وہ دن اہلیان کراچی کے لیے کافی پریشان کن تھا۔ جس دن فیصل واوڈا کی خالی ہونے والی سیٹ این اے 249پر ضمنی انتخابات تھے۔ اس دن رمضان المبارک کا16واںروزہ تھا۔ چند دنوں سے کراچی ویسے بھی سورج کے نزدیک آگیا تھا۔ کورونا کی تیسری لہر کے دوران اب کووڈ ویکسین سینٹرز پر رش زیادہ ہے اس لیے این اے 249کے پولنگ بوتھ سنسان پڑے تھے۔ مسلم لیگ ن کراچی میں نہ تو منظم ہے اور نہ متحرک ہے۔ اس لیے ان کی ہار پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئیے تھی ۔ پچھلی با ر اگر مسلم لیگ ن نے اسی حلقے سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے تو اس کا سبب یہی تھا کہ اس بار میاں شہباز شریف وہاں سے انتخابات لڑ رہے تھے اور فیصل واوڈا جیسے نئے پارلیمانی پہلوان نے انہیں چت کردیا۔ اس بار این اے 249کے ووٹرز تحریک انصاف سے ذراناراض تھے کہ ان کے امیدوار نے سینیٹ کے لیے سیٹ کیوں چھوڑی؟اس سوال کا جواب تو تحریک انصاف ہی سکتی ہے مگرپیپلزپارٹی نے مذکورہ حلقے اور عام طور پر ملکی سیاست میں پیدا ہونے والے تضادات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور سندھ حکومت کے سہارے وہ سیٹ جیت گئی۔ جس جیت کا جشن مناتے ہوئے پیپلزپارٹی یہ تک بھول گئی کہ کورونا کی تیسری لہر میں شدت آ رہی ہے۔ تحریک انصاف کراچی میں بھی وہی غلطی کر رہی ہے۔ جو وہ پورے ملک میں کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکن حکومت بنانے کے بعد بیٹھ گئے ہیں۔جب کہ انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ اصل جدوجہد اقتدار میں آنے کے بعد میں ہوا کرتی ہے۔کراچی بھی اب اقتداری سازشوں کا گڑھ بن گیا ہے۔’’حکومت تو ہماری ہے ایک سیٹ سے کیا فرق پڑی گا؟‘‘ یہ سوچ سبب بنی تحریک انصاف کی اس ہار کا جس کے بارے میں پیپلز پارٹی بغلیں بجا رہی ہے۔پیپلز پارٹی اگر تحریک انصاف سے مقابلہ کرکے اسے شکست دیتی تو شاید اس کو اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی خوشی وہ مسلم لیگ ن کو ہرا کر محسوس کر رہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف نے پی ڈی ایم سے بغاوت کرنے والی پارٹی کو ایک سیٹ کی جیت کا تحفہ دیا ہو ۔سیاست میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ ویسے بھی اب پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کے نزدیکی عشق اور مشک کی طرح چھپنے کا نام نہیں لیتی۔ کیا مسلم لیگ ن کو یہ احساس ہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کوایک دوسرے کے نزدیک لانے میں خود مسلم لیگ ن کا کتنا بڑا کردار ہے؟ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول این اے249کی جیت پر تو بہت خوش تھے مگر ان کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ان کی پارٹی اپنی اصل بنیاد سے محروم ہو رہی ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی بنیاد سندھ کے وہ لوگ ہیں جو ضمنی الیکشن والے دن بحریہ سٹی کے سلسلے میں پیپلز پارٹی کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس دن سے لیکر آج تک سندھ کا سوشل میڈیاپیپلز پارٹی کے خلاف آگ کی طرح بھڑک رہا ہے۔ مگر پیپلز پارٹی کو کوئی پرواہ نہیں ۔ وہ کل کی طرح آج بھی یہ سوچ کر خوش ہے کہ سندھ کے عوام کے پاس جب اورکوئی متبادل نہیں ہے تو وہ کہاں جائیں گے؟ مگر سیاست بھی جادونگری کی طرح ہوتی ہے۔یہاں کبھی بھی اور کچھ بھی ہوسکتا ہے۔یہ سوچ پیپلز پارٹی کی گلی سے بھی نہیں گذری۔اس لیے وہ اقتدارکے نشے میں مخمور ہے۔جب کہ سندھ کے لوگ چیخ رہے ہیں۔ وہ چلا رہے ہیں مگر ان کی آوازبلاول ہاؤس کی بلند دیواروں سے ٹکرا کرلوٹ آتی ہے۔ ان کی آواز میں پہلے غم تھا مگر اب غصہ بھی شامل ہو رہا ہے۔ سیاست میں حد سے زیادہ اعتماد بے پرواہی کو جنم دیتا ہے اور بے پرواہی سے زیادہ بری چیز اور کوئی نہیں ہوسکتی۔جس طرح محبت محبت کو جنم دیتی ہے اسی طرح بے پرواہی دوسری طرف بھی بے پرواہی کا سبب بنتی ہے۔ حیرت ہے کہ پیپلز پارٹی کو اس بات کا خوف نہیں کہ اگر اہلیان سندھ نے بھی اس کی طرح بے پرواہی اپنالی تو پھر پیپلز پارٹی کا کیا ہوگا؟پیپلزپارٹی اپنے گرد ناپسندیدگی کا ایک ایسا گھیرا وجود میں لا رہی ہے جو اس کو بہت تنہا کرسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے سیاست میں ہمیشہ کارڈز استعمال کیے ہیں۔جب پی پی کو محسوس ہوتا ہے کہ سندھ کا مڈل کلاس اس کے خلاف غصے میں بھر کا ہے تو قومپرستی کا کارڈ استعمال کرتی ہے۔پیپلز پارٹی کو یقین آگیا ہے کہ وہ کارڈز کے ذریعے کامیابی کا راستہ بناتی رہے گی۔ اس لیے جب پیپلز پارٹی نے سیاست میں جتنے غیرمقبول فیصلے لیے یہ سوچ کر لیے کہ وہ کوئی نہ کوئی کارڈ استعمال کرکے اپنے آپ کو نقصان سے بچا لے گی۔ پیپلز پارٹی نے کون سے کارڈ استعمال نہیں کیے؟ جب بھٹو کا رڈ استعمال کر چکی تو اس نے بینظیر بھٹو کارڈ استعمال کیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سب سے زیادہ موثر کارڈ ’’اے ٹی ایم‘‘ کارڈ ہے۔ یہ کارڈ سب پر بھاری ہے۔ جب پیپلز پارٹی نے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ’’ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ تو اس وقت اے ٹی ایم کارڈ کی سیاست شروع کر چکی تھی۔ اس وقت بھی پیپلز پارٹی سندھ میں سب سے زیادہ اے ٹی ایم کارڈ ہی استعمال کرتی ہے۔ الیکشن لڑنے میں جس طرح پیپلز پارٹی نے اس کارڈ کا استعمال کیا ہے؛ اس سے پورے ملک کی سیاست کا کلچر متاثر ہوا ہے۔ اس کارڈ کی وجہ سے غریب ووٹرز بھی خریدے جاتے ہیں اور جو پیسہ خرچ کر کے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں؛ ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی پیپلز پارٹی اے ٹی ایم کارڈ کا استعمال کرتی ہے اور اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ پیپلز پارٹی نے سیاست اور تجارت کے درمیان جو لکیر تھی اس کو بڑی مہارت سے مٹا دیا ہے۔ ایک کاروباری شخصیت اور آصف زرداری کے درمیان جو کاروباری رشتے ہیں؛ آصف زرداری نے کبھی اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ کراچی کے ملیر ضلعے میں زمینوں پر جس طرح دن رات تعمیراتی کام جاری ہے اور جس طرح وہاں کے لوگوں سے زمینیں خریدی جا رہی ہیں اور زمین نہ بیچنے والے کی زمینوں پر جس طرح قبضے کیے جا رہے ہیں اس کی وجہ سے کراچی میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک نہ صرف متاثر ہو رہا ہے بلکہ وہاں کے لوگ اب تو مزاحمت پر اتر آئیں ہیں۔ ملیر میں کراچی کے قدیم گاؤں جس طرح ترقی کے نام پر تباہ ہو رہے ہیں؛ اس سلسلے میں بڑی مزاحمت شروع ہوئی ہے۔ اس مزاحمت سے بچنے کے لیے پیپلز پارٹی اے ٹی ایم کارڈ استعمال کرنے کے علاوہ اور تو کوئی کارڈ نہیں بچا اور شاید ہمارہ معاشرہ اس نہج پر پہنچا ہے جہاں سب سے مقبول نعرہ ’’بیچ دو‘‘ ہی بچا ہے۔ کیا اس نعرے سے آگے سیاست کوئی نیا موڑ لے گی؟ کیا سیاست پھر سے اپنے آپ کو تجارت سے جان چھڑائے گی؟ امیدیں تو بہت ہیں مگر اندیشے بھی کم نہیں۔