پاکستان کو پیرس میں ہونے والی فیٹف میٹنگ میں ایک بار پھر چار ماہ کی مہلت مل گئی ہے ۔اب پاکستان اگلے سال فروری تک گرے لسٹ میں رہ سکے گا۔اس کا رسمی اور باضابطہ اعلان اٹھارہ اکتوبر کو کیا جائے گا۔تب تک اسے فیٹف کی طرف سے تفویض کردہ احکامات بجا لانے ہونگے اور ان معیارات پہ پورا اترنا ہوگا جو جدید دنیا نے مقرر کر رکھے ہیں۔تب تک پاکستان کے سر پہ تلوار لٹکی رہے گی۔ بات دلچسپ اور تضادات سے بھرپور ہے لیکن اس سے پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ فیٹف کس طرح کام کرتا ہے تو آسانی ہوگی۔فیٹف ایسے ممالک کی تنظیم ہے جو 1989ء میں اس لئے بنائی گئی تھی تاکہ ان ملکوں سے کالا دھن دیگر ممالک میں غیر قانونی طریقے سے نہ بھیجا جاسکے۔حوالہ آپریٹرز، منشیات سے حاصل ہونے والا پیسہ، اسمگلنگ یا کسی بھی غیر قانونی طریقے سے دولت کی دنیا بھر میں جگہ جگہ قائم ٹیکس ہیونز میں اس طریقے سے ترسیل کی نگہداری ، کہ درمیان میں بینک یا اسٹیٹ کے مالیاتی ادارے اس سے لاعلم ہوں، اس تنظیم کے قیام کا مقصد تھا۔ اسی دوران دنیا بھر میں منی لانڈرنگ ہوتی اور ان ہی ممالک سے غیر قانونی دولت پانامہ اور بہاما سمیت معروف ٹیکس ہیون میں بھیجی جاتی رہی ۔ظاہر ہے بے تحاشہ دولت غیر قانونی طریقوں سے ہی کمائی جاتی ہے جن میں منشیات سر فہرست ہے ، غیر قانونی اسلحہ ، اسمگلنگ،بدعنوانی ، ٹیکس چوری اور دیگر ذرائع اس کے علاوہ ہیں۔ جب نائن الیون ہوا تو جہاں دنیا بدلی وہیں فیٹف بھی بدل گئی۔ اب کا کام یہ رہ گیا کہ ان ممالک پہ نظر رکھے جو دنیا میں دہشت گرد تنظیموں کو کسی نہ کسی صورت مالی امداد فراہم کرتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے منی لانڈرنگ بھی کی جاتی ہے۔پاکستان چونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستہ تھا لہذہ شامت بھی سب سے زیادہ اسی کی آئی۔ایک آمر جو ڈرتا ورتا کسی نے نہیں تھا، پاکستان کے اندر ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھ گیا ۔ اسی کشمکش نے تحریک طالبان پاکستان اور دیگر تنظیموں کو نظریاتی کھاد فراہم کی اور پاکستان اس دلدل میں پھنستا چلا گیا حتی کہ ہم نے ستر ہزار جانیں گنوائیں اور کھربوں کا نقصان برداشت کیا۔ دوسری طرف کشمیر میں ریاست کی سرپرستی میں ایک عرصے تک کشمیر میں جہاد کرنے والی تنظیموں کے سر سے گو ہم بہت پہلے ہاتھ اٹھا چکے تھے لیکن اس کا فائدہ کچھ نہیں تھا۔دنیا ہم پر دہشت گرد کا لیبل لگا چکی تھی۔ ادھر پاناما لیکس میں چونکہ بالواسطہ طور پہ ہمارے سابق حکمرانوں کا نام آگیا تھا لہذہ اس تاثر کو رد نہیں کیا جاسکتا تھا کہ غیر قانونی دولت سے جہاں آف شور کمپنیاں بنائی گئی ہیں، وہیں ٹیرر فنانسنگ بھی کی گئی ہوگی۔اسامہ بن لادن کے ساتھ نواز شریف کی ملاقاتیں اور الراجی بینک کے ذریعے رائیونڈ سے القاعدہ تک منی لانڈرنگ کا سنگین الزام ہی نہیں تفصیلات بھی موجود تھیں ۔ بہت کچھ حساس معاملات تھے جن میں پاکستان اپنے سابق حکمرانوں کی ہوس زر اور ناعاقبت اندیشی کے سبب پھنس چکا تھا۔ نائن الیون کے بعد نئے سرے سے جنم لینے والی فیٹف کا تمام تر زور اب ٹیرر فائنانسنگ پہ ہے۔ یہ تمام ممالک کو چالیس تجاویز جنہیں ریکمنڈیشن کہا جاتا ہے،پہ پورا اترنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ چالیس ریکمنڈیشن پاکستان کے لئے ہی مخصوص تھے لیکن ایسا ضرور ہے کہ ان پہ پورا اترنے یا نہ اترنے کا فیصلہ بھی فیٹف ہی کو کرنا ہے۔یہی متعلقہ ممالک کو بالترتیب سفید، سرمئی اور سیاہ فہرست میں ڈالتا ہے۔اس کا فیصلہ ان ممالک کی مذکورہ چالیس تجاویز پہ عمل کی سنجیدگی اور اٹھائے جانے والے اقدامات سے کیا جاتا ہے۔یہ فیصلہ ان ہی ممالک میںچار ممبر ممالک کی ایک کمیٹی کرتی ہے اور ان کا چناو بھی فیٹف ہی کرتی ہے۔یہ کمیٹی ملزم ملک کے ان چالیس تجاویز کی روشنی میں اٹھائے جانے والے اقدامات کا جائزہ لے کر اسے چار مختلف کیٹیگری میں تقسیم کرتی ہے ۔ ان میں C-compliant,، یعنی اطمینان بخش حد تک کئے جانے والے اقدامات، LC-largely compliant , یعنی کافی حد تک اطمینان بخش اقدامات، PC-Partially Compliant،یعنی کسی حد تک اور NC- Non Compliant یعنی مکمل طور پہ غیر تسلی بخش اقدامات شامل ہیں۔اقدامات کے جائزے کا یہ کام ایک دو نہیں چالیس ادوار میں کیا جاتا ہے۔پاکستان نے ان میں سے صرف ایک شعبہ فنانشل انسٹیٹیوشن سیکریسی لا میں مکمل اطمینان بخش ، چھبیس میں جزوی،نو میں بڑی حد تک اور چارمیں مکمل غیر تسلی بخش کی ریٹنگ حاصل کی ہے۔ فیٹف کااکتالیس ممالک پہ مشتمل ایشیا پیسفک گروپ جس میں چند بیرونی ممالک بھی شامل ہیں، اس خطے کے ممالک کی نگہداری کرتا ہے اور پاکستان کا کیس اسی کے پاس ہے ۔پاکستان نے اپنا پہلا منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کا امتحان 2017 ء میں دیا اور دونوں میں اسے نیشنل رسک ریٹنگ میں اوسط درجہ حاصل ہوا۔ا س کی بڑی وجوہات میں مختلف اداروں کا آپس میں تعاون نہ ہونا تھا۔منی لانڈرنگ تعاون کے بغیر کیسے ہوسکتی ہے اصل مسئلہ یہی تھا۔ حالیہ میٹنگ میں ،جس میں پاکستان کو مزید چار ماہ کی مہلت ملی ہے، بھارت نے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس کی بنیاد حافظ سعید کے منجمد اثاثوں کی بحالی، جو ضروریات کے لئے حال ہی میں جزوی طور پہ رواں کئے گئے تھے اور پاکستان کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم تھی، جس کے متعلق بھارت کا خیال تھا کہ ٹیکس پہ دی جانے والی چھوٹ دراصل دہشت گردوں کو مالی امداد کے طور پہ استعمال کی جائے گی۔اس تجویز کو ترکی، چین اور ملائشیا نے رد کردیا ۔بلیک لسٹ میں شمولیت سے بچانے کے لئے تین ممالک کی حمایت ضروری ہے۔امید یہی ہے کہ یہ تین ممالک ہر بار پاکستان کی حمایت کریں گے اور ہر بار بچت ہوجائے گی۔ یہ بہرحال پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کئی ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں اور پاکستان کی شرافت دونوں سے فائدہ اٹھا چکا ہے۔ وہ پاکستان میں بلوچستان اور سندھ میں دہشت گرد اور علیحدگی پسند گروپوں کی مالی اور عملی امداد بھی کررہا ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہے ، اپنے ملک میں اقلیتوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے اور تو اور گجرات کا قاتل دو بار اکثریت کے ساتھ ملک کا وزیراعظم بنا بیٹھا ہے لیکن وہ فیٹف کی سفید لسٹ میں ہے کیونکہ وہ اچھا کھیلا ہے یعنی منی لانڈرنگ کے ذریعے دہشت گرد گروپوں کی مالی امداد کے کوئی الزامات اس پہ نہیں ہیں ۔ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا،جو ملوث تھے وہ فیٹف کی سفید لسٹ میں ہیں۔ امریکہ اور سعودی عر ب نے القاعدہ کو مالی امداد دی لیکن اسامہ بن لادن برآمد پاکستان سے ہوئے۔رہی سہی کسر ہمارے سابق وزیراعظم نے ممبئی حملوں سے متعلق متنازعہ بیانات دے کر پوری کی ۔پاکستان اپنوں کی مہربانی اور غیروں کی منافقت کے سبب اس حال کو پہنچ گیا کہ آج اسے جان بچانی مشکل ہورہی ہے۔