومت کی تشکیل پر اتفاق کیاہے جو افغانوں کے سیاسی اجماع کی نمائندگی کرسکے اور صلح کیلئے معاون ثابت ہو۔ اعلامیے میں بین الاقوامی برادری سے درخواست کی گئی ہے کہ مزید خلفشار اور صلح کے پروسس کو بچانے کی خاطر وہ حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج( جوکہ افغانستان کے اساسی قانون کے خلاف ہے )کوتسلیم نہ کریں‘‘۔ افغانستان میں امن کاقیام ممکن ہے لیکن اس کیلئے ہر فریق کو اپنی اپنی اناکی قربانی دینی چاہیے۔یعنی ا مریکی انخلا کے بعد طالبان کو ایک ایسے افغانستان کا خواب دیکھنا ترک کر جس میں صرف ان کی مخصوص طرز حکومت قائم ہو۔ اسی طرح اشرف غنی حکومت کو بھی کچھ لو کچھ دو کی پالیسی اپنانی چاہیے اور حتی الوسع طالبان کو مین اسٹریم اور اکاموڈیٹ کرنا چاہیے ۔ دوسری طرف تیسرے اور نئے فریق کو بھی اپنی انانیت اور متوازی دھڑے بندی کی بجائے افغانوں کی خوشحالی اور وطن کے امن کی خاطرانتہائی سنجیدہ اقدامات اٹھانا چاہیے ورنہ خاکم بدہن افغانستان میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا ایک ناممکن عمل ہوگا۔