’’ جنرل قاسم سلیمانی کے امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہونے کی جمعہ کی صبح بریک ہونے والی خبر نے جہاں پورے ایران کوجھنجھوڑ کے رکھ دیا،وہاں امریکہ ،اسرائیل اور اس کے حواریوں کیلئے یہ خوشخبری سے کم نہ تھی ۔ جنرل قاسم سلیمانی کو جمعہ کی صبح عراقی ملیشیاکے ایک اہم کمانڈرسمیت پانچ دیگر ساتھیوں سمیت اس وقت شہید کردیا گیا جب ان کاقافلہ بغداد ہوائی اڈے سے نکل رہاتھا۔قاسم سلیمانی 1957ء کو شمال مشرقی صوبے کرمان کے قنات ِ مالک گاوں کے ایک غریب خاندان میں پیداہوئے۔ابتداء میں وہ ایک کرمان کے آبی ادارے میںایک کنسٹرکٹرکے طور پر منسلک ہوئے تاہم 1979ء میں ایرانی انقلاب کے دوران انہوں نے( آئی آرجی سی)ایران کے انقلابی گارڈ کو جوائن کیا۔ خداداد صلاحیتوں کے مالک قاسم سلیمانی بہت جلد ترقی کے منازل طے کرتے گئے ۔وہ ایک قومی ہیروکے طورپر پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آئے جب عراق اور ایران جنگ کے دوران انہوں نے بہت غیر معمولی خدمات سرانجام دیں۔طویل تجربے اوراہلیت کی بنیاد پر1998ء میں وہ پاسداران انقلاب کے ایک خصوصی ونگ قدس فورس کے سربراہ بن گئے۔2003ء میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو دوسال بعد عراق میں بننے والی حکومت اور وہاں کے سیاسی امورمیںسلیمانی نے اپنا اثرورسوخ بھی بڑھایا۔2011ء میں شام میں خانہ جنگی کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ چل پڑا تو جنرل قاسم سلیمانی ہی تھے جنہوں نے اپنے عراقی ملیشیاء کے بے شمار جنگجو اہلکاروں کو صدر بشارالاسد کی حکومت بچانے کیلئے شام جانے کا حکم دیا۔لبنان میں طاقتور شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے ساتھ ایران کے تعلقات مضبوط کرنے میں بھی سلیمانی کابڑااہم کردار تھا۔ کہاجاتاہے کہ نوے کی دہائی میں سلیمانی حزب اللہ کے ایک اہم عسکری کمانڈرعماد مغنیہ کے ساتھ مل کر حزب اللہ کو لبنان میں اسرائیلی افواج کے خلاف گوریلا حملوں کے احکامات جاری کرتے تھے۔مئی 2000ء میںجب اسرائیل کو پسپائی اختیار کرناپڑی تواس عظیم کامیابی کا کریڈٹ جنرل سلیمانی، ان کے جانبازفورس قدس اور حزب اللہ کے حصے میں آئی۔عراق میں آئی ایس آئی ایس (داعش) کے نام سے ابھرنے والی خونخوارجنگجو تنظیم کے خلاف طویل اور کامیاب مزاحمت کا سہرا بھی سلیمانی کے سر جاتاہے۔اسی طرح شام میں بھی روس کی حمایت سے داعش کے خلاف بھی سلیمانی کی فورسز نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں ۔کرشماتی شخصیت کے مالک باسٹھ سالہ قاسم سلیمانی اس سے پہلے بھی کئی بار قاتلانہ حملوں کے زدمیں آئے تھے تاہم تین جنوری کی صبح امریکی ڈرون حملہ ان کی زندگی کے خاتمے پر منتج ہوا۔2011ء میں امریکہ نے انہیںشامی حکومت کی مبینہ حمایت کے جرم میں اپنے کئی ساتھیوں سمیت دہشت گرد قرار دے کران پر پابندی عائد کردی ۔ایک موقر امریکی اخبار کے اس دعوے میں معلوم نہیں کتنی سچائی تھی کہ امریکہ اور اسرائیل 2007ء تک سلیمانی کو مارنا نہیں چاہتاتھا تاہم حزب اللہ کے اہم کمانڈر عماد مغنیہ سی آئی اے اور موساد کی ہٹ لسٹ پرتھے ۔ کیونکہ امریکہ کے مطابق مغنیہ بیروت میں امریکی سفارتخانے اور امریکی میرائن ہیڈکوارٹر کے حملوں میں ملوث تھے جسمیں دوسو کے قریب امریکی ہلاک ہوئے تھے۔دوسری طرف اسرائیل کو بھی مغنیہ راستے سے ہٹاناچاہتاتھا کیونکہ وہ انہیں 1992ء میں ارجنٹینا میں اسرائیلی سفارتخانے پر حملے کا ماسٹر مائندسمجھتے تھا جس میں ستائیس اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے ۔اسرائیل اور لبنان کے درمیان لڑنے والی دوسری جنگ کے دنوں میں امریکی صدر بش نے سی آئی اے کوموساد کے ساتھ مل کر عمادمغنیہ کومارنے کی منظوری دے دی تھی لیکن موقع پانے کے باوجود عماد مغنیہ کو مارنے سے اسلئے احترازکیاگیاکیونکہ سلیمانی بھی ان کے ساتھ موجودتھے۔بعد میں بارہ فروری2008 ء کوعماد مغنیہ کو دمشق کے مضافات میں اسرائیلی جاسوسوں نے اس وقت ایک بم حملے میں نشانہ بناکرشہید کردیا جب وہ ایرانی انقلاب کی ستائیسویں برسی میں شرکت کیلئے جارہے تھے۔قاسم سلیمانی نہ صرف عام ایرانیوںکے ہیرو سمجھے جاتے تھے بلکہ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے دل میں بھی جگہ بنائی تھی۔ان کی شہادت کی خبر سنتے ہی خامنائی نے فوری طور پر امریکہ سے سخت انتقام لینے اور ایران میں تین روزہ سوگ منانے کا اعلان کیااور ساتھ ساتھ اسماعیل قانی کو ان کے نائب کے طور پر قدس فورس کا کمانڈر تعینات کردیا۔قاسم سلیمانی کی بعض پالیسیوں سے اختلاف اپنی جگہ لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتاکہ وہ ایک طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ، امریکہ کے بغل بچے اسرائیل اور امریکہ کے حواریوں کیلئے مسلسل دردسر بنے ہوئے تھے۔پچھلے سال ڈونلڈ ٹرمپ سلیمانی دشمنی میںیہاں تک گئے کہ نہ صرف ان کو خطرناک دہشت گرد قرار دینے کی تجدید کی بلکہ ان کی مسلسل محنت اور تربیت کے نتیجے میں تیار ہونے والی قدس فورس کوبھی خارجی دہشتگرد گروہ ڈکلیئرکردیا۔ سوال اب یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایرانی پالیسی ساز اور ایک اہم نیٹ ورک کو مانیٹر کرنے والے قاسم سلیمانی کو مارنے کے بعد ایران کا ردعمل کیاہوگا؟ بہت سے لوگ تو سلیمانی کی موت کے بعد پیدا ہونے والی امریکہ ایران ٹینشن کو تیسری عالمی جنگ کاآغاز سمجھتے ہیں لیکن میرے خیال میں اسے محض ایک جذباتی تجزیہ کہاجاسکتاہے ۔تاہم اتنا ضرور کہاجاسکتاہے کہ ایران کا اینٹی امریکی پالیسیوں میں اضافہ بھی آسکتاہے اور مناسب مواقع پر امریکی مفادات پر کاری ضربیں لگانے سے بھی اب ایران احتراز نہیں کرے گا۔ چند روز پہلے عراق میں صرف ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بدلے میں امریکہ نے ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا کے کمپاونڈ کو نشانہ بناکر چوبیس اہلکار شہید کردیئے تھے اور پھر جمعہ کو جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے کئی اہم ساتھیوں کو کو نشانہ بناکر امریکہ نے ایرانی غم وغصے میں مزید اضافہ کردیا۔ظاہری بات ہے کہ اس انتہائی ٹینشن کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کے پہلے سے خراب حالات اب مزید خرابی کی طرف جاسکتے ہیں اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو معاملات بگڑ سکتے ہیں۔ایران کو مسلسل اشتعال دلانے کی کئی وجوہات ہیں کیونکہ ایک طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں باالخصوص اسرائیل اور سعودی عربیہ کو اس طرح کی جارجیت کے ذریعے مزید اعتماد میں لینے کی کوششیں کررہے ہیں اور دوسری طرف وہ ایسی کاروائیوں کو اگلے صدارتی انتخابات میں بھی اپنی جیت کیلئے اہم سمجھتے ہیں۔
سلیمانی کی ہلاکت کی امریکی حماقت
اتوار 05 جنوری 2020ء
’’ جنرل قاسم سلیمانی کے امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہونے کی جمعہ کی صبح بریک ہونے والی خبر نے جہاں پورے ایران کوجھنجھوڑ کے رکھ دیا،وہاں امریکہ ،اسرائیل اور اس کے حواریوں کیلئے یہ خوشخبری سے کم نہ تھی ۔ جنرل قاسم سلیمانی کو جمعہ کی صبح عراقی ملیشیاکے ایک اہم کمانڈرسمیت پانچ دیگر ساتھیوں سمیت اس وقت شہید کردیا گیا جب ان کاقافلہ بغداد ہوائی اڈے سے نکل رہاتھا۔قاسم سلیمانی 1957ء کو شمال مشرقی صوبے کرمان کے قنات ِ مالک گاوں کے ایک غریب خاندان میں پیداہوئے۔ابتداء میں وہ ایک کرمان کے آبی ادارے میںایک کنسٹرکٹرکے طور پر منسلک ہوئے تاہم 1979ء میں ایرانی انقلاب کے دوران انہوں نے( آئی آرجی سی)ایران کے انقلابی گارڈ کو جوائن کیا۔ خداداد صلاحیتوں کے مالک قاسم سلیمانی بہت جلد ترقی کے منازل طے کرتے گئے ۔وہ ایک قومی ہیروکے طورپر پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آئے جب عراق اور ایران جنگ کے دوران انہوں نے بہت غیر معمولی خدمات سرانجام دیں۔طویل تجربے اوراہلیت کی بنیاد پر1998ء میں وہ پاسداران انقلاب کے ایک خصوصی ونگ قدس فورس کے سربراہ بن گئے۔2003ء میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو دوسال بعد عراق میں بننے والی حکومت اور وہاں کے سیاسی امورمیںسلیمانی نے اپنا اثرورسوخ بھی بڑھایا۔2011ء میں شام میں خانہ جنگی کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ چل پڑا تو جنرل قاسم سلیمانی ہی تھے جنہوں نے اپنے عراقی ملیشیاء کے بے شمار جنگجو اہلکاروں کو صدر بشارالاسد کی حکومت بچانے کیلئے شام جانے کا حکم دیا۔لبنان میں طاقتور شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے ساتھ ایران کے تعلقات مضبوط کرنے میں بھی سلیمانی کابڑااہم کردار تھا۔ کہاجاتاہے کہ نوے کی دہائی میں سلیمانی حزب اللہ کے ایک اہم عسکری کمانڈرعماد مغنیہ کے ساتھ مل کر حزب اللہ کو لبنان میں اسرائیلی افواج کے خلاف گوریلا حملوں کے احکامات جاری کرتے تھے۔مئی 2000ء میںجب اسرائیل کو پسپائی اختیار کرناپڑی تواس عظیم کامیابی کا کریڈٹ جنرل سلیمانی، ان کے جانبازفورس قدس اور حزب اللہ کے حصے میں آئی۔عراق میں آئی ایس آئی ایس (داعش) کے نام سے ابھرنے والی خونخوارجنگجو تنظیم کے خلاف طویل اور کامیاب مزاحمت کا سہرا بھی سلیمانی کے سر جاتاہے۔اسی طرح شام میں بھی روس کی حمایت سے داعش کے خلاف بھی سلیمانی کی فورسز نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں ۔کرشماتی شخصیت کے مالک باسٹھ سالہ قاسم سلیمانی اس سے پہلے بھی کئی بار قاتلانہ حملوں کے زدمیں آئے تھے تاہم تین جنوری کی صبح امریکی ڈرون حملہ ان کی زندگی کے خاتمے پر منتج ہوا۔2011ء میں امریکہ نے انہیںشامی حکومت کی مبینہ حمایت کے جرم میں اپنے کئی ساتھیوں سمیت دہشت گرد قرار دے کران پر پابندی عائد کردی ۔ایک موقر امریکی اخبار کے اس دعوے میں معلوم نہیں کتنی سچائی تھی کہ امریکہ اور اسرائیل 2007ء تک سلیمانی کو مارنا نہیں چاہتاتھا تاہم حزب اللہ کے اہم کمانڈر عماد مغنیہ سی آئی اے اور موساد کی ہٹ لسٹ پرتھے ۔ کیونکہ امریکہ کے مطابق مغنیہ بیروت میں امریکی سفارتخانے اور امریکی میرائن ہیڈکوارٹر کے حملوں میں ملوث تھے جسمیں دوسو کے قریب امریکی ہلاک ہوئے تھے۔دوسری طرف اسرائیل کو بھی مغنیہ راستے سے ہٹاناچاہتاتھا کیونکہ وہ انہیں 1992ء میں ارجنٹینا میں اسرائیلی سفارتخانے پر حملے کا ماسٹر مائندسمجھتے تھا جس میں ستائیس اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے ۔اسرائیل اور لبنان کے درمیان لڑنے والی دوسری جنگ کے دنوں میں امریکی صدر بش نے سی آئی اے کوموساد کے ساتھ مل کر عمادمغنیہ کومارنے کی منظوری دے دی تھی لیکن موقع پانے کے باوجود عماد مغنیہ کو مارنے سے اسلئے احترازکیاگیاکیونکہ سلیمانی بھی ان کے ساتھ موجودتھے۔بعد میں بارہ فروری2008 ء کوعماد مغنیہ کو دمشق کے مضافات میں اسرائیلی جاسوسوں نے اس وقت ایک بم حملے میں نشانہ بناکرشہید کردیا جب وہ ایرانی انقلاب کی ستائیسویں برسی میں شرکت کیلئے جارہے تھے۔قاسم سلیمانی نہ صرف عام ایرانیوںکے ہیرو سمجھے جاتے تھے بلکہ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے دل میں بھی جگہ بنائی تھی۔ان کی شہادت کی خبر سنتے ہی خامنائی نے فوری طور پر امریکہ سے سخت انتقام لینے اور ایران میں تین روزہ سوگ منانے کا اعلان کیااور ساتھ ساتھ اسماعیل قانی کو ان کے نائب کے طور پر قدس فورس کا کمانڈر تعینات کردیا۔قاسم سلیمانی کی بعض پالیسیوں سے اختلاف اپنی جگہ لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتاکہ وہ ایک طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ، امریکہ کے بغل بچے اسرائیل اور امریکہ کے حواریوں کیلئے مسلسل دردسر بنے ہوئے تھے۔پچھلے سال ڈونلڈ ٹرمپ سلیمانی دشمنی میںیہاں تک گئے کہ نہ صرف ان کو خطرناک دہشت گرد قرار دینے کی تجدید کی بلکہ ان کی مسلسل محنت اور تربیت کے نتیجے میں تیار ہونے والی قدس فورس کوبھی خارجی دہشتگرد گروہ ڈکلیئرکردیا۔ سوال اب یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایرانی پالیسی ساز اور ایک اہم نیٹ ورک کو مانیٹر کرنے والے قاسم سلیمانی کو مارنے کے بعد ایران کا ردعمل کیاہوگا؟ بہت سے لوگ تو سلیمانی کی موت کے بعد پیدا ہونے والی امریکہ ایران ٹینشن کو تیسری عالمی جنگ کاآغاز سمجھتے ہیں لیکن میرے خیال میں اسے محض ایک جذباتی تجزیہ کہاجاسکتاہے ۔تاہم اتنا ضرور کہاجاسکتاہے کہ ایران کا اینٹی امریکی پالیسیوں میں اضافہ بھی آسکتاہے اور مناسب مواقع پر امریکی مفادات پر کاری ضربیں لگانے سے بھی اب ایران احتراز نہیں کرے گا۔ چند روز پہلے عراق میں صرف ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بدلے میں امریکہ نے ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا کے کمپاونڈ کو نشانہ بناکر چوبیس اہلکار شہید کردیئے تھے اور پھر جمعہ کو جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے کئی اہم ساتھیوں کو کو نشانہ بناکر امریکہ نے ایرانی غم وغصے میں مزید اضافہ کردیا۔ظاہری بات ہے کہ اس انتہائی ٹینشن کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کے پہلے سے خراب حالات اب مزید خرابی کی طرف جاسکتے ہیں اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو معاملات بگڑ سکتے ہیں۔ایران کو مسلسل اشتعال دلانے کی کئی وجوہات ہیں کیونکہ ایک طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں باالخصوص اسرائیل اور سعودی عربیہ کو اس طرح کی جارجیت کے ذریعے مزید اعتماد میں لینے کی کوششیں کررہے ہیں اور دوسری طرف وہ ایسی کاروائیوں کو اگلے صدارتی انتخابات میں بھی اپنی جیت کیلئے اہم سمجھتے ہیں۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں اتوار 05 جنوری 2020ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں