اکیس دسمبر کی دھند میں لپٹی ہوئی صبح اور سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(SIMS) جسے عرف عام میں سمز کہا جاتا ہے کی کانووکیشن ایک خوشگوار اور یادگار تجربہ سے کم نہ تھا۔ ہم جس ایڈیٹوریم میں مشاعرے پڑھتے آ رہے ہیں وہاں آج ینگ ڈاکٹرز کی یہ اوتھ سیری منی اپنی نوعیت کی ایک شاندار تقریب تھی۔ میں اسے روایتی انداز میں بیان نہیں کروں گا کہ پہلے مجھے اس ہونہار ڈاکٹر کا تذکرہ کرنا اچھا لگے گا کہ جس نے 26گولڈ اور سلور میڈلز حاصل کئے۔ غیر معمولی لیاقت کا حامل یہ ڈاکٹر مراد محمود جسے معنوی اعتبار سے اس کے والدین کی محمود مراد بھی کہا جا سکتا ہے۔ ظاہر اسے پانچ سال کا سب سے اہم طالب علم بھی قرار دیا کہ مقابل اس کے کون تھا! ڈاکٹر محمد امجد نے کمپیرنگ کرتے ہوئے درست کہا تھا کہ ڈاکٹر مراد محمود کے میڈل گنواتے ہوئے مجھے درمیان میںپانی کا وقفہ کرنا پڑے گا۔ سمز کے پرنسپل محمود ایاز ظاہر ہے محمود و ایاز کا مجموعہ ہی ہیں۔ تدبر اور ذھانت کے ساتھ ساتھ انتظامی امور میں طاق۔ ہال میں رنگوں کی قوس قزح تھی۔ نئے ڈاکٹرز اپنے والدین کے ساتھ حلف اٹھانے کے منتظر۔خوشی اور انبساط کا ماحول تھا کہ حق داروں نے پکی فصل اٹھانا تھی اور اپنے مستقبل کی طرف بڑھنا تھا۔ پیچھے بینر پر لکھا تھا کہ یہ پانچواں کانووکیشن تھا اور گیارہواں بیچ۔ ہماری وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بحیثیت صدر محفل مہمانان گرامی کے درمیان براجمان تھیں ان کے دائیں بائیں پروفیسر خواجہ صادق حسین سابق پرنسپل کے ای‘ پروفیسر ظفر اللہ چودھری موجودہ صدر کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز آف ہارٹ‘ پروفیسر جاوید رضا گردیزی سابق چیئرمین آف سرجری اور پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز پرنسپل سمز سنہرے گائونز اور ہڈر میں جگمگا رہے تھے۔ آپ اس لباس کو خلعت ہائے فاخرہ ہی سمجھیں۔ تلاوت کلام پاک کے بعد ترانہ تھا۔ اس تقریب کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ ساری کارروائی اردو میں تھی پتہ چلا کہ یاسمین راشد کے مشورے سے ایسا کیا گیا اور دوسرے میڈیکل انسٹی ٹیوٹس میں بھی یہی طریقہ اپنایا جائے گا۔ میں خوش ہوا کہ اردو کی ترویج کے لئے فاطمہ قمر اور عزیز ظفر آزاد لوگوں کی کاوشیں رنگ لا رہی ہیں۔ حلف تک اردو زبان میں لیا گیا۔ کمال یہ ہوا کہ ایک فارمل تقریب کو ڈاکٹر محمد امجد نے کمال خوبی سے بے تکلف ماحول میں چلایا اور سب لطف اندوز ہوئے۔ جب محترمہ یاسمین راشد نے بتایا کہ وہ الحمد للہ 69برس کی ہو چکی ہیں تو محمد امجد نے کہا کہ وہ پہلی دبنگ خاتون ہیں جنہوں نے برملا اپنی عمر بتا دی ہے لیکن یہ کوئی زیادہ عمر نہیں ہے کہ جب خواجہ صادق حسین کنگ ایڈورڈ کالج سے مکمل ڈاکٹر بن کر نکلے تھے تب محترمہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھیںکہ خواجہ صادق حسین 94کے ہو چکے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کی تقریر تو خاصے کی چیز تھی۔ وہ اپنی ہی موج میں باتیں کرتی رہی ہیں اور سب لوگ ہمہ تن گوش رہے انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر بننا ان کا جنون تھا وہ کوئی لائق طالبہ نہیں تھیں۔ پہلے دو سال انتظار میں گزارے پھر وہ میڈیکل کے میرٹ پر آئیں اور تب جا کر ان کا گائنا کالوجسٹ بننے کا خواب پوراہوا۔ انہوں نے ینگ ڈاکٹرز کو بتایا کہ اس پروفیشن میںمحنت ہی محنت اور لگن ہے۔ زندگی کو بچانا کوئی معمولی بات نہیں اس کا بدلہ یہاں مل ہی نہیں سکتا۔ ڈاکٹر کو جب مسیحا کہا جاتا ہے تو اس کا ناتہ جا کر پیغمبر سے جڑ جاتا ہے۔ تو یہ پیغمبرانہ فعل ہے۔حادی برحق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ایک آدمی کی جان بچائی اس نے گویا ساری نوع انسانیت کی جان بچائی۔ انہوں نے درست کہا کہ ڈاکٹر کی زندگی اس کے والدین کی طرف سے بھی صدقہ جاریہ ہے۔ بشرطیکہ وہ خلوص دل سے اور اللہ کی رضا کے لئے انسانیت کی خدمت کرے اور اگر وہ اس کے برعکس مادہ پرستی میں پڑ گیا تو وہ عذاب جاریہ ثابت ہو گا۔ انہوں نے پرنسپل محمود ایاز سے کہا کہ وہ سمز کے لئے ڈیمانڈ کرتے ہیں تو انہیں فراموش نہیں کیا جائے گا۔ پتہ یہ چلا کہ وہ فون کر کے محمود ایاز سے پوچھتی رہتی ہیں کہ کیا کیا چاہیے اور پھر کئی شعبوں کا قیام بھی آیا اور کئی شعبوں میں سہولیات فراہم کی گئیں۔ ڈاکٹر محمد امجد نے بجا کہا کہ لوگ اپنی ڈیمانڈ لے کر محترمہ یاسمین راشد کے پیچھے ہیں جبکہ محترمہ یاسمین راشد ان کے پرنسپل محمود ایاز کے پیچھے ہیں۔ سمز ایک نیا ادارہ ہے اور یہ بہت خوبصورت ہے اب یہاں پوسٹ گریجوایٹ بھی کئی شعبوں میں ہو رہا۔ یہاں ڈاکٹر محمد امجد نے نہایت دلچسپ بات بتائی کہ یہ پوسٹ گریجوایٹ جو آج کل پانچ چھ سال میں ہو جاتا ہے کبھی بیس یا بائیس سال میں ممکن تھا۔ تب ایک ڈاکٹر نے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد پوسٹ گریجوایشن کی تو اس کی عمر42سال ہو چکی تھی۔ جب اس کو ایک گھر میں لے جایا گیا کہ لڑکی والے دیکھ لیں تو دروازہ کھولنے والی خاتون ڈاکٹر کو دیکھ کر بے ہوش ہو گئی۔ ہوش میں آئیں تو اس محترمہ نے بتایا کہ یہ ڈاکٹر جو اس کی بیٹی کو دیکھنے آیا ہے وہ 20سال قبل اسے دیکھنے آیا تھا۔ خیر پروفیسر ظفر اللہ چودھری نے نئے ڈاکٹر سے حلف لیا اور انہیں میڈلز پہنالے۔ سٹیج پر بیٹھے مہمانوں کو بھی سپیشل شیلڈز دی گئیں۔ تقریباً چار گھنٹے تک تقریب چلی۔ ڈاکٹر محمد امجد نے میرا تعارف کروایا تو میرے اشعار پڑھے۔ ایک آپ بھی پڑھ لیں: جہاں پھولوں کو کھلنا تھاوہیں کھلتے تو اچھا تھا تمہیں کو ہم نے چاہا تھا تمہیں ملتے تو اچھا تھا اور پھر نہایت دلچسپ بات یہ ہوئی کہ وہاں جو لوگ مجھے ملنے کے لئے آئے ان میں ایک نہایت معصوم اور شرمیلا سا ینگ ڈاکٹر بھی تھا۔ اس نے بتایا کہ میں ہی ڈاکٹر عرفان ہوں جس کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ پھر اس نے وضاحت کی کہ وہ تو وکلا سے پریس کے سامنے معافی مانگ چکا تھا۔ ایک اور بات مجھے اچھی لگی کہ جب ڈاکٹر محمد امجد سٹیج سے ڈاکٹر اساتذہ کا تعارف کروا رہے تھے تو ان میں ایک ڈاکٹر وکیل بھی تھا۔ ایک قہقہہ بلند ہوا مگر امجد صاحب نے کہا کہ ہم کالے کوٹ کا بہت احترام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دل کے ہسپتال پر حملہ کرنے والے وکیل نہیں بلکہ کوئی اور لوگ تھے۔ اس کے بعد فوٹوسیشن اور نہایت پرتکلف کھانا تھا مگر اس سے بھی بڑھ کر ڈاکٹر خواجہ صادق حسین کے ساتھ گپ شپ تھی ان کے ساتھ ڈاکٹر محمد سعید کھوکھر تھے۔ ڈاکٹر خواجہ صادق حسین نے بتایا کہ اچھا کام کرنے والوں کا راستہ یہاں روکا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک ڈاکٹر کا قصہ سنایا جس نے ہیپا ٹائٹس سی کے لئے ایک گولی بنائی تھی انٹر فران۔ گولی کہ جس کی قیمت 1500روپے ہوا کرتی تھی کا مقابلہ کرتی تھی مگر رشوت کھانے والوں نے اس گولی کو رجسٹر بھی نہ ہونے دیا۔ کیونکہ اس گولی کی لاگت صرف 35روپے تھی کبھی اس حوالے سے تفصیل میں لکھوں گا ایک شعر کے ساتھ اجازت: لفظ ٹوٹے لبِ اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے