صوفی تبسم نے کہا تھا: ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو بات تو کچھ بھی نہیں ہوئی مگر جب بگڑ جائے تو پھر بنائے ہی نہیں بنتی ہے۔ بات کو اب بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔نہ جانے ہمارے رویے اس قدر کیوں بگڑ گئے ہیں۔ ان میں سنجیدگی نظر آتی ہے اور نہ ٹھہرائو‘ نہ برداشت ہے اور نہ وضعداری۔ سب اپنی اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں ایک کے نزدیک استعفیٰ کے سوا سب جائز مطالبات مانے جا سکتے ہیں اور دوسرے کے نزدیک ایک استعفیٰ ہی جائز مطالبہ ہے۔ گویا ڈیڈ لاک اس روش کا ایک منطقی نتیجہ ہے۔ ظاہر ہے کہ استعفیٰ مانگنے والے بھی جانتے ہیں کہ یہ توپ اور ٹینک کا لائسنس مانگنے والی بات ہے اور حکومت کے لئے سب سے زیادہ پریشانی والی بات یہ ہے کہ مولانا اصل میں چاہتے کیا ہیں؟ اب تو آہستہ آہستہ تماشہ دیکھنے والے بھی الجھن کا شکار ہونے لگے ہیں کہ پردہ اٹھنے کی منتظر نگانیں پتھرانے لگی ہیں۔ کبھی ظہور نظر کا شعر ذہن میں آتا ہے: رات بھر اک چاپ سی پھرتی رہی چاروں طرف جان لیوا خوف تھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں اور دوسری طرف یہ پھر خیال آتا ہے کہ یہ اعصاب کا کھیل ہے کہ کس کی ہمت پہلے جواب دیتی ہے وگرنہ خان صاحب کا بار بار یہ کہہ کر یقین نہ دلانا کہ استعفیٰ نہیں دوں گا۔ استعفیٰ مانگنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا اور سب کو اندر کر دوں گا۔ آج پہلی مرتبہ خاں صاحب نے کہا ہے کہ اپوزیشن سنجیدہ مذاکرات چاہتی ہے تو مثبت جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے حکومتی کمیٹی کو مکمل اختیارات دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف مولانا نے بھی سارے اختیار رہبر کمیٹی کو دے رکھے ہیں۔ عمران خاں نے سب سے اہم اور نمایاں بات یہ کی ہے کہ مولانا اپنے مسائل بتا رہے ہیں جبکہ وزیر اعظم کی ترجیح عوامی مسائل ہیں ایک لمحے کے لئے نہ جانے میرے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی کہ اخبار کے نیچے ہی ایک ننھی سی سرخی جمی تھی کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد بجلی مزید دو روپے 37پیسے فی یونٹ مہنگی۔ مجھے ساتھ یہ بھی یاد آیا کہ کل سبزی والے سے میں نے ٹماٹر کی گرانی پر شکایت کی تو کہنے لگا جناب کچھ نہ پوچھیے ہم نے کیا کاروبار کرنا ہے ایک بے برکتی ہے کہ چھائی ہوئی ہے۔ منڈی میں بھی مندی ہے۔ ہر چیز کو آگ لگی ہوئی ہے۔ ہم ڈرتے ہوئے کسی کو کلو سبزی کا ریٹ نہیں بتاتے ۔گھر میں کام کرنے والی شکایت کرنے لگی کہ ہم تو دال روٹی سے بھی گئے۔ زیادہ تشویش ناک بات اس نے میری بیگم سے یہ کی کہ اب تو لوگ بچی کھچی بھی نہیں دیتے۔ ہائے ہائے کیسا اذیت ناک دور آ گیا ہے یہ ہماری روایت تھی کہ کام کرنے والیوں کے لئے کچھ نہ کچھ رکھ چھوڑتے تھے۔ آپ بھی کہتے ہونگے کہ میں ڈی ٹریک ہو گیا اور کدھر چل نکلا۔ کیا کروں ‘دل کڑھتا ہے۔ ویسے بھی مانگنے والوں کی تعداد خوف ناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے یہ ہمارے معاشرے کی ایک شکل ہے۔ مسجد‘ بیکری‘ میڈیکل سٹور اور ایسی ہی بے شمار جگہوں پر فقیروں نے ڈیرے لگا رکھے ہیں۔ مارکیٹ میں آپ کو یک دم گھیر لیتے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے حق میں لوگ کم کم ہی تھے اور کسی نے اس عمل کو پسند نہیں کیا کہ حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے اور تو اور اپوزیشن جماعتیں بھی کھل کر ساتھ آنے کے لئے تیار نہیں ہوئیں۔ پھر یہ ہوا کہ حکومت نے خود ہی بوکھلاہٹ کا شکار ہونا شروع کر دیا اور وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کئے جو کسی مارچ کو کامیاب کرنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ جہاں تک آزادی مارچ کا تعلق ہے سب کا خیال یہی تھا کہ یہ ایک دو دن کا کھیل ہے اور یہ مولانا کو رسوائی سے ہمکنار کرے گا لکھنے والے آہستہ آہستہ نرم ہونا شروع ہو گئے۔ میرے جیسے لکھنے والے بھی ہمیشہ ان کے ناقد رہے کہ صرف اقتدار کی سیاست کو کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ مگر اس کا بھی کیا کیا جائے کہ مولانا کہتے تھے کہ سیاست ہوتی ہی اقتدار کے لئے ہے۔ ہوا یہ کہ مولانا کے دھرنے کا یا آزادی مارچ کا موازنہ عمران خان اور مولانا طاہر القادری کے دھرنوں سے موازنہ فطری طور پر ہونے لگا۔ یہاں غلط اور صحیح کی بات نہیں۔ مولانا کے دھرنے کی تصویر نسبتاً مثبت اور نمایاں نظر آنے لگی۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ مولانا نے شائستگی اور تہذیب کو کہیں بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ چٹکیاں ضرور لیں مگر ساتھ بار بار اپنے عندیہ کو دہرایا کہ وہ آئین اور جمہوریت کی حدود میں رہیں گے۔ اتنے سارے لوگوں کے اجتماع میں میں کہیں توڑ پھوڑ یا بے ضابطگی نظر نہیں آتی۔ محاورتاً کوئی پتہ نہیں ٹوٹا اور تو یہ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ درویش اور مولانا حضرات صفائی ستھرائی کا اہتمام کرتے رہے وگرنہ اس سے پہلے دھرنوں میں سب تعفن چھوڑ کر گئے تھے اور اسلام آباد انتظامیہ ان کا گند کئی دن تک اٹھاتی رہی ایمبولینس والا معاملہ جس کا پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں کہ جب ایسے بڑے کرائوڈ نے فوراً راستہ دیا تو پاکستان کا امیج پوری دنیا میں پہنچا۔ صحافی عورتوں کو عزت دی گئی اور کوریج کے لئے اجازت ملی۔اور اب وہ بات جس کی طرف میں خصوصاً اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ میں خود پاکستان کا بیٹا ہوںاور میں ان تمام زعما اور حکما کو غلط سمجھتا ہوں جو ہندو مکار کو نہ سمجھ سکے اور وہ کانگرس کے ہاتھوں میں کھیل گئے۔ میں مگر یہ ضرور سوچتا ہوں کہ اس چیز کو بنیاد بنا کر سب کو غدار ثابت کرنا کیا اچھا عمل ہو گا؟۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا ایسا ہی نہیں ہوا کہ ہم مشرقی پاکستان والوں کو غدار قرار دیتے رہے اور رفتہ رفتہ وہ مدافعت کرتے کرتے سامنے آن کھڑے ہوئے۔کیا اب ہمارے لکھنے والے باقاعدہ ایک ایک کر کے سب کو پاکستان کا دشمن اور غدار ثابت کرنے پر نہیں تلے ہوئے ؟ کیا کسی کو سمجھایا نہیں جا سکتا۔ کیا دوسروں کو قریب نہیں لایا جا سکتا۔ ’’تونے روکے محبت کے خود راستے اس طرح ہم میں ہوتی گئی دوریاں‘‘ پاکستان کے اندر رہنے والے پاکستانی ہیں۔ کوئی مکالمے کی فضا قائم ہونی چاہیے۔ یہ ہمارا گھر ہے ہم نے دیکھا نہیں کہ متحدہ والوں کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھیں۔ مگر ابھی تک نہ انہیں پاکستانی ہونے کا یقین ہے۔اس میں بہت سا کام ہمارے علماء کے کرنے کا ہے کہ اس ملک کی اساس یقیناً اسلام ہے کہ اسی نظریہ کے تحت یہ ریاست وجود میں آئی ہے۔ ہم ایک دوسرے کا حق تسلیم کرنے کی خو ڈالیں۔ ہم ایک دوسرے کو غدار ثابت کرنے پر اپنی توانائیاں خرچ نہ کریں اس ملک کی بقا کی فکر کریں کہ اتنا بڑا تجربہ کہ جس میں لاکھوں قربانیاں دیں دہرایا نہیں جا سکتا۔ اللہ اور رسولؐ کی مان جائیے انہیں اپنا بنانا ہے۔ تو ان کے بن جائیے ۔آخر میں کسی کا بھیجا ہوا شعر عمران خان کے لئیٖ روز خالی ہاتھ جب گھر لوٹ کر جاتا ہوں میں مسکرا دیتے ہیں بچے اور مر جاتا ہوں میں