حضرت علیؑ کا فرمان ہے کسی کاروباری شخصیت کو کبھی اپنا حکمران مت بنانا کیونکہ وہ حکمران بن کر بھی کاروبار ہی کرے گا: ہر پیشے سے وابستہ حضرات کا ایک ذہنی رویہ (mindset)ہوتا ہے جو ان کی نفسیات کا لازمی جزو بن جاتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ رویہ ایک عادت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جس سے یہ توقع کرنا کہ وہ حکمران بن کر اپنی پختہ عادت ترک کر کے حکمرانی کے اعلیٰ اوصاف کو اپنا لے گا: ایں خیال است و محال است و جنوں اب میں ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کروں گاکہ ایک تاجر کس طرح مسند اقتدار تک پہنچتا ہے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد کون سی روش اختیار کرتا ہے۔ میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف جب 1971کے لگ بھگ ماڈل ٹائون کے ایچ بلاک میں منتقل ہوئے تو مجھے ان کا ہمسایہ ہونے کا شرف حاصل ہو گیا۔ ان کے دونوں صاحبزادے گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھ چکے تھے جہاں میں لیکچرار تھا۔ یہ بات بھی میاں صاحب سے دوستی کا باعث بنی وہ ایک وضعدار بزرگ تھے۔ مجھ سے شفقت فرماتے تھے اور میں بھی ان کا بے حد احترام کرتا تھا۔ میاں صاحب ایک محنتی اور نہایت ذہین تاجر تھے۔ انہوں نے بڑی محنت سے اتفاق فونڈری کی تشکیل کی اور اسے حد کمال تک پہنچا دیا۔ وہ سر تاپا ایک کاروباری شخصیت تھے اور سیاست میں ان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو(مرحوم) نے ان کی فونڈری کو قومی ملکیت میں لیا تو انہیں شدید صدمہ پہنچا۔اس واقعے نے ان کو حکمرانی کی طاقت کا احساس دلایا اور وہ یہ سوچنے لگے کہ صنعت اور تجارت کے تحفظ اور ترقی کے لئے سیاست بھی ضروری ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ خاندان بھٹو صاحب کی وجہ سے سیاست میں آیا گویا میاں برادران کو صرف جنرل ضیاء الحق ہی کا نہیں بلکہ بھٹو صاحب کا احسان مند بھی ہونا چاہیے۔ بھٹو صاحب کے اس اقدام کا نتیجہ یہ ہوا کہ میاں محمد شریف کی سوچ کا دھارا بدل گیا گو بظاہر وہ اب بھی تاجر تھے لیکن ان کے اندر ایک سیاستدان جنم لے چکا تھا اب ان کی اولین ترجیح یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح ایوان اقتدار تک رسائی حاصل کی جائے۔اب ان کا یہ خیال یقین کی حد تک پہنچ چکا تھا کہ زر(دولت) کے تحفظ کے لئے اقتدار(حکومت) کا ہونا ضروری ہے۔ سوال یہ تھا کہ اقتدار کیسے حاصل کیا جائے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے انہوں نے اپنے تاجرانہ ذہن کی خدمات حاصل کیں اور پھر ان کے ذہن نے بھی کیا خوب ان کا ساتھ دیا۔ انہوں نے ملک کے سیاسی منظر نامے کا بنظر غائر جائزہ لیا، جنرل ضیاء الحق پاکستان کے حکمران تھے۔ جنرل غلام جیلانی خان پنجاب کے گورنر تھے۔ ضیاء الحق اور میاں شریف کے درمیان ایک نہایت مضبوط قدر مشترک(بھٹو دشمنی) موجود تھی۔ میاں صاحب نے اس قدر مشترک کو اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کی بنیاد بنایا۔ انہوں نے اقتدار کی منزل تک پہنچنے کے لئے جنرل غلام جیلانی خان کو پہلی سیڑھی بنانے کا فیصلہ کیا ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ جاننا ضروری تھا کہ کون سی شخصیت جنرل جیلانی کے بہت قریب ہے۔ انہیں پتہ چلا کہ ایک صاحب ہیں کرنل قیوم جو کسی زمانے میں جنرل جیلانی کے اے ڈی سی رہے ہیں۔ کرنل صاحب اور جنرل صاحب کے تعلقات اتنے گہرے ہیں گویا ایک ہی خاندان کے افراد ہوں۔ اب اگلا مرحلہ یہ تھا کہ کرنل قیوم تک کیسے رسائی حاصل کی جائے۔ خاصی تحقیق و تفتیش کے بعد انہیں پتہ چلا کہ لاہور کے ایک بیرسٹر ڈاکٹر عبدالباسط کرنل صاحب کے برادر نسبتی ہیں(ان کی بیگم کے بھائی) ڈاکٹر صاحب تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ڈاکٹر صاحب کے دوست ایک سینئر ایڈووکیٹ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ یوں راستہ سیدھا ہو گیا اور پھر ایک روز ایک گاڑی گورنر ہائوس کی طرف روانہ ہوئی جس میں ڈاکٹر عبدالباسط‘ کرنل قیوم(جو اب بریگیڈیئر قیوم تھے) اور نواز شریف بیٹھے تھے اس کے بعد میاں خاندان اور جیلانی صاحب کے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہونے لگے۔ میاں فیملی نے جنرل جیلانی پر نوازشات کی بارش کر دی ۔ بہرحال قصہ مختصر میاں نواز شریف کو پنجاب کا وزیر خزانہ بنا دیا گیا اور یوں وزارت عظمیٰ کی طرف نواز شریف کا سفر شروع ہو گیا۔ کوئی عام شخص ہوتا تو محض ایک بار وزیر اعظم بنتا۔ لیکن تاجر تو تمام عمر تجارت کرتا ہے لہٰذا وہ بار بار وزیر اعظم بنا، اب بھی اس کے نہاں خانہ دل میں چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی خواہش مچل رہی ہے وہ وزارت عظمیٰ کو اپنی ملکیتی مل سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بعد اس کی یہ وراثت اس کی بیٹی کو ملے اور پھر اللہ کے فضل سے اس کا بھی آگے ایک بیٹا ہے گویا 22کروڑ انسانوں میں وزیر اعظم بننے کا مستحق صرف ایک یا زیادہ سے زیادہ دو خاندان ہیں اس دوڑ میں بلاول اور اس کی بہن بھی شامل ہیں ۔آصف زرداری نے بھی اپنی زندگی کا آغاز بحیثیت ایک تاجر ہی کیا تھا۔ اب اس کا شمار پاکستان کے دولت مند ترین خاندانوں میں پانچویں یا چھٹے نمبر پر ہے ۔اول نمبر پر غریبوں کو روٹی کپڑا اور مکان دینے والا بھٹو خاندان براجمان ہے۔ بہرحال ذکر ہو رہا تھا، شریف فیملی اور جنرل جیلانی کا۔ جنرل صاحب کی بدولت نواز شریف وزیر خزانہ بنا تو دونوں خاندان نہایت قریب آ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل جیلانی کی کوٹھی پر حتیٰ کہ فرنیچر اور پردوں وغیرہ پر بھی جنرل صاحب کا ایک روپیہ نہیں لگا تھا جنرل صاحب ہی نے شریف فیملی کو جنرل ضیاء الحق سے متعارف کروایا۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں بھٹو دشمنی کی مشترکہ بنیاد پر شریف فیملی اس دور کے جرنیلوں کے اس قدر قریب آ گئی کہ ضیاء الحق کو میاں نواز شریف کے روحانی باپ کا مقام حاصل ہو گیا اور انہوں نے اپنی باقی ماندہ عمر نواز شریف کے نام کر دی۔ جنرل صاحب کی یہ خواہش جب دعا کی شکل میں بادلوں کا سینہ چیرتے ہوئے فلک پر پہنچی تو ضیاء الحق کی باقی ماندہ عمر میاں نواز شریف کو مل گئی اور جنرل صاحب اپنی بولی بول کر دنیائے چمنستان سے رخصت ہو گئے یہی وجہ ہے کہ اب بھی میاں صاحب لاتعداد مہلک بیماریوں کے باوجود زندہ سلامت ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں نظر بد سے اور پاکستان کو ان کی نظربد سے بچائے(آمین)۔ جلد ہی جنرل ضیاء الحق اور میاں محمد شریف گہری دوستی کے رشتے میں بندھ گئے۔ جنرل صاحب میاں شریف سے گاہے گاہے فون پر بھی بات کر لیتے تھے۔ دونوں کے مزاج علمی قابلیت اور نظریات میں گہری مماثلت تھی۔ جب Hبلاک ماڈل ٹائون لاہور میں میاں صاحب نے اتفاق مسجد بنائی تو افتتاح کے لئے جنرل ضیاء الحق تشریف لائے میرا گھر مسجد سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ جب میں نے جنرل صاحب کے ورودِ مسعود کی خبر سنی تو بھاگم بھاگ میں بھی وہاں پہنچا۔ وہاں مجھے پہلی بار جنرل صاحب کے دیدار کی سعادت نصیب ہوئی ان کا چہرہ حسب معمول ایک دلکش مسکراہٹ چمکدار بتیسی اور غیر معمولی اعتماد کا مظہر تھا۔ (جاری ہے)