میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا وہ شوخ آئینے کے برابر کھڑا رہا مجھ سے بھی آئینے کو ہٹایا نہیں گیا کچھ چیزیں سچ مچ بندے کے اختیار میں نہیں ہوتیں۔ کچھ لوگ اپنے تئیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر قسمت کہتی ہے تابہ کے! یعنی کب تک ’’پھر ہمت مرداں مدد خدا‘‘ یہ جن کا ایمان پختہ نہیں ہوتا اور وہ صرف اپنے مقصد در باطن تک ہوتے ہیں تھک ہار کر گر جاتے ہیں اور اگلے ہی لمحے موقع ملنے پر خود کو ہوائوں کے دوش پر رکھ دیتے ہیں۔ کہ میں ترا چراغ ہوں‘ جلائے جا بجھائے جا۔مجھے کہنے دیجئے کہ اس وقت فخر کرنے کا جواز کسی کے پاس نہیں۔ ایک موم بتی تھی اور بقول شہزاد احمد موم بتی پر دیگ نہیں پکائی جا سکتی۔ سوشل میڈیا پر ایک تماشہ لگا ہوا ہے’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘ کسی نے سوچا تھا کہ یہ دن آئیں گے کہ خود پر بھی اعتبار اٹھ جائے گا۔ ایک اور پتلی تماشہ دیکھنا پڑے گا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ فضل الرحمن کا شو کیا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ لندن کی اے پی سی میں واحد وہ تھے جنہوں نے کہا تھا کہ یہ نہ ہو چیف جسٹس افتخار چودھری پر اعتماد کر کے آپ کو پچھتانا پڑے۔ لوگ تو اس سے کہیں بڑے شخص پر اعتبار کر کے پچھتا رہے ہیں: غضب کیا ترے وعدے پر اعتبار کیا تمام رات قیامت کا انتظار کیا قومی سطح پر بھی ایک تماشے کا سماں ہے۔ معاملات ریشم کے دھاگے کی طرح بری طرح الجھتے جا رہے ہیں اور سرا کسی کو مل نہیں رہا۔ کوئی سنجیدہ اور فہم رکھنے والا شخص دور تک نظر نہیں آتا۔ دعوے پر دعوے کرنے والے عوامی نظروں میں جوکر بن چکے ہیں۔ اس نازک موقع کا فائدہ مولانا فضل الرحمن اٹھانا چاہتے ہیں تو بات سمجھ میں آنے والی ہے۔ لوہا بھی گرم ہے یا پھر یوں کہیں کہ دشمن کی کمزوری ہاتھ لگ گئی ہے۔ دو ڈوبتی ہوئی پارٹیوں کو مولانا تنکا نہیں شہتیر نظر آ رہے ہیں۔ سہارا تو وہ لیں گے۔ اشارہ بدل بھی سکتا ہے حکومت کی طرف سے انتہائی نالائقی کا مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ معاملے کو سنبھالنے کی بجائے خود ہی بگاڑ رہے ہیں۔ ایک طرف مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے خٹک کے زیر قیادت مولانا سے ملنے کا ارادہ اور اسی لمحے عمران خان کا اپنی تقریر میں یہ کہنا کہ یہ پہلی حکومت ہے جو ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے۔ مولانا کو بھڑکانے اور آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ لگتا ہے کہ انہیں یقین دلا دیا گیا ہے کہ دھرنا روک لیا جائے گا۔ مگر ایک سنجیدگی معاملہ فہمی بھی ہوتی ہے جس سے آپ کی شخصیت کے خدوخال بنتے ہیں۔ آپ خود اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی پاکستان کا سنجیدہ طبقہ تشویش میں مبتلا ہو گیا ہے کہ ایک طرف کشمیر کی صورت حال ہے جو سب کو بے چین کئے ہوئے ہے۔ اپنے تئیں لوگ تلملا رہے ہیں کہ بے بسی ان کے پائوں کی زنجیر ہے۔ تقریر سے بنا ہوا میگا امیج بھی رفتہ رفتہ تحلیل ہو رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر دعوے ہی دعوے کہ دس لاکھ نوجوانوں کو قرضے دیے جائیں گے مقصد یہ سن کر ٹرک کی بتی کے پیچھے پھر لائن لگ جائے۔ فواد چودھری نے تو بھولپن میں یا دیدہ دانستہ وہ غلط فہمی لوگوں کے دلوں سے نکال دی کہ یہ نوکریاں حکومت نے نہیںدینی تھیں۔ بقول ان کے حکومت تو ماحول بناتی ہے اور نجی کمپنیاں نوکریاں دیتی ہیں وہی نوٹ سے موڈ بنانے والی بات: تھوڑی سی وضعداری تو اس دل کے واسطے تونے تو اس میں وہم بھی پلنے نہیں دیا سب کچھ خواب ہی تو لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے کہ کنٹینر پر کئے گئے وعدوں کی گونج ہی نہیں بلکہ الفاظ بھی معدوم نہیں ہوئے۔ کم از کم ہمارے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ لوگ یہاں نوکریاں کرنے آئیں گے۔ پاکستان دوسرے ملکوں کو قرضہ دیا کرے گا وغیرہ وغیرہ اور پھر قبلہ کھڑے کھڑے ہی الٹی ایڑھی پر گھوم گئے۔ پھر نئے اور تازہ بہ تازہ خواب کہ ’’خوابوں سے دلنواز حقیقت نہیں کوئی‘ یہ بھی نہ ہو درد کا درمان بھی نہ ہو‘‘ وہی جو فراز نے کہا تھا کہ ’’ایک تو خواب لئے پھرتے ہو گلیوں گلیوں اور پھر تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ‘‘ بہرحال مولانا رنگ میں بھنگ ڈالنے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سب اپنے اپنے انداز میں قیاس آرائی کر رہے ہیں اور اس وقت نفسیاتی جنگ کا شائبہ ہے اور حواس کی مضبوطی کا امتحان ہے مولانا کی مسکراہٹ مخالفین کو غصہ بھی چڑھاتی ہے اور شکوک میں مبتلا بھی کرتی ہے۔ پھر زرداری یاد آتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے بلاول کو مولانا کی شاگردی میں دینے کا فیصلہ یونہی نہیں کیا تھا۔ لگتا یہی ہے کہ اب کے بات بارگینگ سے آگے کی ہے۔ جو ہائپ کرئیٹ ہو رہا ہے وہ اکیلے مولانا کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس کے بہت سے عوامل ہیں ’’اپنے اپنے بے وفائوں نے کیا یکجا ہمیں‘‘ خدا کے لئے غریب عوام کو لوریاں دینا بند کریں۔ پیٹ میں کچھ ہو گا تو وہ سوئیں گے۔ مجھے ایک برگزیدہ بندے نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ اس کا سونے کی مارکیٹ سے واسطہ ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ اب لوگ سونا خریدنے نہیں صرف بیچنے آتے ہیں کہ مڈل کلاس بڑی مشکل میں ہے۔ اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔ بجلی کے بل بھی کہاں پندرہ سولہ ہزار سے کم آتے ہیں۔ میں نے کہا کہ سونے کو چھوڑیں۔ آپ ویسے بھی سونا بھول جائیں گے اور جب سوئیں گے نہیں تو خواب بھی نہیں آئیں گے۔ تب آپ پر صحیح حقیقت کھلے گی۔ یہ تلخ باتیں ہیں کہ کیا کریں’’آج اس دل میں ذرا درد سوا ہوتا ہے۔ لوگ ٹھیک ہی تو پوچھ رہے ہیں کہ مولانا کے پیچھے کون ہے؟ اگر کوئی نہیں ہے تو پھر خوف کیسا ہے! بڑے کہتے ہیں کہ مفادات میں حتمی شے کچھ بھی نہیں ہوتی۔ سردیوں کی پہلی بارش آج ہو چکی ہے اور شاید اب سردیوں کا آغاز ہو جائے مگر سیاست میں گرمی آئے گی‘ چاہے یہ گرمی مصنوعی ہی کیوں نہ ہو۔ بارگیننگ کی گنجائش بھی نظر نہیں آرہی اور شاید یہ بارگیننگ سے آگے کی بات ہے۔ اگر مولانا کے اقدام کو بلف مان لیا جائے تو پھر پتے شو ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ دیکھیے حکومت جوابی چال چلتی ہے یا چال چلنے دیتی ہے۔ تاہم مولانا کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں۔ ہر صورت میں دھکے عوام کی قسمت میں ہیں۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: گردش میں ہم رہے ہیں تو اپنا قصور کیا تونے ہمیں کشش سے نکلنے نہیں دیا